تحریر: سہیل دانش
==============
دو سال قبل نہ جانے کتنے دُکھوں کا بوجھ، انا کی کچلی ہڈیاں، اور عزت نفس کی کرچیاں سمیٹے وہ ہم سے دُور چلے گئے۔ آج دو سال بعد مجھے اُن لمحات میں جب عرفات کے میدان میں لاکھوں فرزندانِ توحید اللہ رب العزت سے اُس کا رحم و کرم طلب کررہے ہیں مجھے اُن کی یہ بات یاد آرہی ہے جو وہ خانہ کعبہ میں طواف کی سعادت اور روضہ رسولﷺ پر حاضری کے لئے حجاز مقدس روانگی سے قبل کیا کرتے تھے کہ جب بھی احرام پہنتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس سادہ لباس نے عیوب بشریت کے تمام داغ چھپالئے ہیں وہ کہا کرتے تھے کہ حج بیت اللہ کے موقع پر حاضری دینے والے ہر شخص کا یہ احساس کہ اللہ اُسے دیکھ رہا ہے جذبہ ایمان کی اس سرمستی میں لاکھوں انسانوں کا یہ ڈسپلن اور یگانگت کا یہ نظارہ جسے فلک بھی سر اُٹھاکر نہیں دیکھ سکتا۔ جہاں اللہ کا رنگ انسانی روح میں رچتا نظر آتا ہے۔ میں دو سال سے سوچ رہا ہوں کہ آخر اُس عامر لیاقت حسین کو کس احساس توہین نے اپنی گرفت میں سمیٹ لیا جس سے اُنہیں اپنی شخصیت کی وہ عمارت منہدم ہوتی نظر آئی جس کی بنیاد اُنہوں نے بڑی محنت سے رکھی اور جس کی تعمیر میں اللہ کے کرم کے بعد اُن کی خداداد صلاحیتوں کا کمال تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اُن کی زندگی کے آخری ایام میں اُن سے ملاقات نہ ہوسکی اور اس بات کی تصدیق برادرم وسیم بادامی سمیت متعدد ایسے دستوں نے کی جو زندگی کے آخری سال میں اُن سے ملتے رہے تھے کہ وہ زندگی کے آخری دنوں میں کسی ڈپریشن کا شکار ضرور تھے
کسی سے ملنا جلنا چھوڑدیا تھا اور یہ بھی ایک ایسا نفسیاتی مرحلہ ہوتا ہے جو انسان کو چڑچڑا اور بیزار بنادیتا ہے ہاں جس عامر لیاقت کو میں جانتا ہوں وہ ایک ایسا زندہ دل انسان تھا۔ زندگی جس کے انگ انگ سے نشر ہوتی تھی میری اُن کے والد سے اُس وقت کی شناسائی تھی جب ایم کیو ایم کے عروج کے دور میں شیخ لیاقت حسین اس جماعت کے ایک مضبوط ستون کا درجہ رکھتے تھے اور اِس جماعت کے قائد اُنہیں بڑی قدرومنزلت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ پھر ان کے بھائی عمران لیاقت نوائے وقت میں ہمارے دفتری ساتھی بنے تو اُن کے گھر آنا جانا ہوگیا۔ اُن کی والدہ محترمہ محمودہ سلطانہ صاحبہ ایک انتہائی مشفق اور ملنسار خاتون تھیں، بیگم صاحبہ کے ہاتھ کے بنائے ہوئے کھانے مجھے آج بھی یاد ہیں جو وہ بڑی محبت سے مدعو کرتیں اور ہمیں اُنکے دسترخوان پر بیٹھنے کا اعزاز حاصل ہوتا۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کو دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ زندگی کو مختلف کھیلوں کی ٹیکنک کو آزمانے کی کوشش کرتے رہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہر انسان کے سامنے بے شمار ترغیبات ہوتی ہیں زندگی ایک کھیل ہے اور یہ کھیل نت نئی آزمائشوں سے ہماری صلاحیتوں کو آزماتا ہے، ڈاکٹر صاحب سے 1998ء میں جب اِس حوالے سے پہلی ملاقات ہوئی کہ اُنہوں نے ہمارے ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو میرے لئے یہ خوشی کی بات تھی یہ وہ دور تھا جب عامر بھائی اپنے بڑے بڑے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لئے کوشاں تھے۔ اُن کے سامنے ترغیبات کا ایک سمندر تھا وہ اِس سمندر میں ایک چھوٹی سی کشتی میں سوار تھے اور اُن کے پاس محنت کے صرف دو چپوموجود تھے آپ کو کھلے سمندر میں ایک چھوٹی سی کشتی میں دو چپوؤں کی مدد سے کنارے پر پہنچنا ہو تو یہ آپ کے وزڈم کا امتحان ہوتا ہے آپ کے چاروں طرف پانی ہو اور آپ اُسے پی بھی نہیں سکتے یہ کشتی رانی کا پہلا اصول ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے تقریباً ایک سال تک ہمارے روزنامہ دن میں بحیثیت میگزین ایڈیٹر کام کیا۔ وہ پرچم اخبار میں بڑے خوبصورت کالم بھی لکھا کرتے تھے۔ اُنہیں محسوس ہوا کہ شاید ایک قدم آگے بڑھنا چاہئے یہ اُن کے زرخیز ذہن کا کمال اور مقدر کی سکندری تھی کہ اُنہیں جیو جیسی مقبول اسکرین پر جگمگانے کا موقع ملا اس مرحلے پر اُنہوں نے ہاکی اور فٹبال کے گیم کی طرح اِس سبق پر عمل کیا کہ جب تک ہم پوری ٹیم کا حصہ نہیں بنتے یا ٹیم کو اپنا حصہ نہیں بناتے اُس وقت تک چیلنج پر پورے نہیں اُترسکتے۔ پروگرام عالم آن لائن کی فقیدالمثال کامیابی میں بحیثیت کپتان اُن کی زندگی کا سب سے بڑا بریک تھرو تھا۔ سب سے پہلے کبڈی کے ایک طاقتور اور مستعد کھلاڑی کی طرح اُنہوں نے اپنے سامنے آنے والی مخالفتوں، مسائل اور پریشانیوں کو پسپا کیا۔ اِس کے بعد عامر لیاقت حسین نے رگبی کے کھیل سے “ہولڈ” کرنے کا یہ داؤ سیکھا کہ اگر تمہیں زندگی میں ایک بار چانس مل جائے تو تم کبھی اِس چانس کو ہاتھ سے نہ نکلنے دو۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں مختلف کھیلوں کی ٹیکنک اُن کی رہنما دکھائی دیتی ہے۔ سائیکلنگ کے کھیل سے اُنہوں نے یہ سیکھا کیونکہ یہ کھیل درس دیتا ہے کہ اچانک ناکامی میں ہمت ہاری تو سارا کھیل ختم ہوجائے گا۔ ڈاکٹر صاحب زندگی کے آخری دو دہائیاں تجربات کرتے رہے۔ نامعلوم خطرات اُن پر منڈلاتے رہے۔ لیکن اُن کے ذہن میں یہ راسخ سوچ موجود تھی کہ وہ ایک برانڈ ہیں اُن کا نام اور کام بکتا ہے دنیا کے ہر کھیل میں زندگی کے لئے کوئی نہ کوئی سبق چھپا ہے۔ کرکٹ سے عامر بھائی نے یہ سیکھا کہ کرکٹ کی کریز یہ سبق دیتی ہے دنیا میں وہ بیٹسمین کامیاب رہتا ہے جو کریز پر جم کر کھڑا رہتا ہے آپ اِس کھیل میں گیند کو روکتے ہیں ایسی گیند آپ کو مل جائے گی جس پر آپ چوکے چھکےمارسکیں۔ شاید یہاں ڈاکٹر صاحب چوکے۔ وہ شاید اپنی کامیابیوں کی رفتار کو کنٹرول نہ کرسکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ آج تک ایک ٹرینڈ سیٹر ہیں۔ بڑے بڑے ٹی وی اینکرز اُن کی تقلید کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب سے آخر میں ایک غلطی ہوگئی اُن کی نظر “لڈو” کے سانپ اور سیڑھی کے کھیل پر نہیں رہی۔ اِس کھیل کی طرح ہم زندگی کی سیڑھی پر اوپر کی طرف بڑھتے رہتے ہیں پھر کسی طرف سے ان دیکھا سانپ آتا ہے وہ ہمیں ڈستا ہے اور ہم نیچے گرتے ہیں اور اگر اِس مرحلے پر ہم ہمت ہارجائیں تو پھر ہمارا کھیل ختم ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کھلی کتاب کی طرح ہے وہ یقیناً وسیع المطالعہ دانشور اور مذہبی اعتبار سے ایک عالم تھے۔ وہ کرکٹ کے ویرات کوہلی تھے جو کھیل کو اپنی منشاء کے مطابق “سلو” اور فاسٹ کرسکتا ہے وہ فٹبال کے لیونل میسی تھے جو کسی بھی وقت اپنی کارکردگی سے سب کو حیران کرسکتا ہے وہ باکسنگ کے محمد علی تھے۔ جسے معلوم تھا کہ کونسا گُر کس مرحلے پر کارگر ہوسکتا ہے لیکن شاید وہ چوک گئے کہ سیاست کی پُرخار اور نجی زندگی کی غیر متوقع وادی میں نادیہ کمیونینسی جیسی شہر آفاق جمناسٹ کے انداز میں جادوئی پیچ و خم کا کھیل مہنگا پڑسکتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر وہ “لڈو” کا سانپ سیڑھی کا کھیل نہ سمجھ سکے۔ اللہ رب العزت سے دُعا ہے کہ وہ ایسے باکمال انسان اور سب کے ہر دلعزیز عامر لیاقت حسین کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔(آمین)