مایوس ہو کر ملک چھوڑنے کی سوچ رکھنے والے افراد کے لیے بڑی مثال ، خود پر اعتماد رکھنے والے باپ بیٹے نے یوٹیوب سے کما کر کروڑوں کا گھر بنا لیا ۔ پاکستان میں ہی اپنے خوابوں کی تعبیر پا لی ۔

مایوس ہو کر ملک چھوڑنے کی سوچ رکھنے والے افراد کے لیے بڑی مثال ، خود پر اعتماد رکھنے والے باپ بیٹے نے یوٹیوب سے کما کر کروڑوں کا گھر بنا لیا ۔ پاکستان میں ہی اپنے خوابوں کی تعبیر پا لی ۔تفصیلات کے مطابق یوٹیوب پر ویلا منڈا کے نام سے اپنا چینل چلانے والے پاکستانی نوجوان نے ایسے تمام افراد کو غلط ثابت کر دکھایا جو سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ان کا کوئی مستقبل نہیں اور انہیں ملک چھوڑ کر چلے جانا چاہیے اس نوجوان نے نہ اپنا گاؤں چھوڑا نہ اپنا علاقے کے لوگ، پاکستان میں ہی بیٹھ کر اس نے محنت کی اور باپ بیٹے نے یوٹیوب سے کروڑوں کما کر بے شمار نوجوانوں کو اگے بڑھنے کا راستہ دکھایا ہے اور وہ اپنے تجربات دوسروں سے شیئر کرتے ہیں اور اپنی روز مرہ زندگی کی مصروفیات اور پروگراموں کو سوشل میڈیا پر دوستوں سے

شیئر کر کے کروڑوں کما رہے ہیں اور ان کو فالو کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اب تک 10 لاکھ سے زائد لوگ ان کے چینل کو سبسکرائب کر چکے ہیں اور وہ ایک 1300 ویڈیوز اپلوڈ کر چکا ہے اس چینل پر سرائکی پنجابی اور اردو زبان کے پیارے رنگ بکھیرے جاتے ہیں عام اور سادہ زندگی کو دکھایا جاتا ہے اور لوگوں کے دل کی بات کی جاتی ہے اس چینل کی کامیابی کی کہانی اس ویڈیو میں اپ کو خود معلوم ہو جائے گی اپ چاہیں تو اس چینل کو سبسکرائب کر کے ان کی مزید ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں اور ان کی کامیابی سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے ۔

https://www.youtube.com/@VeLLaMunDa5

====================

’جبری گمشدگی‘ سے وزارتِ اعلٰی تک، میر سرفراز بگٹی کون ہیں؟
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ

پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے میر سرفراز احمد بگٹی بلوچستان کے بلامقابلہ نئے وزیراعلٰی منتخب ہو گئے ہیں۔
43 سالہ سرفراز احمد بگٹی کا تعلق بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی سے ہے۔ وہ یکم جون 1981 میں بگٹی قبائل کے بااثر وڈیرے غلام قادر مسوری بگٹی کے ہاں پیدا ہوئے۔

ان کے والد جنرل ضیا الحق کے دور میں مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ بعدازاں بینظیر بھٹو کے دور میں پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ ہوئے۔
سرفراز احمد بگٹی، بگٹی قبیلے کی ذیلی شاخ مسوری کی سربراہی کرنے والے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے چچا زاد بھائی محمد شریف بگٹی، بگٹی قبیلے کی مسوری شاخ کے ساتھ ساتھ ذیلی شاخوں کے سربراہ بھی ہیں، جنہیں چیف آف مقدم بگٹی کہا جاتا ہے۔ یہ نواب کے بعد دوسری اہم پوزیشن سمجھی جاتی ہے۔
سرفراز بگٹی کے والد سابق گورنر اور سابق وزیراعلٰی بلوچستان نواب اکبر بگٹی کے اتحادی تھے۔ تاہم 80 کی دہائی کے آخر میں ان کے مخالف بن گئے اور اس وقت بگٹی قبیلی کی ذیلی شاخ کلپر سے تعلق رکھنے والے امیر حمزہ کلپر اور نواب بگٹی کے رشتے دار میر حمدان راہیجہ بگٹی کے ساتھ مل کر نواب اکبر بگٹی کے خلاف سیاسی اتحاد بنایا۔
اس سے قبل نواب اکبر بگٹی اور ان کے بیٹے اور خاندان کے دیگر اہم افراد قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بلامقابلہ منتخب ہوتے آ رہے تھے، لیکن سنہ 1988 کے انتخابات میں غلام قادر بگٹی اور ان کے سیاسی اتحادیوں نے پہلی بار نواب اکبر بگٹی کو چیلنج کیا۔
اس طرح سرفراز احمد بگٹی کا خاندان نواب اکبر بگٹی کے سیاسی مخالفین کے طور پر ابھرا اور آج تک نواب بگٹی اور ان کے خاندان کے درمیان یہ سیاسی اور قبائلی مخاصمت جاری ہے۔ حالیہ انتخابات میں انہوں نے نواب اکبر بگٹی کے پوتے گہرام بگٹی کو شکست دی جبکہ گذشتہ انتخاب میں گہرام بگٹی سے انہیں شکست ہوئی۔
سنہ 1988 میں سرفراز بگٹی کے والد غلام قادر بگٹی نے نواب بگٹی کے بیٹے سلیم بگٹی کے خلاف قومی اسمبلی کی نشست جبکہ ان کے ساتھی امیر حمزہ کلپر بگٹی نے صوبائی نشست پر نواب اکبر بگٹی کے مقابلے میں انتخاب لڑا۔ تاہم دونوں کامیاب نہ ہو سکے۔

اس کے بعد اختلافات شدت اختار کر گئے۔ سنہ 1991 میں امیر حمزہ کلپر بگٹی کا قتل ہوا تو ان کے خاندان نے نواب بگٹی پر الزام عائد کیا۔ کچھ مہینوں بعد نواب اکبر بگٹی کے بیٹے سلال بگٹی کا قتل ہوا تو ڈیرہ بگٹی میں حالات کشیدہ ہو گئے اور مسوری اور کلپر قبائل سمیت نواب بگٹی کے مخالفین کو ڈیرہ بگٹی چھوڑنا پڑا۔
سرفراز بگٹی کا خاندان ملتان اور ڈیرہ غازی خان منتقل ہو گیا۔ سنہ 2002 کی دہائی کے اوائل اور وسط میں جب نواب اکبر بگٹی اور پرویز مشرف حکومت کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے تو سرفراز بگٹی اور ان کے خاندان نے حکومت کی حمایت کی۔
والد اور بھائی کی نجی جیل میں قید
نواب اکبر بگٹی نے حکومت کی حمایت اور ڈیرہ بگٹی میں فورسز کی آمد کے لیے ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے قبائلی لشکر بھیج کر سرفراز بگٹی کے والد، بڑے بھائی اور چچا کو ڈیرہ بگٹی کے علاقے پھیلاوغ سے پکڑ کر کئی ماہ تک نجی جیل میں قید رکھا۔
تاہم مارچ 2005 میں نواب اکبر بگٹی کے خلاف سکیورٹی فورسز نے ایک کارروائی کی اور ان کے قلعے کو راکٹوں اور بھاری اسلحہ سے نشانہ بنایا تو نواب اکبر بگٹی علاقہ چھوڑ کر پہاڑوں کی طرف چلے گئے۔ اس طرح سرفراز بگٹی کے والد اور باقی رشتہ داروں کو رہائی مل گئی۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس وقت وڈیرہ غلام قادر اور ان کے رشتے داروں کو کوئٹہ لایا گیا۔ انہوں نے نوب اکبر بگٹی کے خلاف پریس کانفرنس بھی کی۔

نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد پرویز مشرف کے دور میں حکومت نے نواب بگٹی کے مخالفین کو واپس ڈیرہ بگٹی بسانا شروع کیا اور نواب بگٹی کے خاندان کی بجائے ان کے مخالفین کو سیاسی منظر نامے پر آگے لانے کا فیصلہ کیا۔
سکیورٹی فورسز سے اختلافات
سنہ 2008 کے انتخابات میں ڈیرہ بگٹی سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر سرفراز بگٹی کے چچا زاد بھائی طارق حسین مسوری کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل رہی جبکہ سرفراز بگٹی اور ان کے والد نے طارق حسین مسوری کی مخالف کی۔
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق ’طارق مسوری بگٹی کے مقابلے میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے جاتے ہوئے سرفراز بگٹی اور ان کے والد کو ڈیرہ بگٹی کی ڈولی چیک پوسٹ پر سکیورٹی فورسز نے روکا۔ ان پر تشدد ہوا جس سے سرفراز بگٹی کے ہاتھ کی ہڈی فریکچر بھی ہوئی۔ بعد ازاں انہوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کر کے تحفظ مانگا۔‘
’اس کے بعد سرفراز بگٹی اور ان کے والد مشکلات کا شکار رہے۔ خود سرفراز بگٹی یہ کہہ چکے ہیں کہ سکیورٹی فورسز نے انہی اختلافات کی بنا پر انہیں اور ان کے والد کو گرفتار کیا اور کئی ماہ تک نامعلوم مقام پر رکھا۔ اس طرح خود سرفراز بگٹی اور ان کے والد بھی لاپتہ افراد میں شامل رہے ہیں۔‘
سرفراز بگٹی نے ایک انٹرویو میں اس حوالے سے بتایا تھا کہ پرویز مشرف دور میں انہیں قائداعظم یونیورسٹی میں ڈیفنس سٹرٹیجک سٹیڈیز کی تعلیم دو سیمسٹر پڑھنے کے بعد ادھوری چھوڑنا پڑی۔ انہوں نے لارنس کالج مری سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد قائداعظم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔

سیاسی سفر کا آغاز
وہ پہلی مرتبہ سنہ 2012 میں ذرائع ابلاغ کے سامنے اس وقت آئے جب سپریم کورٹ میں انہوں نے اپنے چچا زاد بھائی اور اس وقت کے رکن صوبائی اسمبلی طارق مسوری بگٹی کے خلاف سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کیس میں پیش ہو کر الزام لگایا تھا کہ ’طارق مسوری نے دو قبائل کے درمیان جھگڑے کے تصفیے میں 13 لڑکیوں کو ونی میں دے دیا ہے۔‘
اس کیس کی سماعت اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار احمد چودھری کوئٹہ رجسٹری میں کر رہے تھے۔
تجزیہ کار عرفان احمد سعید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سرفراز بگٹی کے اس کیس کا مقصد بنیادی طور پر 2013 کے انتخابات میں طارق مسوری کے لیے مشکلات پیدا کرنا تھا اور پھر تب اسٹیبلشمنٹ کی حمایت طارق مسوری کے بجائے سرفراز بگٹی کو حاصل ہو گئی۔ پھر وہ سنہ 2013 کے انتخابات میں پہلی بار آزاد حیثیت سے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پھر ن لیگ میں شامل ہوئے۔‘
وہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی سربراہی میں مسلم ن لیگ، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ کی مخلوط میں وزیر داخلہ بنے تو سیاسی منظر نامے پر نمایاں ہوئے۔
باقی وزرا اور حکومتی حکام کے برعکس سرفراز بگٹی بلوچ مسلح تنظیموں اور عسکریت پسندوں کے خلاف کھل کر بولتے رہے اور لاپتہ افراد کے حوالے سے بھی سخت گیر مؤقف رکھا۔ اس طرح انہیں بلوچستان کی سیاست میں اسٹیبلشنٹ نواز سیاستدان کی حیثیت سے شہرت ملی۔

سرفراز احمد بگٹی 2013 سے 2018 تک ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثنا اللہ زہری کی حکومت میں وزیر داخلہ بلوچستان رہے۔
سنہ 2018 کے اوائل میں نواب ثنا اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور ن لیگ میں بغاوت کر کے بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی تشکیل میں پیش پیش رہے۔
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں باپ کی حکومت بنی تاہم سرفراز بگٹی ڈیرہ بگٹی سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر نواب اکبر بگٹی کے پوتے گہرام بگٹی سے شکست کھا کر صوبائی اسمبلی سے باہر ہو گئے۔
تاہم وہ ستمبر 2018 میں سینیٹ کے ایک خالی نشست پر ضمنی انتخاب میں کامیاب ہو کر سینیٹر منتخب ہوئے۔ اور 2021 میں باپ کے ٹکٹ پر چھ سال کے لیے دوبارہ سینیٹر بنے۔ وہ ایوان بالا کی قائمہ کمیٹیوں برائے امور داخلہ، خارجہ، پیٹرولیم اور استحقاق کمیٹیوں کے رکن رہے۔
سرفراز بگٹی اگست 2023 میں انوار الحق کاکڑ کی کابینہ میں نگراں وفاقی وزیر داخلہ بنے تاہم دسمبر کے وسط میں انتخابی شیڈول کے اعلان سے صرف چند گھنٹے پہلے انہوں نے اپنا عہدہ چھوڑ کر انتخاب لڑنے کا اعلان کیا۔
انہوں نے 18 دسمبر کو بلوچستان کے علاقے کیچ میں آصف علی زرداری کی موجودگی میں ایک ورکرز کنونشن کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کی۔ 8 فروری کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پی بی 10 ڈیرہ بگٹی سے دوبارہ بلوچستان اسمبلی کے رکن بنے۔

سرفراز بگٹی کی اپنے چچا زاد بھائی طارق حسین مسوری سے سیاسی مفاہمت ہو چکی ہے تاہم سیاست اور قبائلی دونوں میدانوں میں آج بھی ان کا مقابلہ نواب اکبر بگٹی کے خاندان سے ہے۔ نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی، شاہ زین بگٹی اور گہرام بگٹی ان کے مخالفین ہیں۔
دہائیوں سے چلی آ رہی جنگ
سرفراز احمد بگٹی اور نواب اکبر بگٹی کے خاندان کے درمیان چار دہائیوں سے چلی آ رہی سیاسی اور قبائلی جنگ میں سنہ 2006 میں نواب اکبر بگٹی کی موت کے بعد تشدد کا عنصر واضح دیکھا گیا۔
سرفراز بگٹی 2016 میں اپنے آبائی علاقے بیکڑ میں بم دھماکے میں بال بال بچے۔ اس سے پہلے 2008 میں ان کے والد کے گھر پر راکٹوں سے حملہ کیا گیا تھا جس میں ایک خاتون ہلاک جبکہ ان کے والد کے دو محافظ سمیت پانچ افراد زخمی ہو گئے تھے۔
نومنتخب وزیراعلٰی کے قریبی حلقوں کے مطابق سرفراز بگٹی پر اب تک 17 حملے ہو چکے ہیں۔
سرفراز بگٹی اپنے اور اپنے قریبی ساتھیوں پر ہونےوالے حملوں کے لیے نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ وہ بارہا الزام عائد کر چکے ہیں کہ براہمداغ بگٹی نے بلوچ ری پبلکن آرمی کے نام سے مسلح تنظیم بنا کر نہ صرف ریاستی اداروں اور اہداف بلکہ اپنے قبائلی مخالفین کو بھی نشانہ بنایا۔
دوسری جانب نواب بگٹی کا خاندان سرفراز بگٹی پر اپنے مخالفین کے خلاف ریاستی اور حکومتی حمایت سے نجی ملیشیا چلانے کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔

سرفراز بگٹی 2016 میں اپنے آبائی علاقے بیکڑ میں بم دھماکے میں بال بال بچے۔ (فائل فوٹو: سرفراز بگٹی فیس بک)

سنہ 2013 میں نواب اکبر بگٹی کے پوتے اور بگٹی قبیلے کے سربراہ نواب عالی بگٹی نے بلوچستان ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں الزام عائد کیا تھا کہ ’سرفراز بگٹی اور ان کے والد غلام قادر مسوری بگٹی نے امن لشکر کے نام پر غیرقانونی نجی ملیشیا قائم کی ہے۔‘
تاہم سرفراز بگٹی کا مؤقف ہے کہ ’یہ امن لشکر ہے جس کی مدد سے وہ دہشت گردوں کے خلاف اپنا اور اپنے لوگوں کا دفاع کر رہے ہیں۔‘
عرفان سعید کے مطابق اپنے اس پس منظر کی وجہ سے سرفراز بگٹی ماضی میں یورپ میں مقیم براہمداغ بگٹی سمیت بیرون ملک بیٹھے ناراض بلوچ رہنماؤں کی وطن واپسی کے لیے حکومتی مذاکرات کی مخالفت بھی کرتے رہے ہیں۔
مسلح تنظیموں کے خلاف طاقت کے استعمال کے قائل
سرفراز بگٹی سنہ 2008 کے بعد بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دوسرے وزیراعلیٰ ہوں گے۔
بلوچستان کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار جلال نورزئی کے مطابق نواب اکبر بگٹی کے قتل کے دو سال بعد 2008 جب پیپلز پارٹی بلوچستان میں برسراقتدار آئی تو اس نے مفاہمتی پالیسی اپنائی تھی۔ پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے صدر مملکت بننے کے بعد بلوچستان کے عوام سے ماضی کی غلطیوں پر معافی بھی مانگی تھی۔
ان کے بقول آغاز حقوق بلوچستان پیکج کے تحت گیس رائلٹی، پانچ ہزار سے زائد ملازمتیں اور 18ویں ترمیم جیسے اقدامات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کو بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے بھی سراہا۔

انہوں نے کہا کہ آج پیپلز پارٹی کو مفاہمت کی پالیسی کے مخالف اور سخت گیر مؤقف رکھنے والوں کو سامنے لانے پر تنقید کا سامنا ہے۔
’سرفراز بگٹی مفاہمت کے بجائے مسلح تنظیموں کو عوام کا خون بہانے کا ذمہ دار سمجھ کر طاقت کے استعمال کے قائل ہیں۔ ان کے وزیراعلٰی بننے سے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ شاید ریاست بات چیت کی بجائے مسلح تنظیموں کے خلاف طاقت کے استعمال کو زیادہ قابل عمل سمجھتی ہے۔‘
جلال نورزئی کا کہنا تھا کہ اب دیکھنا ہے کہ سرفراز بگٹی وزیراعلٰی بن کر اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہیں یا پھر نئی حکمت عملی اپنائیں گے۔
تاہم تجزیہ کار عرفان سعید کہتے ہیں کہ سرفراز بگٹی نے کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہوئے میڈیا سے اپنی گفتگو میں بات چیت کے حوالے سے مثبت عندیہ دیا ہے۔
ہزاروں بھیڑ بکریوں کے مالک
سرفراز بگٹی کی جانب سے بطور نگراں وزیر داخلہ الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گوشواروں کے مطابق ’وہ آٹھ ہزار 870 دنبوں اور چار ہزار 60 بکریوں کے مالک ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس 400 گائیں، 90 اونٹ، 86 بھینسیں، 80 بیل بھی ہیں۔‘
انہوں نے ’ان مال مویشیوں کی مالیت سات کروڑ روپے ظاہر کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ سب انہیں ورثے میں ملے ہیں۔‘
سرفراز بگٹی نے 74 لاکھ روپے نقدی اور 68 لاکھ روپے کی گھریلو استعمال کی اشیا کو اثاثوں میں ظاہر کیا تھا۔

ان کے پاس ایک کروڑ دو لاکھ روپے مالیت کی 2010 ماڈل کی ایک گاڑی اور ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی میں ایک سی این جی اسٹیشن کی مشترکہ ملکیت ہے۔
سرفراز بگٹی کا ملتان میں دو کنال کے گھر میں حصہ ہے اور وہ ملتان میں ایک اپارٹمنٹ، اسلام آباد میں ایک گھر اور کوئٹہ میں ایک پلاٹ کے مالک ہیں، جن کی قیمت تقریباً سات کروڑ 60 لاکھ روپے ہے۔
پاکستان بلوچستان وزیراعلیٰ کوئٹہ ڈیرہ بگٹی سرفراز بگٹی نواب اکبر بگٹی جنرل ضیا الحق مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی باپ سکیورٹی فورسز سپریم کورٹ اسٹیبلشمنٹ
https://www.urdunews.com/node/840911
====================


خاتون کو بچانے والی پاکستانی پولیس افسر کو سعودی شاہی مہمان بننے کی دعوت
پاکستان میں تعینات سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے اے ایس پی شہربانو نقوی سے ملاقات میں ان کی بہادری کو سراہا۔ سعودی سفارت خانے کے ترجمان کے مطابق شہربانو اور ان کے اہل خانہ شاہی مہمان کی حیثیت سے ریاض کا دورہ کریں گے۔

سعودی عرب کے سفارت خانے سے جاری کردہ اس تصویر میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے اے ایس پی شہربانو نقوی سے ملاقات کے دوران انہیں دورہ سعودی عرب کی دعوت دی(تصویر: سعودی سفارت خانہ پاکستان)

پاکستان میں تعینات سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے لاہور میں ایک خاتون کو مشتعل ہجوم سے بچانے والی اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس (اے ایس پی) شہربانو نقوی سے ملاقات میں ان کی بہادری کی تعریف کرتے ہوئے انہیں سعودی عرب کے دورے کی دعوت دی ہے۔

سعودی سفارت خانے کے ترجمان نے نمائندہ انڈپینڈنٹ اردو مونا خان کو بتایا کہ سعودی سفیر کی دعوت پر شہربانو نقوی اور ان کے اہل خانہ شاہی مہمان کی حیثیت سے ریاض کا دورہ کریں گے اور انہیں شاہی حج کروایا جائے گا۔

سفارت خانے کے ترجمان نے کہا کہ اے ایس پی شہر بانو اور ان کے اہل خانہ سعودی عرب میں شاہی مہمان ہوں گے۔

سعودی سفارت خانے سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’لاہور واقعے میں شہربانو نے بے غرض لگن اور پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا۔‘

سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے نوجوان پولیس افسر کی جرات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے انہیں سفارت خانے مدعو کیا تھا۔

26 فروری 2024 کو لاہور کے ایک مصروف بازار اچھرہ میں ایک خاتون کو عربی رسم الخط سے ملتی جلتی تحریر والا کرتا پہننے کے باعث وہاں موجود چند مشتعل افراد نے ہراساں کیا تھا۔

جس کے بعد اے ایس پی شہربانو نقوی کی سربراہی میں پولیس فورس نے خاتون کو نہ صرف بحفاظت ریسکیو کیا بلکہ مشتعل ہجوم کو کنٹرول بھی کیا تھا۔ اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس کے بعد خاتون افسر کو کافی سراہا گیا۔

اس سے قبل چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے بھی شہربانو نقوی سے بدھ کو ملاقات کی اور ان کی پیشہ ورانہ مہارت کو سراہا تھا۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق جنرل ہیڈ کوارٹرز، راولپنڈی میں ہونے والی اس ملاقات کے دوران آرمی چیف نے اے ایس پی شہربانو کی پیشہ ورانہ مہارت، فرائض کی انجام دہی سے بے لوث لگن اور مشکل صورت حال کو قابو میں لانے پر سراہا۔

ادھر پنجاب پولیس کے سربراہ ڈاکٹر عثمان انور نے بھی اے ایس پی شہربانو نقوی کے لیے حکومت سے قائداعظم پولیس میڈل کی سفارش کی ہے۔

پنجاب پولیس نے انسٹاگرام پر ایک بیان میں کہا کہ ’لاہور کے ایک علاقے میں پیدا ہونے والی ناخوشگوار صورت حال کے دوران اپنی جان خطرے میں ڈال کر خاتون شہری کو مشتعل ہجوم سے بحفاظت بچا کر لے جانے والی ایس ڈی پی او گلبرگ لاہور اے ایس پی شہربانو نقوی کو پنجاب پولیس کی طرف سے بے مثال جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرنے پر قائد اعظم پولیس میڈل سے نوازنے کے لیے حکومت پاکستان کو سفارشات بھجوائی جا رہی ہیں۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
=========================

شعیب اختر کے ہاں تیسرے بچے کی پیدائش

سابق کرکٹر اور ٹی وی میزبان شعیب اختر کے ہاں تیسرے بچے کی پیدائش پر کھلاڑیوں اور شوبز شخصیات نے انہیں مبارک باد پیش کی ہے۔

شعیب اختر نے اپنی ٹوئٹ اور انسٹاگرام پوسٹ میں اپنے ہاں تیسرے بچے کی پیدائش کی تصدیق کی۔

سابق کرکٹر اور ٹی وی میزبان نے نوزائیدہ بچے کے ساتھ اپنی تصویر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے ہاں پہلی بیٹی کی پیدائش ہوئی ہے۔

کھلاڑی نے بتایا کہ ان کے ہاں نور علی اختر کی پیدائش 19 شعبان المعظم یعنی یکم مارچ کو ہوئی۔

انہوں نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ خدا تعالیٰ نے انہیں بیٹی کی رحمت سے نوازا ہے اور اب میکائیل اور مجدد کی بہن بھی آگئی۔

ساتھ ہی انہوں نے مداحوں سے بچی اور والدہ سمیت اہل خانہ کے لیے دعائیں کرنے کی اپیل بھی کی۔

شعیب اختر کے ہاں دوسرے بچے کی پیدائش جولائی 2019 جب کہ پہلے بچے کی پیدائش نومبر 2016 میں ہوئی تھی۔

شعیب اختر نے جون 2014 میں خیبرپختونخوا (کے پی) کے شہر ہری پور میں خود سے 18 سال کم عمر رباب سے شادی کی تھی۔

گزشتہ برس ایک انٹرویو میں شعیب اختر نے اعتراف کیا تھا کہ اہلیہ ان سے کافی کم عمر ہیں لیکن ان کی ازدواجی زندگی بہتر گزر رہی ہے اور وہ دوسری شادی کے خواہش مند نہیں ہیں۔
=============================

پارٹنر کی بدسلوکی کی اطلاع دینے پر متاثرہ خاتون ہی گرفتار: ’وہ جانور تھا، وہ مجھے انسان نہیں بلکہ اپنا غلام سمجھتا تھا‘
برطانیہ میں ایک خاتون کو ہی ایمرجنسی سروس پر اپنے سابقہ ساتھی اور پولیس افسر کی جانب سے گھریلو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی اطلاع دینے پر نہ صرف گرفتار کر لیا گیا بلکہ انھیں 18 گھنٹے ایک سیل میں بھی گزارنے پڑے۔

ایوا (فرضی نام) کا خیال ہے کہ برطانیہ کے علاقے ویسٹ میرشیا کے پولیس افسر نے نفسیاتی اور مالی استحصال کرنے کی رپورٹ کرنے سے روکنے کے لیے انھیں گرفتار کیا تھا۔

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ جس وقت ایوا نے اس پولیس افسر کے متعلق اطلاع دی تھی اسی عرصے کے دوران اس افسر کے ساتھ تعلق میں رہنے والی ایک خاتون افسر نے بھی اس پر اسی طرح کے الزامات لگائے تھے۔

ویسٹ مرشیا پولیس کا کہنا ہے کہ اس خاتون کی گرفتاری کا جائزہ لیا جا رہا ہے لیکن دونوں معاملات میں افسر کے طرز عمل کی تفتیش نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی مجرمانہ فعل ہوا۔

تاہم بی بی سی نے دو دیگر خواتین سے بھی بات کی ہے جو اس افسر کے ساتھ تعلقات میں تھیں اور دونوں نے کہا کہ انھیں اس کی جانب سے بدسلوکی کے ایسے ہی تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔

سنہ 2022 میں ویسٹ مرشیا پولیس کے 15 افسران کو تادیبی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان میں سے پانچ جنسی بدسلوکی کے واقعات تھے۔ 15 میں سے تین افسران کو برطرف کیا گیا جبکہ چار نے برطرف ہونے سے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔

تشدد
’وہ مجھے غلام سمجھتا تھا‘
جنوری 2022 میں جب ایوا اور اس افسر کی ملاقات ہوئی اور ان کے درمیان تعلق کا آغاز ہوا تو شروعات اچھی تھی۔ پھر تین ماہ کے اندر ہی انھوں نے ایک ساتھ گھر خریدنے کا فیصلہ کیا۔

ایوا کا کہنا ہے کہ لیکن اس کے تقریباً فوری بعد ہی اس کا رویہ بدل گیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ سمجھتا تھا کہ میں اس کے لائف سٹائل اور عیاشیوں کے لیے پیسا دوں گی، وہ مجھے انسان نہیں اپنا غلام سمجھتا تھا۔‘

اسی برس اکتوبر میں ایوا نے اس پولیس افسر سے اپنا تعلق ختم کر دیا لیکن ان دونوں کو گھر میں ہی رہنا پڑا جب تک اسے فروخت کیا جا رہا تھا۔ ایک ماہ بعد ایوا نے اپنے پولیس افسر ساتھی کی جانب سے ہراساں کرنے اور اس کے ساتھ زبانی اور مالی طور پر بدسلوکی کرنے کی اطلاع پولیس کو دی۔

حالانکہ ایوا جس صورتحال میں تھی وہ ’انتہائی ناخوشگوار‘ تھی مگر ویسٹ مرشیا پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے افسر نے کوئی مجرمانہ فعل نہیں کیا تھا۔ اسی دوران دوسری خاتون افسر نے بھی اس افسر کے بارے میں بدسلوکی اور زبردستی اس پر اپنا اختیار رکھنے کی اطلاع دی تھی۔

تاہم مرشیا پولیس کا کہنا ہے کہ افسر کا رویہ قابل قبول سمجھا گیا اور اس کے خلاف کسی تادیبی کارروائی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

تشدد
’وہ جانور تھا‘
ایوا نے بتایا کہ دسمبر 2022 میں انھوں نے خوفزدہ ہو کر 999 پر کال کی لیکن افسران کے پہنچنے پر انھیں ہی حملے کے شبہ میں گرفتار کر لیا گیا۔

انھیں یقین ہے کہ ان کے سابق ساتھی نے ہی انھیں گرفتار کروانے اور گھر سے باہر نکلوانے میں اپنے عہدے کا استعمال کیا ہے۔

ایوا نے کہا کہ ’میں رو رہی تھی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ مجھے کیوں پکڑا گیا تھا، میں نہیں جانتی کہ اس نے ان سے کیا کہا تھا۔ میں صرف اتنا جانتی تھی کہ وہ جانور تھا جس نے یہ سب کچھ میرے ساتھ کیا کیونکہ میں بے گناہ تھی۔‘

بعدازاں ان کی ضمانت ہو گئی لیکن وہ بتاتی ہیں کہ وہ چار ہفتے تک اپنے گھر نہیں جا سکیں۔

ان کے خلاف مقدمے کی تفتیش بھی اس وقت ختم کر دی گئی جب افسر نے ان کے خلاف لگائے گئے الزامات واپس لے لیے۔

بی بی سی نے اس افسر کے بارے میں جن دیگر خواتین سے بات کی ہے ان میں سے ایک نے کہا کہ اسے پولیس میں نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’انھیں (پولیس کو) تربیت دی جاتی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ان سے کیا توقع کی جاتی ہے۔ اسے بیج نہیں پہننا چاہیے۔‘

اس پولیس افسر کی ایک اور سابقہ ساتھی نے ہمیں بتایا کہ اسے آج بھی اس سے ڈر لگتا ہے۔

پولیس اور کرائم کمشنر جان کیمپین نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ گھریلو زیادتی کے کچھ متاثرین پولیس کو اپنے تجربات کی اطلاع دینے میں آسانی محسوس نہیں کرتے۔

ویسٹ مرشیا پولیس پروفیشنل سٹینڈرڈز کے سربراہ، سپرنٹنڈنٹ مو لانسڈیل نے کہا کہ ’ہم پولیس اہلکاروں کی جانب سے گھریلو بدسلوکی کی رپورٹس کو ناقابل یقین حد تک سنجیدگی سے لیتے ہیں اور بغیر کسی خوف اور حمایت کے تمام واقعات کی مکمل تفتیش کرتے ہیں۔‘

ایوا کو اس وقت یقین نہیں آیا جب اس کے سابقہ ساتھی کو پولیس فورس میں ترقی دے دی گئی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’وہ اپنی طاقت کا استعمال کرتا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ پولیس نے میری مدد کی تھی۔ جب میں نے مدد کے لیے فون کیا تو کوئی میری مدد کے لیے نہیں آیا بلکہ وہ آئے اور مجھے گرفتار کر لیا۔‘

متعلقہ عنوانات
تشدد
گھریلو تشدد
خواتین
خواتین کے حقوق
پولیس
برطانیہ
==============================


ہمایوں سعید اور ماہرہ خان 9 سال بعد ایک ساتھ جلوہ گر ہونے کیلئے تیار
پاکستان شوبز انڈسٹری کے اسٹار ہمایوں سعید اور اداکارہ ماہرہ خان 9 سال بعد دوبارہ ایک ساتھ اسکرین پر جلوہ گر ہونے کے لیے تیار ہیں۔

ماہرہ خان اور ہمایوں سعید 2015ء میں ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم ’بن روئے‘ میں ایک ساتھ بڑی اسکرین پر نظر آئے تھے اور اس فلم میں ان دونوں اداکاروں کی آن اسکرین کیمسٹری مداحوں کے دلوں میں گھر کر گئی تھی۔

مداح اس جوڑی کو دوبارہ ایک ساتھ اسکرین پر دیکھنے کا پچھلے کئی سالوں سے انتہائی بے صبری کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں۔

خود ہمایوں سعید اور ماہرہ خان بھی اپنے مداحوں کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے دوبارہ ایک ساتھ کام کرنا چاہتے تھے لیکن پچھلے 9 سالوں میں انہیں کوئی ایسا مناسب پروجیکٹ ملا نہیں جس میں دونوں ایک ساتھ کام کر سکتے۔

تاہم، اب کئی سالوں کے بعد ہمایوں سعید اور ماہرہ خان کے مداحوں کے لیے یہ خوشخبری سامنے آئی ہے کہ وہ اپنی اس پسندیدہ آن اسکرین جوڑی کو دوبارہ اسکرین پر فلم ’لوو گرو‘ میں رومانس کرتے دیکھیں گے۔

فلم’لو گرو‘ کی کہانی معروف اداکار و اسکرین رائٹر واسع چوہدری نے لکھی ہے جبکہ اس فلم کے ہدایتکار ندیم بیگ ہوں گے۔

فلم کی ریلیز کی تاریخ کے حوالے سے فی الحال کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔