سچ تو یہ ہے،
اسلام آباد سے راولاکوٹ کا سفر، خوش گوار بھی ہے اور مختصر بھی۔
بشیر سدوزئی،
===========
بلاشبہ دل خوش اور طبعیت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے جب بندہ کہوٹہ سے آزاد پتن کی طرف سفر کرتا ہے۔ آزاد کشمیر کے ڈویژن پونچھ کو ملانے والا یہ راستہ 77 سال بعد پختہ بھی ہوا اور معیاری بھی، لیکن دیرآئید درست آئید کے مصداق فی زمانہ کمال خوبصورت، اور آرام دہ ہے۔ سانپ کی مانند بل کھاتی موڑ کاٹتی سڑک پر، کھائیوں، گاٹیوں سے اترتی چڑھتی، ندی نالوں کو عبور کرتی دوڑتی گاڑی آزاد پتن پہنچتی ہے، تو احساس ہی نہیں ہوتا کہ سفر کیا بھی کہ نہیں۔ سڑک دونوں جانب چیڑ کے درختوں کے گھیرے میں جنگلات کے بیچوں بیچ گزر کر دریا جہلم کے کنارے پہنچتی ہے اور یہاں ایک نئے منظر کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ ایک بلند پہاڑی ہے جہاں سے دریا جہلم پاوں میں محسوس ہوتا ہے۔ یہاں سے آزاد پتن تک سڑک اس قوم کو 76 سال تک رولاتی اور ستاتی رہی، ہر گزرنے والے نے وقت کے حاکموں کو کوسا بھی اور بدعائیں بھی دیں مطالبات بھی گئے اور ملاقاتیں بھی لیکن وقت کے حاکموں کو کبھی ان لوگوں پر خیال آیا نہ رحم جو اسی ٹوٹے پھوٹے، اور کبھی کیچڑ اور کبھی گارے بھرے راستے سے گزرتے اور کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ بلند کرتے رہے۔ بعض اوقات یہ دس پندرہ کلومیٹر کا فاصلہ گھنٹوں میں طہ ہوتا یا واپس ہو جانے سے پورا دن ضائع ہو جاتا۔ یہ علاقہ سلائٹ زدہ رہتا سڑک کبھی تعمیر ہوئی بھی تو چند دن کی مہمان رہتی، بارش کی چند بوندیں کیا پڑتی کہ سمندر کی طرف روانہ ہو جاتی اور پھر سے کیچڑ اور گارے سے گزرنا پونچھ کے مکینوں کا مقدر ٹھہرتا۔لیکن اب چائنا کے ماہرین نے اس بیمار سڑک کا ٹھیک سے علاج کیا جو ابھی بھی جاری ہے۔ بلند پہاڑی سے جوں ہی دریا جہلم پر نظر پڑتی ہے لگتا ہے کسی بڑی جھیل کے کنارے پہنچ چکے۔ دریا جہلم اب ڈیم کا روپ دہار چکا جہاں بلند ہوتے پانی نے پرانی سڑک کو آغوش میں لے رکھا ہے جس سے ہمارے ابواجداد کا گزر ہوتا تھا۔ کشمیر اور پاکستان کو ملانے والے اس پل کا نام و نشان نہیں رہا جہاں راجہ سخی دلیر کی قیادت میں مجاہدین نے ڈوگرہ فوج پر حملہ کیا تھا۔ دریا جہلم کی
کنارے کنارے یہ سفر بھی اب بہت خوب ہو چکا، گاڑی بلا روک ٹوک دوڑتی ہے اور تب ہی اسلام آباد سے آزاد پتن تک ڈیڑھ گھنٹے میں پہنچ جاتی ہے۔ آزاد پتن سے راولاکوٹ تک گنوئیں نالہ کے ساتھ ساتھ چلتی شاہراہ غازی ملت بھی کم خوبصورت نہیں اس کا یہ کمال کہ گاڑی لگ بھگ 45 منٹ میں شہر میں داخل ہوتی ہے جس کی بلندی ساڑھے پانچ ہزار فٹ ہے۔ ساڑھے پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچنے میں نہ گاڑی رکتی ہے اور نہ مسافر کو محسوس ہوتا ہے کہ چڑھائی چڑھی جا رہی ہے گویا اسلام آباد سے راولاکوٹ تک سو کلومیٹر پہاڑوں اور گاٹیوں کا یہ سفر ڈھائی گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے۔ میں نے 17 ترقی یافتہ ممالک کی سڑکوں کو گھوم پھر کر دیکھا ہے، کسی ہائی وے یا شاہراہ کے ساتھ اس کا موازنہ نہیں کر رہا۔ چند سال پہلے اور آج کے درمیان اسی سڑک کے فرق کو محسوس کر رہا ہوں۔ بلکہ 19 نومبر 1975 اور آج کا فرق دیکھ رہا ہوں جب پہلی مرتبہ معاش و صحت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسی راستے سے گزر کر مجھے دیش سے نکلنا پڑھا تھا، جیسے کوئی ملک بدر کر رہا ہو۔ جب میں صرف 14ویں سال میں لگا اور علی سوجل ہائی اسکول میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ صبح چار بجے نیم اندھیرے میں جبوتہ کے گاوٴں کہوکوٹ سے روانہ ہوا تو کچے کوٹھے کے نکڑ پر کھڑی ماں جی، بڑی بھاوج اور دونوں چھوٹی بہنوں نے آہوں، سسکیوں اور آنسوؤں کی لڑیوں کے ساتھ الوداع کیا تھا، مجھے کچھ کچھ یاد ہے کہ کافی فاصلے تک ماں جی کی سسکیاں کانوں میں پڑتی رہی، لیکن کرب و اضطراب میں ڈوبی ماں نابالغ بچے کو اپنے سے جدا ہونے سے نہ روک سکی۔ جس نے اپنے ہی بھائی کے حوالے کیا تھا۔ اس زمانے کی مائیں غربت سے تنگ آکر نہ چاتے ہوئے بھی اپنے کم عمر بچوں کو اپنے پیاروں کے حوالے کر کے پاکستان کے مختلف شہروں میں بھجتی اور عمر بھر کرب و اضطراب میں کڑتی رہتی، میرا بچہ کیسا ہو گا، میرا بچہ کیسا ہو گا۔۔ ماں تو ماں ہے لیکن غربت بھی کسی چیز کا نام ہے۔ اس وقت کی مائیں بہت دکھی رہتی تھی کبھی کسی چٹھی کا انتظار اور کبھی کسی تار کا اور بچہ دو چار سال بڑا ہوا تو منی آرڈر کا انتظار۔ ماں جی کو بھی خوب معلوم تھا کہ مجھے ابھی والدین کے زیر سایہ تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔ مگر غربت اور افلاس ممتا کے پیار پر بھاری تھا۔ اندھیرے کو نیم اجالا اور دور پہاڑی سے اوجل ہونے تک ماں جی اپنی ہمراہیوں کے ساتھ اسی جگہ کھڑی مجھے دیکھتی رہی تھی۔ اور یقینا روتی بھی رہی ہوں گی۔ لیکن مجھے مڑ مڑ کر دیکھنے اور ماں کی جدائی پر رونے کی ممانعت تھی۔ بڑے بوڑھے اور سیانوں نے کہہ رکھا تھا کہ پردیس میں جاتے وقت پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھنا کہ شاید تمارا یہ پلٹ کر پیچھے دیکھنا تیری ماں کو دکھی کر دے گا اور یہ دکھ اس کو مہینوں ستاتا رہے گا۔ اس کے باوجود موقع کی مناسبت سے میں پل جھپکتے پلٹ کر دیکھتا اور پھر تیزی سے منہ موڑ لیتا کہ ماں جی کی نظر نہ پڑھے۔ اسی کشمکش میں پہاڑی سے اوجل ہوا کہ نصف صدی گزر گئی پھرکبھی سکون و اطمینان سے اس گھر میں مکین کی طرح رہنا نصیب نہیں ہوا، کبھی آئے بھی تو مہمان کی مانند دو چار دن گزرے تو اس مقام کو چل دیئے جہاں 19 نومبر 1975 میں روانہ ہوئے تھے ۔ اب سب کچھ بدل چکا سوائے یادوں کی برات کے۔ وہی یادیں ہیں کہ وقفے وقفے سے کھینچ لاتی ہیں اور کراچی کی محبت پھر واپس کھینچتی ہے۔ دونوں خطوں کی مقناطیسی کشس میں سکہ بنے نصف صدی گزر گئی اور پھر وہی رونا کہ کچھ بھی پرانا نہیں رہا، کراچی میں نہ کشمیر میں۔ مجھے یاد ہے کہ والد محترم اور ماموں رحیم خان اور ان کے اہل خانہ کے ہمراہ ہم 7 بجے کھائیگہ پہنچے تھے۔ 4 گھنٹے کا یہ پیدل سفر بھی ایسا یاد گار ہے، صدق دل سے دعا نکلتی ہے کہ ہماری آئندہ نسلوں کو ایسے سفر سے واستہ نہ پڑھے۔ کہوکوٹ سے دوچھمبری تک نیچے اترنا اور دوچھمبری سے نامنوٹہ تک چڑھنا آج کی نسل کو عرش و زمین کا فاصلہ لگتا ہے۔ وہاں سے کھائیگہ تک پہنچنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ کھائیگہ سے راولپنڈی تک 8 سے 10 گھنٹے کا سفر بھی کسی مصیبت سے کم نہ تھا۔ سب سے زیادہ مشکلات آزاد پتن سے گزرتے ہوئے ہوتی جہاں کئی مرتبہ مسافروں کو اتر کر کیچڑ اور دلدل میں پھنسی بس کو دہکا دینا پڑھتا۔ پنجاڑ کی چڑھائی بھی یاد ہے جب سب مسافر بس سے اترے اور آخر میں بچے اور عورتیں بھی، تب جا کر بس حرکت میں آئی وہ بھی جوانوں کی زور آوری سے چڑھائی چڑھی ۔ مختصر یہ کہ ہم 12 چودہ گھنٹے کی سخت مشقت والی مسافت کے بعد رات کو کسی وقت راولپنڈی پہنچے تو پہلی مرتبہ بلب دیکھا اورچکا چوند روشنی کے باعث آنکھیں چندھیا گئیں تھیں۔ لگ بھگ نصف صدی کے نشیب و فراز کے بعد آج 16 جون 2024ء کو میں اسی سڑک پر ٹیوٹا کرولا کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا اسلام آباد سے راولاکوٹ کا سفر کر رہا ہوں، سفر کتنا آرام دہ اور حسین ہے کہ لکھنے کے لیے الفاظ نہیں۔ نصف صدی پہلے وہ سب لوگ جو میری الودعی میں افسردہ تھے ان میں اکثریت دنیا میں موجود نہیں حتی کہ والد محترم اور بھاوج بھی۔ ماں جی کے پاس پہنچوں کا تو وہ مجھے سن تو سکے گی دیکھ نہیں، دونوں معصوم بہنیں بڑھاپے میں بلڈ پریشر شوگر اور نہ معلوم کن کن بیماریوں اور کس کس دکھ میں ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر جس کچے کوٹھے کے نکر پر کھڑے ہو کر ماں جی نے الودع کیا تھا وہ بھی موجود نہیں۔ ہاں اس جگہ اور اس کے اطراف کئی کنال زمین میں سریہ اور سمنٹ کے مکانات کو کالینوں اور مہنگے فرنیچر سے مزئین کر رکھا ہے لیکن ان میں نہ وہ محبتیں ہیں نہ وہ الفتیں اور چاتیں اور نہ کوئی کسی کو الوداع کرتے روتا ہے نہ کسی سسکی اور آہ کی آواز آتی ہے سب کچھ بدل گیا حتی کہ کہوٹہ آزاد پتن روڑ بھی۔ ممکن ہے روز گزرنے والوں کو اس کا احساس نہ ہوتا ہو، لیکن میں پچھلی نشست پر بیٹھی بیگم اور چھوٹی صاحب زادی ڈاکٹر راضیہ خانم سے پہلو بچا کر کہوٹہ سے آزاد پتن اور وہاں سے راولاکوٹ تک کبھی روتا اور کبھی ہنستا رہا، کبھی افسردہ اور کبھی خوش ہوتا رہا لیکن جو بھی جذبات تھے شکرانے کے اظہار کے تھے کہ کہاں سے سفر شروع کیا تھا کہاں تک پہنچا۔ کہوٹہ سے تھوڑا سا آگئیں ہمارا پرانا اور پسندیدہ ہوٹل عباسی غیر معیاری چائے کے باعث مسافروں اور خاص طور پر ڈرائیوروں کی توجہ کھو رہا ہے، اور اس میں کیا شبہ کہ لمبے روٹ کے ہوٹل کاروبار ڈرائیوروں کے ساتھ بہتر تعلقات کے بغیر نہیں چل سکتا۔ سو میرے ڈرائیور نے بھی کہوٹہ سے راولاکوٹ جاتے ہوئے عباسی ہوٹل پر رکھنے سے معذرت کی کہ اس کی چائے اچھی نہیں میں آپ کو معیاری اور لذیذ چائے آگئیں کسی اور ہوٹل پر پلاتا ہوں۔۔ میں نے بھی ڈرائیور صاحب کے بگڑے تہور دیکھ کر چپ سادہ لی اور اچھی چائے والے ہوٹل کی انتظار میں بیٹھا رہا، پنجاڑ میں پہاڑ کے دامن میں ایک کشادہ اور پختہ ہوٹل کو قائم ہوئے ابھی چند سال ہی ہوئے ڈرائیور حضرت کی توجہ کا مرکز بن گیا یا اس کے مالک نے ڈرائیوروں کے دل میں گھر بنا لیا۔ کاروں اور بسوں کی لان لگی ہوئی ہے۔ ایک آتی ایک جاتی ہے۔ بلا مغالطہ کہا جا سکتا ہے کہ چائے بہت لذیذ ہے اور مالکان کا اخلاق بھی بہت اعلی ہے۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ میں آپ کو اسی ہوٹل پر رکنے کے لیے اکسا رہا ہوں پسند اپنی اپنی اور تعلق اپنا اپنا، میں تو صرف اپنے ڈرائیور کی پسند کی تعریف کر رہا ہوں کہ اس میں لالچ نہیں تھی۔ کم از کم آدھا گھنٹہ تو اس ہوٹل پر رکھنا بنتا ہے۔ اس ہوٹل کی نئی عمارت تعمیر ہوئی جس کا ابھی کوئی نام نہیں لیکن نام کی کیا ضرورت اس کا کام ہی کافی ہے۔ واقعی چائے میں اسی طرح کی لذت جیسے ہمارے کراچی میں شنواری کی چائے کا ذائقہ ہوتا ہے
یہ آدھا گھنٹہ سفر سے نکال دیں تو اسلام آباد سے راولاکوٹ کا سفر ڈھائی گھنٹے کا رہ جاتا ہے۔
نوٹ: اگلی قسط کا انتظار فرمائیں