کشمیریوں کو اشفاق مجید وانی جیسی قیادت کی آج ضرورت ہے۔

سچ تو یہ ہے

بشیر سدوزئی،

آج جموں و کشمیر کے عوام کو گلی میں بند کر دیا گیا، وادی ایک پنجرہ ہے جس میں وادی کے عوام بند ہیں۔ بھارت نے بے رحم تشدد اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے بعد یہ صورت حال پیدا کی۔ 34 سال کی یہ طویل جنگ کشمیریوں نے تن تنہا لڑی اور بڑی بڑی نامور شخصیات اس دوران بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بنی۔ نوجوان قائد اشفاق مجید وانی بھی ان میں سے ایک تھا جس کی شہادت کو، آج 34 سال مکمل ہو گئے ہیں لیکن لگتا ہے یہ کل کی بات ہے۔ مقبول بٹ سے افضل گرو تک اور اشفاق مجید وانی سے برہان وانی تک تحریکِ آزادی کشمیر کی تاریخ خون سے لکھی جا رہی ہے۔ سری نگر کیا پلوامہ ہو یا کپواڑہ کے قبرستان جوانوں کے لاشوں سے بھر چکے۔ لیکن بین الاقوامی برادری تک کشمیریوں کے صحیح طریقے سے نمائندگی نہیں کی گئی۔ کشمیریوں کو بطور قوم دنیا کے پاس جانے کی اجازت ہوتی تو آج کشمیر اور کشمیریوں کی یہ صورت حال نہ ہوتی۔ 1989 میں اشفاق مجید وانی یاسین ملک اور ان کے دوستوں کی قیادت میں ہزاروں کشمیری نوجوانوں نے بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف تحریکِ آزادیِ کشمیر شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھنے مقبوضہ جموں و کشمیر میں چھا گئے۔ اس وقت کے وزیر داخلہ ہندوستان مفتی سعید کی صاحبزادی اور محبوبہ مفتی کی بہن رابعہ مفتی کو اسی گروپ نے اغواء کیا تھا جس کے بدلے میں نہ صرف گرفتار کشمیری حریت پسند رہا ہوئے بلکہ کشمیر کی تحریک آزادی کو دوام ملی۔ اور پھر، سر پھرے کشمیری نوجوانوں نے بھارتی فوج کو تکنی کا ناچ نچایا۔ وادی کو سر پر اٹھایا اور بھارتی فوجی دھپک کر چھانیوں تک محدود ہو گئے۔ پھر مین اسٹریم اور الحاقیوں میں نئی روح پھونکی گئی۔ مجاہد گاجر مولی کی طرح کترے جانے لگے اور پھر وطن اور مذہب ، قوم اور ملت کا جھگڑا کھڑا ہوا، بات یہاں تک ہی نہ رکی مذہب پر مسلک بھاری ہونے لگا۔ یہ صورت حال بھارت کے لیے موافق ہونے لگی اور کشمیری نوجوانوں کو سیکڑوں کی تعداد میں شہید کیا جانے لگا۔۔ اشفاق مجید وانی بھی ان میں سے ایک ہے جس نے 30 مارچ 1990ء کو اپنے دوستوں کے ہمراہ سری نگر میں شہادت پائی اس روز رمضانُ المبارک کا تیسرا روزہ تھا۔ اشفاق مجید وانی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل نوجوان تھا۔ 5 ستمبر 1966ء کو سرائے بالا سری نگر میں پیدا ہو اور 24 سال کی بھرپور جوانی میں وطن کی حرمت پر قربان ہو گیا۔ وہ فٹبال ، ٹیبل ٹینس اور میراتھون کا بہترین کھلاڑی تھا، اُس نے 1985ء میں بین الریاستی میراتھون ٹورنامنٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے ہندوستان بھر میں کشمیر کا نام بلند کیا تھا۔ اشفاق مجید وانی معروف کشمیری رہنما مقبول بٹ سے بہت متاثر تھا جس کو 1984 میں تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔ اس وقت بھی وادی میں بہت احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے اور نوجوانوں میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی تھی۔ اشفاق مجید وانی بھی کشمیری رہنما کی اس شہادت سے بے حد متاثر ہوا تھا اور بندوق لے کر وطن کی آزادی کے لئے نکل پڑا تھا۔ 23 مارچ 1987ء کو مقبوضہ کشمیر میں انتخابات ہوئے جس میں دھاندلی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کو انتخابات سے دور رکھنے کے لئے بھارتی فوج نے اشفاق مجید وانی اور سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ ان انتخابات کے بعد وادی کی صورت حال مکمل تبدیل ہو چکی تھی۔ علی گیلانی جیسے سنئیر رہنما بھی پارلیمانی سیاست کو خیر بعد کہہ کر تحریک آزادی میں اترے، تاہم رہائی کے بعد اشفاق مجید وانی نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ میں شمولیت اختیار کی اور جوانی میں ہی تحریکِ آزادی کے سرگرم قائد بن گئے ، اشفاق وانی کی 3 سالہ جدوجہد نے وادی کشمیر میں تحریکِ آزادی کی نئی روح پھونک دی۔ مبینہ طورپر 10 ہزار سے زائد کشمیری نوجوان اشفاق مجید وانی سے متاثر ہو کر تحریکِ آزادیِ کشمیر میں شامل ہوئے۔ یہ ایک بڑی تعداد تھی جس کی منظم سرپرستی نہ ہونے کے باعث بھارتی فوج نے شہید کر دیا۔ یہ قوم کا بہت بڑا نقصان ہوا اب اس سطح کی نوجوانوں کی فوج تیار کرنے میں صدیاں لگیں گی۔ 30 مارچ 1990ء کو 24 سال کی عمر میں سری نگر کے علاقے حَوّل میں بھارتی فوج کے ساتھ ایک زبردست مقابلے کے دوران جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کی ڈائری کے مطابق ماہِ رمضان میں روزے کی حالت میں شہادت ان کی دلی خواہش تھی ، اشفاق مجید وانی کی شہادت پر وادی بھر میں پرتشدد ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ جس طرح برہان وانی کی شہادت پر ہوئے۔ دونوں وہانی کو اللہ رب عزت نے کشمیری معاشرے میں بہت توقیر بخشی ہے۔ اشفاق مجید وانی اپنے وقت کا معروف اور متحرک قائد تھا، یہ نوجوان، مخلص تھے اور وطن سے محبت کرتے تھے لیکن کسی سنئیر نے ان کی سرپرستی نہیں کی کہ قیادت کا کریڈٹ نہ لے جائیں۔ یہ سب مشترکہ طور پر آگ میں کود گئے۔ حالاں کہ تحریک آزادی اور جنگی حکمت عملی کا تقاضا تھا کہ مختلف محاذ سنبھالتے۔ عسکریت کے ساتھ سفارتی محاذ کو بھی گرم کیا جاتا اور چار میں سے دو نوجوان کشمیر سے باہر رہ کر دنیا اور خاص طور پر اقوام متحدہ، امریکا اور یورپ میں سفارت کاری تیز کرتے تو بھارت اس طرح کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔ کشمیری شہداء کو سلام۔ انہوں نے وطن کے لیے جانیں دیں لیکن آزاد کشمیر میں بیٹھے 45 لاکھ افراد میں ایک بھی اشفاق وانی پیدا نہیں ہوا جو دنیا تک کشمیریوں کے دکھ درد پہنچا سکے۔ آج اشفاق مجید وانی اور اس کے جذبے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے کہ مادر وطن پر بھارت مستقبل قابض ہونے کا دعویدار بن چکا۔ آج اشفاق مجید کے وطن کی تقسیم کی باتیں ہو رہی ہیں۔ آج تجارت اور تعلقات کی باتیں ہو رہی ہیں۔ تجارت اور پڑوسیوں کے درمیان تعلقات اچھی علامت ہیں لیکن اشفاق مجید وانی کا خون آج بھی کشمیر کی مٹی پر جما ہوا ہے اسے کھرچے بغیر تجارتی ٹریفک کو رواں کرنا کشمیریوں کے دل اور ایک لاکھ نوجوانوں کی روح تڑپے کی جو اس تحریک میں مارے گئے۔ ان خواتین کو پرسہ کون دے گا جو سالوں سے بھائی بیٹے یا خاوند کی انتظار میں دروازے کے چلمن سے لگی کھڑی ہے۔ اس خاتون کو کون حوصلہ دے گا جس کا ریپ ہوا اور یہ روز طعنے سنتی ہے کہ تمارا تعلق ” کنن پوش پورہ ” سے ہے۔ اس کا یہی مقصد ہے کہ تمارے ساتھ بھارتی فوجیوں نے اجتماعی ریپ کیا تھا یا تماری ماں کے ساتھ۔ آج بھی سری نگر قبرستان میں مقبول بٹ اور افضل گرو کی علامتی قبریں اپنے مقیم کی انتظار میں ہیں۔ یاسین ملک، شبیر شاہ، مسرت عالم، آسیہ اندرابی اور ان کے ہزاروں ساتھی جیلوں میں ہیں۔ سری نگر ائرپورٹ ان کا منتظر ہے۔ پہلے مذاکرات ہوں ان زندہ اور مردہ اروح کی کوئی بات ہو اور پھر تجارت ہو جس میں بھی بھرگت ہو گی۔ اشفاق مجید وانی تجھے قوم یاد رکھے گی لاکھوں سال۔