سندھ کی جن سڑکوں کے بارے میں طعنہ دیا جاتا تھا کہ سفر کرتے ہوئے مردے بھی کھڑے ہو جاتے ہیں انہیں پیپلز پارٹی نے سلک روڈز میں تبدیل کر دیا نواب شاہ اور میر پور خاص ڈویژن کی سڑکیں جا کر دیکھ لیں کھپرو سے عمرکوٹ ہو یا ٹھٹھہ سے ملیر تک ۔ اربوں روپے کے فنڈز خرچ کر کے تھر پارکر سے اپوزیشن کا صفایا کر دیا پیپلز پارٹی خدمت کر کے جیت حاصل کرتی ہے کراچی میں بھی یہی ہونا تھا کچھ حساب کتاب میں گڑبڑ ہو گئی کشمور سے کراچی تک پیپلز پارٹی کو خدمت پر ووٹ ملتا ہے سندھ اسمبلی میں وزیرا اعلی سید مراد علی شاہ کی 135 ویں تقریر میں دھواں دھار انداز خطاب ، ارکان نے زور زور سے ڈیسک بجا کر وزیراعلی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی کارکردگی کو داد دی ۔ ایوان شاباش سے گونج اٹھا
====================
سندھ اسمبلی مکمل خبر
کراچی (نامہ نگار خصوصی ) سندھ اسمبلی نے جمعرات کو اپوزیشن کی مخالفت کے بغیرسندھ کے 213.164 بلین روپے مالیت کے ضمنی بجٹ کی منظوری دیدی، جمعہ کو ایوان آئندہ مالی سال کے بجٹ اور فنانس بل کی منظوری دے گا۔وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ عوام کی خدمت پر یقین رکھتی ہے ،سندھ کے عوام نے ہمیشہ ہم پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ہم اس پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے،آئندہ مالی سال کے دوران صوبے میں زیادہ ترقیاتی اسکیمیں مکمل کرکے دکھائیں گے ، کراچی میرا بھی شہر ہے اس کے ترقی ہمیں بہت عزیز ہے ، کراچی میں پانی اور دوسرے بنیادی مسائل حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، شہر میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں کے دوران جاں بحق ہونے والوں کے ورثاءکو دس لاکھ روپے فی کس معاوضہ ادا کیا جائے گا۔۔سندھ حکومت اپنے ٹیکس نیٹ کوبڑھارہی ہے مگر اس کا اثر غریب لوگوں پر نہیں پڑے گا۔ آئندہ ہر وہ اسکول جس کی فیس سال میں5لاکھ سے زائد ہوگی اسے ٹیکس دینا ہوگا۔42ہزار ماہانہ فیس والے اسکولوں پرٹیکس لگایاگیاہے، نجی اسکولوں سے ملنے والا ٹیکس محکمہ تعلیم کو دیا جائے گا،جس نجی اسپتال کے بیڈ کی یومیہ فیس25ہزار سے زائد ہوگی اسے بھی ٹیکس دینا پڑے گا۔تین ہزار سے زائد فیس لینے والے ڈاکٹرز بھی ٹیکس دیں گے ۔انہوں نے یہ بات جمعرات کو سندھ اسمبلی میں گزشتہ سات روز سے جاری بحث کو سمیٹتے ہوئے اپنے خطاب میں کیا ۔وزیر اعلیٰ نے اپنی طویل بجٹ تقریر میں حکومت سندھ کی ترجیحات ، آئندہ منصوبوں اور صوبے کی معاشی ، سیاسی اور سماجی صورتحال پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی اور واضح طور پر کہا کہ وہ میڈیا کے سامنے نہیں بلکہ سندھ کے عوام اور اس ایوان کے سامنے جوابدہ ہیں۔سندھ اسمبلی میں جمعرات کو اپوزیشن کے کسی شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کے بغیر وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنی بجٹ تقریر مکمل کی ۔اس سال ایوان میں صوبائی بجٹ پر 133ارکان نے تقاریر کیں۔وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ آج میں ایک سو بتیسویں تقریر کر رہا ہوں ،پچھلے سال 81 تقاریر ہوئی تھیں ۔انہوں نے کہا کہ سندھ اسمبلی شہید بینظیر بھٹو اور شھید بھٹو کے اصولوں کے مطابق چلتی ہے،اس وقت ہمارے پاس 117 سیٹیں ہیں۔ کبھی اتنی سیٹیں نہیں لیں ، آئندہ اس سے زیادہ لیکر دکھائیں گے۔انہوں نے کہا کہ فروری کے عام انتخابات سے قبل ہم سندھ میں بہت کام کرکے گئے تھے
لیکن الیکشن کمیشن نے ہماری اسکیموں پر کام روک دیا جبکہ پنجاب میں ایسا نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ میں اپنے دس سالہ دور کا حساب دینے کو تیار ہوں ۔تھر میں کام قائم علی شاہ کے دور میں ترقیاتی کاموں کا سلسلہ شروع ہوا تھا ،یہ سارے کام ہم نے گزشتہ پانچ سال میں مکمل کیے ہیں ۔تھر میں ہم نے ایئرپورٹ بنایا ہے، اس سے پہلے کسی صوبائی حکومت نے ایئرپورٹ بنایا ہے؟ تھر میں ہسپتال اسکول اور سوشل سیکٹر میں بہت کام کیا ۔انہوں نے کہا کہ میں چالیس سال سے گاڑی چلا رہا ہوں ہوں لیکن مجھ سے ٹرک نہیں چلا لیکن تھر کی خواتین ٹرک چلاتے ہیں ،آر او پلانٹ بھی تھر میں خواتین چلاتی ہیں ۔ وہاںہمارے موبائل ہسپتال قائم علی شاہ کے دور میں شروع ہوئے تھے ۔انہوں نے کہا کہ چلڈرین ہسپتال کورنگی میں تمام پرائیویٹ ہسپتالوں سے زیادہ سہولیات ہیں ۔جناح میں تیسری سائبر نائیف اکتوبر میں فنکشنل ہوجائی گی۔ قائد ایوان نے کہا کہ ڈاکٹر ادیب رضوی نے 1971 سے کام± شروع کیا، ادیب رضوی سے جا کر پوچھیں وہ بتائیں گے کہ صدر زرداری بے کتنا سپورٹ کیا ۔ایس آئی یوٹی میں ملک بھر سے مریض آتے ہیں ،ہم± نے ایس آئی یو ٹی میں روبوٹک سرجری شروع کی ۔انہوں نے قائد ھزب اختلاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے سندھ کو دیکھا ہی نہیں ہے، آپ± سندھ کو دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ہم نے سندھ پر کتنا پیسہ خرچ کیا ہے ۔ حکومت سندھ نے ہم نے سندھ بھر میں روڈز کا جا ل بچھایا ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے وفاق سے درخواست کی کہ لیاری ایکسپریس وے ہمارے حوالے کریں اور ہیوی ٹریفک چلائیں ،منچھر جھیل کے بند کو± اونچا کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ وہ تمام وجوہات ہیں جس کی وجہ سے لوگ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ تھرپارکر میں ہم ایک سیٹ نہیں لیتے تھے اب وہاں اپوزیشن زیرو ہوگئی ہے، مستقبل میں کراچی بھی میں اپوزیشن زیرو ہوجائے گی ، ہم نے زراعت کے شعبے میں بھی بہت کام کیا۔سندھ حکومت نے اسپورٹس کے لیے بھی بہت کام کررہی ہے۔22یوتھ ڈولپمنٹ سینٹرز بھی بن چکے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ علی خورشیدی نے 70, 80 مںصوبے گنوائے ہم نے گزشتہ پانچ سالوں میں 3580 منصوبے مکمل کیے گزشستہ پانچ سالوں میں۔ مراد علی شاہ نے شکوہ کیا کہ 2018سے 2022 تک وفاقی حکومت نے سندھ میں ایک بھی منصوبہ نہیں بنایا۔این ایچ اے نے پورے پاکستان میں سڑکیں بنائی ہیں لیکن سندھ میں نہیں بنا رہا ۔انہوں نے وفاقی حکومت سے کہا کہ آپ نے پنجاب کی ڈسٹرکٹ کی سطح پر روڈ بنا دیئے ہیں اور ہمارے مین ہائی ویز نہیں بنا رہے ۔وفاقی حکومت کو اب بھی پچاس پچپن ارب روپے دینے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ کراچی کی ترقی کے لیے اپوزیشن کی مدد کی ضرورت ہوگی ۔انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ شہباز شریف وزیر اعظم بنے تو وفاق نے سندھ کے منصوبے شامل کئے لیکن نگران حکومت نے آکر ان منصوبوں پر کام رکوادیا جبکہ باقی صوبوں میں پرانے منصوبوں کے نام پر کام چلتا رہا ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس سال بھی وزیر اعظم سے رابطہ کیا اور سندھ کے منصوبے شامل کیے اور منظوری بھی لی ۔انہوں نے کہا کہ وفاق نے پہلے سے زیادہ فنڈز سندھ کے لیے رکھے ہیں۔شہباز شریف صاحب کو یاد دلاتے رہیں گے کہ سندھ سے کیے وعدے پورے کریں۔انہوں نے طنزیہ کہا کہ صوبے کے عوام کے لئے کام کرو گے تو فارم 45 اور 47 کے چکر میں بھی نہیں پڑنا پڑیگا۔مراد علی شاہ نے کہا کہ حب کینال منصوبہ ایک سال میں مکمل کریں گے، پیسہ جمع کریں گے امید ہی کابینہ بھی ساتھ دیگی۔ دل سے اور نیک نیتی سے کوشش ہے کہ یہ منصوبہ مکمل کریں گے ۔ قائد ایوان نے کہا کہ سیف سٹی سے سندھ میں داخلی اور خارجی راستوں کو مانیٹر کیا جائیگا ،چالیس کے قریب سندھ کے انٹری پوائنٹس ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اسٹریٹ کرائم افسوس ناک بات ہے ۔پورے سندھ میںڈکیتیوں کے دوران 85 ہلاکتیں ہوئی ہیں ۔ڈکیتیوں میں قتل ہونے والوں کے پاس ضرور جانا چاہیے تھا ہم نہیں جا سکے بل یہ ہماری غلطی ہے ۔ تاہم حکومت سندھ نے فیصلہ کیا ہے کہ جان دینے والوں کے لواحقین کو دس دس لاکھ روپے دیں گے انہوں نے کہا کہ پورے سندھ میں کل 9وومین پولیس اسٹیشن ہیں ۔کے فور منصوبے کی تکمیل میں بہت زیادہ تاخیر ہوئی ہے مگر یہ منصوبہ بھی ہم مکمل کرکے دکھائیں گے ۔وزیر اعلیٰ نے اس منصوبے کی تاخیر سے متعلق وجوہات کا بھی ذکر کیا۔سندھ واحد صوبہ ہے جہاں 22 ملین ڈالر ماحول کو بہتر کرنے پر خرچ کئے ۔ اس سے پہلے کبھی بھی سیلاب متاثرین کے لیے گھر نہیں بنائے گئے ،بلاول بھٹو کو ہر جگہ لوگ کہہ رہے تھے کہ گھر بنا کر دو ،اکتوبر 2022 میں بلاول بھٹو نے مجھے کہا کہ گھر بنانے والے منصوبے پر کام کرو۔وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی ہاﺅسنگ اسکیم± بنا رہے ہیں ۔اکیس لاکھ میں سے آٹھ لاکھ خواتین ہیں جو گھر بنا رہی ہیں، اس وقت ڈیڑھ لاکب سے زائد گھر تیار ہیں۔جنیوا کانفرنس میں ہم گئے انہوں نے کہا اپنا پراجیکٹ پیش کریں پھر ہم± نے یہ پراجیکٹ پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے کام کیا ہے تو اسے ووٹ ملے 115 الیکٹڈ ممبرز ہمارے ہیں ، ہمیںاپوزیشن کھیلنے کے لئے چاہیے ،آئندہ انتخابات میں موجودہ نشستوں سے زیادہ نشست حاصل کریں گے مگر کھیلنے کے لیے اپوزیشن ضرور رکھیں گے۔انہوں نے بتایا کہ میں 84 فیصد ووٹ لیکر جیتا ہوں۔ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہسول ہسپتال حیدرآباد کا بجٹ کم نہیں بڑھایا ہے۔انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کہیں کہیں اپوزیشن نے کہا تعصب نہ کرو، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ میرے لیے گالی ہے۔ کراچی میرا ہے، آپ لوگوں سے زیادہ کراچی میں نے دیکھا ہے ۔کراچی میں ایک سال میں100ایم جی ڈی پانی دینگے۔سندھ اسمبلی میں رواں مالی سال کے ضمنی مطالبات زر پر اپوزیشن نے کٹوتی کی کوئی تحریک جمع نہیں کرائی،وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے 213.164 بلین روپے کا ضمنی بجٹ اسمبلی میں پیش کیا جس کی ایوان نے اتفاق رائے سے منظوری دے دی ۔ جمعہ کو اگلے مالی سال کے صوبائی بجٹ اور فنانس بل کی منظوری لی جائےگی۔ ضمنی بجٹ متفقہ طور پر منظور کئے جانے کے بعد سندھ اسمبلی کا اجلاس جمعہ کی صبح دس بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
کراچی (نامہ نگار خصوصی ) سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف علی خورشیدی نے کراچی سمیت سندھ میں بجلی کے تقسیم کار اداروں کی کارکردگی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر فوری طور سے وزیراعظم سے بات کریں ۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ ادارے لوڈ شیڈنگ بند نہیں کرسکتے تو سندھ سے بھاگ جائیں۔
جمعرات کو اپنی گزشتہ روز کی نامکمل بجٹ کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے – شہر میں بارہ سو ایم جی ڈی پانی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ملتا ساڑھے چار سے پانچ سو ایم جی ڈی تک ہے – کے فور پراجیکٹ کی کہانی ایک عرصے سے سنتے آ رہے ہیں , اس سال میں بھی کے فور کا پراجیکٹ مکمل نہیں ہو سکا انہوں نے کہا کہ کراچی والوں کو یہ غرض نہیں کہ کام وفاق نے کرنا ہے یا سندھ کو کرنا ہے شہری اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں کراچی میں 2008 سے اس سال تک پانی کا ایک قطرہ تک نہیں دیا – کراچی سرکلر ریلوے ایسا منصوبہ ہے جسکا نام بچپن سے سنتے آ رہے ہیں – وفاق اور سندھ حکومت کا کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے میں دلچسپی نظر نہیں آ رہی – قائد حزب اختلاف کی تقریر کے دوران ایوان میں پانی دو پانی دو کے نعرے لگتے رہے جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کیا نعرے بازی کی اجازت ہے ؟ علی خورشیدی نے کہا کہ ایم کیو ایم اور عوام کا کے الیکٹرک کو لے کر رونا سب نے سنا ناصر شاہ نے سعید غنی کی قیادت میں کمیٹی بھی بنائی لیکن لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے – انہوں نے مطالبہ کیا کہ کے الیکٹرک کے سی ای او کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جائے – انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک والے بدمعاش ہیں ان سے سب پریشان ہیں – انہوں نے کہا کہ قبیلے کا ایک شخص قصوروار ہوتا تھا تو سزا پورے قبیلے کو ملتی تھی وہی مثال مونس علوی کی ہے-علی خورشیدی نے کہا کہ میٹرک کے امتحانات میں نقل مافیا سرگرم دکھائی دیا – محکمہ تعلیم میں سیاست سے بالا ہونے کی ضرورت ہے , بورڈ کے معاملات ٹھیک نہیں ہو رہے , سینٹر میں بچہ پرچہ دینے جاتا ہے تو آخری لمحے میں سینٹر تبدیل کر دیا جاتا ہے – سندھ کے نوجوانوں کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سے مطالبہ کیا کہ وہ کے الیکٹرک کی بدمعاشی کے خلاف وزیر اعظم سے سنجیدہ ہو کر بات کریں کیونکہ کراچی میں محسوس کیا جانے والا درجہ حرارت پچاس ڈگری کو تجاوز کر گیا ہے ہیٹ ویو کی لہر برقرار ہے ایسے میں لوڈ شیڈنگ نہ کی جائے۔حیسکو اور سیبکو دونوں ہی بد معاش ہیں – انہوں نے کہا کہ اگر کے الیکٹرک قبلہ درست نہیں کر سکتی تو اس شہر سے بھاگے- علی خورشیدی نے کہا کہ کراچی میں زمینوں پر قبضے ہو رہے ہیں – کب تک یہ مسائل اسی طرح چلتے رہیں گے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے کچھ جماعتوں کے منشور پڑھے سب سے بہترین منشور پیپلز پارٹی کا لگا ۔اب ذرا اس منشور کا آپریشن کردوں , اس میں ماحولیات اور گرین منصوبوں کا ذکر ہے لوگ سوچتے ہونگے کہ اس جماعت کی حکومت جس صوبے میں ہوگی وہاں تو اس پر بہترین کام ہورہا ہوگا مگر سندھ حکومت اپنی قیادت کی ہی بات نہیں سنتے اور منشور کے خلاف کام کررہی ہے منشور میں لکھا ہے تعلیم سب کے لیے ہے قول و فعل کا تضاد اس محکمے میں بھی نظر آیا – منشور میں لکھا ہے صحت ایک نعمت ہے مگر وہاں بھی ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے سرکاری اسپتال بتاتے ہیں بڑی زبردست چل رہے ہیں لیکن سرکاری ملازمین ہی ہیلتھ انشورنس نجی اسپتالوں میں کی جاتی ہے – انہوں نے کہا کہ شرجیل میمن نے کہا ہمیں پندرہ سو بسوں کی ضرورت ہے ۔غیرقانونی طور پر مقیم افغانیوں کو سنجیدہ لینا پڑے گا، ورنہ یہ لوگ ہماری جانوں کو آجائیں گے۔ یہ شھر کافی عرصے سے بھگت رہا ہے، اب صوبہ بھگتے گا – کالاباغ ڈیم پر ہمیں بھی تحفظات ہیں، اس طرح کی شرارتوں کی بھرپور مذمت کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بہتر کراچی ہوگا تو بہتر سندھ اور بہتر پاکتسان ہوگا – قائد حزب اختلاف نے سوال کیا کہ اگر ٹیکس فری بجٹ ہے تو فنانس بل کیوں لائے ہیں؟ آپ لوگوں نے ٹیکس لگانے کی کوئی جگہ نہیں چھوڑی , ہم ٹیکس دینے والے ہیں انہوں نے کہا کہ لوگوں کے گھروں میں پانی بجلی گیس نہیں ہے اور آپ ٹیکس بڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔