سندھ میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال

ڈاکٹر توصیف احمد خان
================

رمضان المبارک میں اب تک ڈاکو 11 افراد کو ہلاک کرچکے ہیں اور گزشتہ 90 دن میں 52 افراد ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارے گئے۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائم بڑھتے جا رہے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق ایک ہفتے میں دو افراد موبائل اور رقم بچانے کے لیے جان سے گئے۔ متاثرہ خاندانوں کے افراد اپنے پیاروں کے قتل کی ہولناک داستانیں جب ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر سناتے ہیں تو ہر شخص کی آنکھوں سے آنسو بے ساختہ بہنے لگتے ہیں۔

اب تو وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بھی اس بات کا اعتراف کرنا پڑا ہے کہ ان کے دورِ حکومت میں امن و امان کی صورتحال مسلسل خراب ہے۔ پولیس مقابلوں اور شہریوں کے ہاتھوں ڈاکوؤں کی ہلاکت کی خبریں نمایاں طور پر ذرایع ابلاغ میں شایع ہوتی ہیں۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صوبائی حکومت کو کراچی پولیس کی کمانڈ کو تبدیل کرنا پڑا۔
وزارت داخلہ کا قلم دان سنبھالنے والے ضیاء لنجار نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں میڈیا پر الزام لگا کر کہا کہ اسٹریٹ کرائم کا مسئلہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ کراچی والوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی کوشش ہے۔ اس اپروچ سے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور کراچی کے عوام کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے۔

ایک نئی منطق پیش کی گئی کہ کاروبار چلتا ہے تو کرائم بھی ہوتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ میں حالات عبوری دور میں خراب ہوئے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ڈاکوؤں کے پاس جدید طرز کا اسلحہ کیسے پہنچ رہا ہے اور قبائلی تنازعات سے بد امنی پھیلتی ہے۔ قبائلی تنازعات ختم کیے بغیر ڈاکو راج کا خاتمہ ممکن نہیں اور قبائلی تنازعات کے حل کے لیے مقامی سرداروں کی مدد لی جائے گی۔

کراچی میں اسٹریٹ کرائم کے حوالے سے دستیاب اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سال اسٹریٹ کرائم میں 11.11 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 90 ہزار مقدمات درج ہوئے تھے جب کہ گزشتہ سے پیوستہ سال 80 ہزار مقدمات درج ہوئے تھے۔ اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 137 شہری بیہمانہ طور پر قتل ہوئے تھے۔

سندھ کی پولیس نے اب فیصلہ کیا ہے کہ شہریوں کو قتل کرنے والے ڈاکوؤں کی گرفتاری کا ٹاسک اسپیشل انویسٹی گیشن پولیس کے سپرد کیا جائے۔ ایس آئی یو کے 68 افسران ان مقدمات کی تفتیش کریں گے۔ پولیس حکام نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افسران ایک لاکھ روپے انعام کے حق دار ہونگے۔

سندھ پولیس کے سربراہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے ملاقات کر کے اسٹریٹ کرائم کے مقدمات کو فوری طور پر چلانے اور جلد فیصلہ کرنے کی استدعا کریں گے۔ دنیا کے بڑے شہروں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے بڑے شہروں لندن، نیویارک، شکاگو اور پیرس وغیرہ میں پولیس نے سب سے پہلے شہروں میں اسلحے کی فراہمی کو روکنے کے لیے اقدامات کیے۔

جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بھر پور انداز میں استعمال کر کے جرائم کی شرح میں کمی کی گئی۔ ان شہروں کے جدید عدالتی نظام نے اسٹریٹ کرائم میں ملوث افراد کے مقدمات کی التواء کے بغیر سماعت کی اور ملزمان کو قرار واقعی سزا ملی۔ جو لوگ یورپ، امریکا اور کینیڈا کا متواتر دورہ کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ وہاں مسلح پولیس والے پہرہ دیتے نظر نہیں آتے مگر اسٹریٹ کرائم کرنے والے فوراً پکڑے جاتے ہیں۔

اسٹریٹ کرائم پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ کراچی شہر سے اندرون سندھ، بلوچستان اور بحیرہ عرب سے آنے والے راستوں کو سیل کیا جائے۔ کراچی کی طویل سرحد پر جدید کیمر ے لگائے جائیں تاکہ گاڑیوں کی اسکیننگ ہوسکے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اس بات پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ ڈاکوؤں کے پاس جدید طرز کا اسلحہ کہاں سے آرہا ہے؟

پیپلزپارٹی 16 سال قبل صوبے میں برسر اقتدار آئی تو شرجیل میمن اطلاعات کے وزیر بنے۔ انھوں نے کراچی کے لیے سیف سٹی پروجیکٹ شرو ع کرنے کا اعلان کیا تھا مگر اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ منصوبہ عملی شکل اختیار نہ کرسکا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب جدید دور میں پولیس میں ہزاروں افراد کو بھرتی کرنے کی ضرورت نہیں۔ جرائم کے خاتمے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بھرپور انداز سے استعمال کیا جائے۔

کراچی میں یونین کونسل کی سطح پر یہ جدید نظام قائم ہونا چاہیے اور صرف کلوز ڈورکیمرے ہی نصب نہ کیے جائیں بلکہ ملزموں اور مجرموں کا ریکارڈ اور ان کی نگرانی کے لیے یہ جدید نظام انتہائی کارآمد ہے۔ اسٹریٹ کرائم میں ملوث ملزمان کی عدالتیں ضمانتیں منظور کرتی ہیں تو پھر اسی نظام کے تحت نگرانی کا آسان ترین طریقہ موجود ہے۔

کراچی میں جرائم کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ 90ء کی دہائی میں جب اس وقت کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کی نگرانی میں آپریشن ہوا تھا تو نصیر اللہ بابر نے اعلان کیا تھا کہ قبائلی علاقوں میں کسی بھی مقام پر کوئی فرد کلاشنکوف یا اس سے کارتوس خریدے گا تو پولیس اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کا نیٹ ورک متحرک ہوجائے گا۔

ایک اور صحافی نے کہا کہ اس وقت کراچی میں اسلحہ مکمل طور پر ناپید ہوگیا تھا۔ ملزموں کو سزا دلوانے کا معاملہ بھی حکومت کی پالیسی سے منسلک ہے۔ جب پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا تو ایک قومی ایکشن پلان بھی تیار ہوا تھا۔ اس پلان کے تحت گواہوں کے تحفظ کا قانون نافذ ہونا ہے۔

اس مجوزہ قانون کے تحت گواہ کو نہ صرف ریاست تحفظ فراہم کرتی بلکہ گواہ کو معاوضہ بھی ادا کیا جاتا۔ اب تو جدید ٹیکنالوجی کی بناء پر ایسی عدالتیں دنیا میں کام کررہی ہیں جن کے جج صاحبان کا چہرہ ملزموں اور ان کے وکلاء کو نظر نہیں آتا۔ یہ تحفظ گواہوں کو بھی حاصل ہوتا ہے۔ یوں بڑی بڑی مافیاز مجرموں کو انصاف کے کٹہرے سے نہیں بچا پائیں۔

آبادی کے پھیلاؤ اور بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح اور اسلحے کی آسانی سے دستیابی اسٹریٹ کرائم کی بڑھنے کی بنیادی وجوہات ہیں مگر جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال اور اسلحے کی فراہمی روکنے سے کراچی اور اندرون سندھ حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ وزیر داخلہ کی یہ منطق غیر حقیقی ہے کہ جہاں کاروبار ہوگا وہاں کرائم ہوگا۔ معروضی حقائق تو یہ ہیں کہ جرائم بڑھتے ہیں توکاروبار ختم ہو جاتا ہے۔

کراچی کے قریب نوری آباد ایک چھوٹا صنعتی شہر بننے جارہا تھا مگر اغواء برائے تاوان کے کاروبار کی بناء پر نوری آباد ویران ہوگیا۔ 90ء کی دہائی میں جب کراچی میں بدامنی زوروں پر تھی تو کراچی کی صنعتیں پنجاب منتقل ہوئیں۔ کچھ صنعت کار تو بنگلہ دیش اور افریقی ممالک چلے گئے۔

سندھ کے وزیر اعلیٰ کو تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ امن و امان کی خراب صورتحال سے عوام اور حکومت میں فاصلے بڑھتے ہیں تو غیر جمہوری قوتیں اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں، 90ء کی دہائی اس بات کی تصدیق کرتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ صورتحال دوبارہ رونما ہورہی ہے۔

سندھ کی حکومت کی اولین ترجیح امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے پر ہونی چاہیے اور وزیر اعلیٰ کو اپنے وزیروں کو یہ ہدایت ضرور کرنی چاہیے کہ وہ ایسے بیانات نہ دیں جس سے محسوس ہوکہ وہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔

https://www.express.pk/story/2626646/268/