تاجر تجارت کے لیے بے چین مقبوضہ کشمیر میں 100 گرفتار۔

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی،
=============

پاکستانی تاجروں کو ملک کی بگڑتی معاشی صورت حال کھائی جا رہی ہے یا منافع میں کمی چین نہیں لینے دیتی۔ کوئی مسئلہ تو ہے جو انہیں بے چین کر رہا ہے، بھارت کے ساتھ تجارت بحال کرنے کے مطالبے پر مطالبہ کر رہے ہیں۔ جیسے واہگہ بارڈر سے داخل ہونے والے پہلے کنٹینر سے ہی پاکستان کی معیشت آسمان پر چلی جائے گی۔ یہ لوگ واقعی ملک کے ساتھ اتنے ہی مخلص ہیں تو 11 ارب ڈالر جو صرف دبئی میں لگا رکھے ہیں ملک میں کیوں نہیں لے آتے۔ کیا یہ 30 گھرب روپے جو ملک سے باہر لے گئے کسی غریب یا درمیانی سفید پوش افراد کا ہے۔ یہ تو انہی سرمایہ داروں اور تاجروں کا ہے جن کو بھارت کے ساتھ تجارت کی جلدی ہے۔ گزشتہ ماہ لاہور چیمبر آف کامرس نے انڈین سفارت کار کو مدعو کیا اور صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر ہی گفتگو ہوتی رہی، کہ تجارت بحال کرو، تجارت بحال کرو۔ اس نے بھی سفارتی زبان و آداب میں ایسے گیلے چھتر مارے کہ تھوڑی بہت حمیت بھی ہوتی تو چلو بھر پانی کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔ بے شک عارف حبیب پاکستان کے بڑے سرمایہ کار ہیں اور ان کی بڑی عزت و شان ہے لیکن چھوٹی بات جو بھی کرے کیوں کر بڑا کہلائے۔ ہفتہ رفتہ کراچی میں وزیر اعظم کو مشورہ دے رہے تھے کہ آپ نے کئی ہاتھ ملائے دو ہاتھ اور ملا دیں۔ ایک ہاتھ آڈھیالہ کے مکین سے ملانے اور دوسرے ہاتھ کا اشارہ بھارت کی جانب تھا۔ عین اسی وقت مقبوضہ وادی کے دورے پر آئے راج ناتھ سنگھ کہہ رہے تھے کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے جلد یا دیر بھارت لے کر رہے گا۔ اسی دوران مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز نے بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن کے نام پر شہر، شہر گاوں، گاوں محاصرہ کیا ہوا تھا۔ کئی مقامات پر تازہ جھڑپوں میں کئی ہلاک و زخمی ہونے کی اطلاعات آ رہی تھیں۔ جب کہ
سوپور کے علاقے نورپورہ میں حریت پسندوں اور بھارتی فورسز کے درمیان دو روز تک جاری رہنے والے معرکہ میں دو حریت پسند اور ایک فوجی کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ اسی روز بھارتی فوجیوں اور پیراملٹری فورسز نے بانڈی پورہ اور راجوری اضلاع میں جاری محاصرے اور تلاشی کی کے دوران(100) سو سے زائد کشمیریوں کو گرفتارکر لیا۔ جس روز عارف حبیب بھارت کے ساتھ تجارت بحال کرنے پر زور دے رہا تھا اس کے دوسرے روز صرف ضلع راجوری کے علاقے شاہدرہ میں کم از کم 67 کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا جن پر الزام ہے کہ یہ پاکستان کے نعرے لگاتے ہیں۔ قابض بھارتی فورسز نے اس کے دوسرے روز بانڈی پورہ میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائی شروع کی اور اس دوران ہیلی کاپٹروں اور ڈرونز کا بھی استعمال کیا گیا۔ آخری اطلاعات آنے تک دونوں اضلاع میں فوجی کارروائی جاری تھی۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ضلع کپواڑہ میں مزید 4 کشمیریوں کی آبائی جائیدادیں ضبط کر لی گئی۔ پولیس کے ایک ترجمان نے سری نگر میں تصدیق کی کہ ضلع کے علاقے ہندواڑہ میں کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کی گئی ہیں۔ جن میں کرال گنڈ میں ممتاز احمد خواجہ کی دس مرلے زمین ، بھدرہ پائین میں لطیف احمد بٹ کی سولہ مرلے ، آشی پورہ میں مشتاق احمد میر کی ایک کنال 2 مرلے اورضلع کپواڑہ کے علاقے کھائی پورہ میں غلام نبی گنائی کی ایک کنال زمین ضبطی میں شامل ہے۔ قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ مزید 51 کشمیریوں کو مفرور قرار دیا گیا ہے اور قابض انتظامیہ ایک ماہ کے اندر ان کی جائیدادیں بھی ضبط کرے گی۔ یاد رہے کہ شبیر احمد شاہ، سید علی گیلانی، جماعت اسلامی سمیت کئی تنظیموں اور بڑے قائدین اور سیاسی کارکنوں کی زمین سرکار پہلے ہی ضبط کر چکی، “ہم ہیں پاکستانی، پاکستان ہمارے ہے” کے نعرے کی پاداشت میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ ، شبیر احمد شاہ ، محمد یاسین ملک ، آسیہ اندرابی ، ناہیدہ نسرین ، فہمیدہ صوفی ، نعیم احمد خان ، ایاز اکبر ، پیر سیف اللہ ، معراج الدین کلوال ، شاہد الاسلام ، فاروق احمد ڈار ، مشتاق الاسلام ، امیر حمزہ ، ڈاکٹر حمید فیاض ، بلال صدیقی ، مولوی بشیر عرفانی ، عبدالاحد پرہ ، ظفر اکبر بٹ ، محمد یوسف فلاحی ، ایڈووکیٹ زاہد علی ، عمر عادل ڈار ، سرجان برکاتی ، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو ، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی اور انسانی حقوق کے محافظ خرم پرویز سمیت پانچ ہزار سے زائد کشمیری پاکستان کا نام جپنے کی پاداش میں جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند ہیں۔ ایک لاکھ نوجوان شہید اور 8 ہزار لاپتہ ہیں 21 ہزار سے زائد خواتین کی اجتماعی آبروریزی اور لگ بھگ 23 ہزار سے زائد خواتین بیوہ  اور 1 لاکھ سے زائد بچے یتیم ہوئے ۔ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں اور مظالم کی ایک طویل داستان ہے جس کی تفصیل بیان کرنے کے لیے کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ عارف حبیب اور پہنجابی تاجروں کو اس کا ادراک نہیں کہ ان مظلوموں کی داد رسی یا جواب دیئے بغیر بہتے خون کے دریا پر آس و امید کا کوئی پل تعمیر کئے بغیر منافع بخش کاروبار کا مال و متاع کیسے آر پار ہو سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دوستی، تعلقات اور تجارت پر کشمیریوں نے کبھی اختلاف نہیں کیا، لیکن وکیل مخالف فریق سے منافع بخش کاروبار شروع کر دے تو مدعی کو کیا کرنا چاہیے کامیاب تاجروں کو اس کا خوب ادراک ہو گا۔ کسی کو بھی ہر گز یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت نے قبضہ کر لیا، کشمیری اب صرف مقبوضہ جموں و کشمیر ہی میں نہیں رہتے۔ مطالبہ کرنے والوں نے کبھی یہ بھی نہیں سوچا کہ بھاجپا تمارے ساتھ تجارت کرے گی کیوں اس کو بھارت میں سیاست کرنی ہے جس کا مہور کی انڈین مسلمانوں کی مخالفت اور پاکستان ہے، پھر باعزت بات چیت سے جس میں مقبوضہ کشمیر سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے اور گرفتار افراد کی غیر مشروط رہائی سے قبل تجارت بحالی کا مطالبہ انتہائی بچگانہ اور احمقانہ ہے۔