ایران کا علمی و مذہبی دارالحکومت قم المقدس


رب کا جہاں
نوید نقوی
==========

صاحب صاحبہ رب کا جہاں ایک ایسا سلسلہ ہے جس کو پڑھ کر آپ کا دل امید کی روشنی اور علم و ادب کی طاقت سے منور ہو جائے گا۔ ماہ رمضان میں ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں سحری اور افطار کرے اور ان مقدس شہروں میں اپنے شب و روز بسر کرے۔ ان شہروں کی پاک خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانا ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے۔ پاکستان کے مسلمان اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ یہاں کے علماء کرام کی محنت اور والدین کی محبت نے ان کے دل میں حضور اکرم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اصحاب پاک رضوان اللہ اجمعین اور اہل بیت علیہم السلام کا عشق ذندہ رکھا ہوا ہے۔ پاکستان کے غیور مسلمان ان پاک ہستیوں سے بے پناہ عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔ ہر پاکستانی کی طرح میری بھی شدید ترین خواہش ہے کہ مدینہ پاک کی خاک میری آنکھوں کا سرمہ بنے۔ میں انشاء اللہ تعالیٰ ان مقدس مقامات کی زیارت بہت جلد کروں گا اور اپنے یو ٹیوب چینل پر ویڈیوز کی صورت میں آپ کے لیے پیش خدمت کروں گا۔ سعودی عرب، عراق، شام کے بعد جس سرزمین پر اہل بیت علیہم السلام کی آل کی سب سے زیادہ موجودگی ہے، وہ اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔ اس لیے آج ہم رکشے کا رخ ایران کے ایک اور مقدس شہر کی طرف کرتے ہیں جس کا نام قم المقدس ہے۔ ایرانی عوام بھی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ان کے دلوں میں بھی آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عشق موجود ہے۔ ایران ایک ایسی سرزمین ہے جہاں محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق کے تناور درخت موجود ہیں۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں پاکستان سے زوار ایران جاتے ہیں۔ ان کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے انشاء اللہ تعالیٰ انہی صفحات پر پھر کبھی قلم اٹھاؤں گا۔ فی الحال ہم قم المقدس کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ ایران ہمارا ہمسایہ اسلامی ملک ہے اور قیام پاکستان سے لے کر اب تک اس کی طرف سے ہماری سرحدیں محفوظ رہی ہیں۔ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں اور دو طرفہ تجارت سے لاکھوں افراد کا روزگار بھی وابستہ ہے۔ ایران دنیائے اسلام میں ایک طاقتور ملک کے طور پر اپنی شناخت رکھتا ہے۔ مختصراً ہم اس ملک کو مشرق وسطیٰ کی سپر پاور کہ سکتے ہیں۔ ایران کا کل رقبہ 1648195 مربع کلومیٹر ہے۔ جبکہ آبادی 89,809,781 نفوس پر مشتمل ہے۔ جس میں 90 فیصد سے زائد شیعہ مسلک کے ماننے والے ہیں۔ تہران اسلامی جمہوریہ کا دارالحکومت ہے۔ قم المقدس ایران کے دارالحکومت تہران کے جنوب میں 157 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ قم کے شمال میں تہران، جنوب میں اصفہان، مغرب میں اراک اور مشرق میں سمنان شہر واقع ہے۔ قم بھی ایک بڑا شہر ہے۔ اس کا شمار ایران کے اہم شہروں میں کیا جاتا ہے۔ یہ ایران کا آٹھواں بڑا شہر ہے۔ قم عرب مسلمانوں کے حملے سے بھی کئی ہزار سال پہلے سے آباد تھا۔ شیعہ مسلمانوں کا نجف اشرف، عراق کے بعد سب سے اہم علمی مرکز شمار ہوتاہے۔ یہاں کئی معروف یونیورسٹیاں اور میڈیکل کالجز ہیں۔ قم، اہل تشیع کے لیے بہت اہمیت کا حامل شہر ہے۔ اس شہر میں شیعہ مسلمانوں کے آٹھویں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام معروف بہ امام رضا کی بہن فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا مزار ہے جس کی زیارت کے لیے دنیا بھر سے شیعہ مسلمان یہاں پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس شہر کی آبادی کم و بیش سترہ لاکھ ہے۔ اس آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ علما اور دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلاب کا ہے۔ ان علما اور طلاب میں ایرانیوں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں افغانی، عراقی، پاکستانی، انڈین، لبنانی، مصری، کویتی، سعودی، بحرینی ،یمنی، جزائری، مراکشی، ترک، آذری، انڈونیشیئن، ملائیشین تھائی لینڈی، چینی اور دیگر یورپی ممالک کے لوگ بھی شامل ہیں۔ اس شہر کی 99 فیصد آبادی شیعہ اثنا عشری ہے۔ ایک قلیل تعداد زرتشت اور عیسائیت کے پیروکاروں کی بھی موجود ہے۔ قم ایک صحرائی علاقے میں آباد ہونے والا شہر ہے اس لیے زیادہ تر خشک رہتا ہے۔ اس شہر کی مشہور سوغات میں ایک ایسا حلوہ ہے جسے دنیا بھر کے طلاب اپنے اپنے ملکوں میں لے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ یہاں آنے والے زائرین بھی شوق سے کھاتے ہیں۔ اس حلوے کو سوہان کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پستہ اور زعفران کی پیدوار کے حوالے سے بھی پورے ایران میں قم کی شہرت ہے۔ قم ایران کا ایک علمی ثقافتی مرکز کے طور پر مشہور ہے اس لیے اس کو مختلف القابات اور ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ جس میں چند نام کافی مشہور ہیں۔ کتابوں کا شہر، ایران کا مذہبی و سائنسی دارالحکومت، شہر علم ، شہر کریمہ اہل بیت علیہم السلام بھی کہا جاتا ہے۔ قم المقدس شہر میں مختلف روضے، مزارات اور زیارت گاہیں ہیں جن میں سے سب سے مشہور فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا روضہ مبارک ہے، جن کا لقب کریمہ اہل بیت علیہم السلام ہے۔ اس کے علاوہ چار سو سے زائد امام زادوں کے مزارات بھی موجود ہیں۔ بی بی فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا، جنہیں معصومہ قم یا حضرت معصومہ بھی کہاجاتا ہے، یکم ذی القعدہ 173 ہجری مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں اور 10 ربیع الثانی 201 ہجری میں شہادت پائی، روایت ہے جب عباسی خلیفہ مامون الرشید نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو خراسان بلایا تو ایک سال بعد بی بی فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا اپنے بھائی کی جدائی برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے خراسان کی جانب عازم سفر ہوئیں۔ وہ ایک بہت بڑے قافلے کے ہمراہ جب قم کے قریب ساوہ نامی جگہ پر پہنچیں تو دشمنوں نے قافلے پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں قافلے کے بہت سارے افراد شہید ہو گئے۔ بی بی کو ایک خاتون نے زہر دیا، قم شہر کے عرب اور اہل بیت سے محبت رکھنے والے اشعری قبیلے کے لوگ ان کو قم لے آئے جہاں وہ 17 دن زندہ رہنے کے بعد زہر کے اثر سے شہید ہو گئیں۔ بی بی اپنے بھائی سے ملاقات اور خراسان کا سفر مکمل نہ کرپائیں۔ اس لیے ان کا روضہ اسی شہر میں ہے جبکہ ان کے بھائی امام علی رضا علیہ السلام کا روضہ قم سے 958 کلومیٹر دور مشہد مقدس میں ہے۔ قم کی مشہور ترین مسجد جمکران شہر کے جنوب مشرقی سمت میں واقع ہے۔ مسجد جمکران ایک مشہور مسجد ہے۔ یہ مسجد امام مہدی علیہ السلام جو اس وقت پردہ غیبت میں ہیں، کے حکم سے تعمیر کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ قم المقدس کو مقدس اس لیے کہا جاتا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق قم کو اپنا اور اپنے بعد آنے والے اماموں کا حرم قرار دیا ہے اور اس کی مٹّی کو پاک و پاکیزہ توصیف فرمایا ہے۔ ان کے فرمان کے مطابق جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین قم کی جانب کھلتے ہیں۔ قم میں اگر آپ کو جانے کا موقع ملے تو مسجد امام حسن عسکری علیہ السلام، بیت النور، شاہ عباس صفوی کا مقبرہ، فتح علی شاہ قاجار کا مقبرہ، حاج عسگر خان کا تاریخی حمام، بازار بزرگ قم، قلعہ جمکران، کوہ خضر اور دیگر علما و مشہور فقہا کی قبور پر حاضری لازمی دیں۔