انڈیا پاکستان سے یہ چڑیاں اچانک کہاں غائب ہو گئیں؟


انڈیا پاکستان سے یہ چڑیاں اچانک کہاں غائب ہو گئیں؟

براؤن چڑیا جسے ہوم سپیرو کے نام سے دنیا میں جانا جاتا ہے وہ کہاں غائب ہو گئی پاکستان اور انڈیا میں ان چڑیوں کی بہتات تھی مگر اب ان کی کمی ہے کیا واقعی یہ چڑیاں مر گئی ہیں یا ان کو مار دیا گیا ہے یا یہ نقل مکانی پر مجبور ہو گئیں اپ یاد کریں اپ نے اخری بار ان براؤن چڑیا کو کہاں دیکھا تھا کب دیکھا تھا اور اب یہ اپ کو اپنے گھروں کے اس پاس شہروں میں دیہاتوں میں نظر اتی ہیں ان براؤن چڑیا یا ہوم سپیرو کے بارے میں ہسی ٹی وی نے اپنی ایک ویڈیو رپورٹ میں کافی دلچسپ معلومات فراہم کی ہے اپ کے لیے یہ ویڈیو ایک معلومات کا خزانہ ثابت ہو سکتی ہے

اس ویڈیو میں دی گئی معلومات سے ضروری نہیں کہ اپ اتفاق کریں لیکن یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور ان جڑیوں سمیت اور بھی بہت سے پرندے کم ہو گئے ہیں غائب ہو گئے ہیں یا اب کم نظر اتے ہیں اخر کوئی تو وجہ ہے انڈیا میں اکشے کمار نے ایک فلم بھی بنائی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح یہ پرندے کم ہو رہے ہیں اس میں موبائل ٹیلی فون کمپنیوں کے سگنلز والے کھمبے اور سگنلز کی وجہ سے ایسے پرندوں کے لیے مشکلات اور زندگی مشکل ہوتی جا رہی تھی یہ دکھایا گیا تھا اس بارے میں اور بھی ماہرین نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور اپ اگر گوگل پر سرچ کریں تو اپ کو کافی معلومات مل جاتی ہے
====================

سندھ گیمز کے دوران ایتھلیٹ بیہوش، سہولیات کا فقدان، رکشہ میں ڈال کر ہسپتال لے جانا پڑا
انتظامیہ نے 5 ہزارمیٹر کی پریکٹس کرنیوالوں کو 10ہزار میٹر تک دوڑا دیا، ریس کے بعد ایک ایتھلیٹ حمزہ بیہوش ہوگیا، رکشے میں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں اب حمزہ کی حالت بہتر ہے

سندھ گیمز کے دوران ایتھلیٹ بیہوش، سہولیات کا فقدان، رکشہ میں ڈال کر ..

کراچی ۔ 25 فروری 2024ء ) سندھ گیمز کے دوسرے دن نیشنل سپورٹس اینڈ کوچنگ سینٹر میں 10 ہزار میٹر ریس میں دوڑنے والا ایتھلیٹ حمزہ ریس کے بعد بے ہوش ہوگیا لیکن ابتدئی طبی امداد اور ٹرانسپورٹ کا کوئی بندوبست نہیں تھا جس کی وجہ سے رکشے کا سہارا لینا پڑگیا۔ جیو نیوز کے مطابق کراچی میں جاری سندھ گیمز میں انتظامیہ نے انوکھا کارنامہ کر ڈالا، پانچ ہزار میٹر کی پریکٹس کرنے والوں کو 10 ہزار میٹر تک دوڑادیا۔

ریس کے بعد ایک ایتھلیٹ حمزہ بے ہوش ہوکر گر گیا مگر نہ دوا نہ گاڑی نہ علاج، ساتھی کھلاڑی اور ریجن کے کوچز اُس کو کافی دیر تک ہوش میں لانے کی کوشش کرتے رہے۔ اس دوران نہ تو ابتدائی طبی امداد کےلیے کوئی آیا اور نہ ہی سندھ گیمز کی انتظامیہ کی جانب سے ٹرانسپورٹ فراہم کی گئی، آخر کار لڑکے کو رکشے میں سپتال پہنچایا گیا، جہاں اب حمزہ کی حالت بہتر ہے۔
=======


بالی وڈ کے ولن ’ڈینی‘ کا اصل نام کیا تھا اور انہیں نیا نام کس نے دیا؟

یوسف تہامی -دہلی

فلم ’میرے اپنے‘ معروف نغمہ نگار گلزار کی بطور ہدایت کار پہلی فلم تھی لیکن یہ فلم ایک نوجوان اداکار کی بھی پہلی فلم تھی جو اس فلم میں ایک چائے کی دکان پر پہلے پہل کٹھ پتلی لیے نظر آتا ہے لیکن اصل زندگی میں وہ جنگلوں میں کٹار لیے گھومتا پھرتا تھا۔
اگر چہ بی آر اشارا کی فلم ’ضرورت‘ کو ان کی پہلی فلم کہا جاتا ہے لیکن ضرورت ’میرے اپنے‘ کے بعد ریلیز ہوئی تھی۔

یہ نوجوان کوئی اور نہیں بلکہ انڈیا کی شمال مشرقی ریاست سکم میں پیدا ہونے والا اداکار ڈینی ڈینزونگپا ہے جنھیں سنہ 1962 کی ہندوستان چین جنگ نے فوجی کے بجائے اداکار بنا دیا۔ ڈینی کو ہم نے فیروز خان کی فلم دھرماتما میں پہلی بار دیکھا جس میں انہوں نے ایک خانہ بدوش قبائلی نوجوان کا کردار ادا کیا ہے۔

کیارا اڈوانی کا ’ڈان تھری‘ میں خیرمقدم، ’ایکشن دکھانے کا اب میرا وقت ہے‘
سنہ 1971 میں بننے والی فلم ’میرے اپنے‘ سے اداکاری کی دنیا میں قدم رکھنے والے ڈینی نے سنہ 1975 میں آنے والی فلم دھرماتما تک دھند، چور مچائے شور اور کھوٹے سکے میں اداکاری سے اپنی پوزیشن مستحکم کر لی تھی۔
لیکن انہیں اس کے لیے سخت محنت کرنی پڑی تھی۔ آج ہم ان کا ذکر اس لیے لے کر بیٹھے ہیں کہ آج ہی کے دن کوئی 76 سال قبل سنہ 1948 میں ڈینی اس دنیا میں آئے۔
ڈینی کی والدہ نے ہند اور چین کی جنگ سے خوفزدہ ہو کر اپنے بیٹے کو فوج میں جانے سے روک دیا اور اس طرح بالی وڈ کو ایک ایسا اداکار ملا جس نے ہر طرح کے کردار میں اپنی شناخت بنائی۔
ڈینی کے نام کی حقیقت
ڈینی نے اپنے نام کے متعلق دلچسپ واقعہ نہ جانے کتنی بار سنایا ہے۔ ان کا اصل نام ’شیرنگ فینٹسو ڈینزونگپا‘ تھا اور جب وہ انڈین فلم انسٹی ٹیوٹ پونے پہنچے تو ان کے ساتھی نہ صرف ان کے نام کا درست تلفظ کرنے سے قاصر نظر آئے بلکہ ان کا نام مذاق کا موجب بھی بن گیا۔
ان کی کلاس کی ساتھی جیا بھادری جو بعد میں بڑی اداکارہ بنیں اور امیتابھ بچن سے شادی ہوئی وہ ان کی مدد کو آگے آئيں اور انھوں نے شیرنگ فینٹسو ڈینزونگپا کی مشکل کو آسان کرتے ہوئے انھیں ڈینی نام دیا جو گذشتہ تقریباً پچاس سال سے تمام ہندی فلم شائقین کو زبان زد ہے۔

فلم فیئر 2012 کے موقعے پر ایک انٹرویو کے دوران ڈینی نے اپنے نام کے متعلق کہا ’اپنے شروعاتی دنوں میں جب میں ایف ٹی آئی آئی ( فلم اینڈ ٹیلیوژن انسٹٹیوٹ آف انڈیا ) میں ادا کاری کا کورس کر رہے تھے تو میری ملاقات جیا بھادری سے ہوئی۔ تعارف کے دوران لوگوں کو ان کا نام زباں زد کرنے میں پریشانی ہونے لگی اور مجھے بار بار اپنا نام دہرانا پڑتا تھا۔ بلکہ بسا اوقات لوگ میرے نام کی وجہ سے مذاق اڑانے لگے تبھی جیا بہادری نے کہا کہ ‘آپ اپنا نام بدل کر ڈینی رکھ لیں۔ یہ نام زبان پر آسان ہوگا۔‘
جہاں گارڈ کی نوکری کا آفر ہوا وہی بنگلہ خریدا
ان کی شکل اور ان وطنیت نے بھی ان کے لیے فلموں کے دروازے تقریباً بند رکھے تھے۔ فلم انسٹی ٹیوٹ میں ان کی ملاقات معروف اداکار بی آڑ چوپڑا سے ہوئی تھی اور انھوں نے ان سے فلم میں کام دینے کا وعدہ کیا تھا جو انھوں نے فلم ’دھند‘ میں انھیں ایک اہم کرادار دے کر نبھایا۔
وہ جب ممبئی کے معروف علاقے جوہو میں اپنے دوستوں کے ساتھ سیر و تفریح کر رہے تھے تو انھیں ’آئی ملن کی بیلا‘، آس کا پنچی، آپ آئے بہار آئی جیسی فلموں کے ہدایت کار موہن کمار کا بنگلہ نظر آیا جہاں سکم کے کئی گارڈ کام کرتے تھے۔ وہ ان کے توسط سے ان کے بنگلے میں داخل ہونے میں کامیاب رہے اور جب انھوں نے کسی فلم میں اداکاری کی بات کی تو موہن کمار زور سے ہنسے اور انھوں نے فلم میں کام تو نہیں دیا لیکن انھیں دربان کی نوکری کی پیشکش کی جو ان کے لیے کسی توہین سے کم نہ تھی۔
اس دن انھوں نے دل میں یہ طے کیا تھا کہ وہ ایک دن ان کے آس پاس ایک بنگلہ بنائیں گے۔ لیکن ہوا یوں کہ کامیابی نے ڈینی کا قدم کچھ اس طرح چوما کہ انھوں نے موہن کمار کی ہی زمین خریدی اور اس پر ایک نیا بنگلہ تعمیر کرایا۔
ڈینی نے 200 سے زائد فلموں میں کام کیا اور اپنی اداکاری کے لیے بے شمار تعریفیں حاصل کی ہیں۔
ڈینی نے اداکاری میں قدم رکھنے سے پہلے بطور گلوکار اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور بالی وڈ کے کئی گانوں میں اپنی آواز دی۔ آشا بھوسلے کے ساتھ انھوں نے ’سنو سنو قسم سے‘ جیسا گیت گایا ہے۔ انھوں نے لتا، محمد رفیع اور کشور کمار کے ساتھ بھی گیت گائے ہیں۔
مثبت اور منفی دونوں کرداروں کو آسانی سے پیش کرنے کی ان کی صلاحیت نے انہیں انڈسٹری میں سب سے زیادہ مطلوب اداکاروں میں سے ایک بنا دیا۔

ادا کاری کی طرف قدم رکھنے کے بارے میں ’وائلڈ فلمس انڈیا‘ سے بات کرتے ہوۓ وہ کہتے ہیں کہ ’پہلے میں فوج میں جانا چاہتا تھا چونکہ میں جس علاقہ سے آتا ہوں وہاں عام طور پر لوگ فوج میں ہے جاتے ہیں، لیکن 60 کی دہائی میں چین سے جنگ میں ہوۓ نقصانات کو دیکھ کر والدہ نے مجھے فوج میں جانے سے منع کر دیا۔ اس کے بعد مجھے فلم انسٹٹیوٹ میں داخلہ ملا اور پھر میں ممبئی آگیا۔‘
کسی شمال مشرقی علاقہ سے آکر ہندی فلم انڈسٹری میں نام بنانا تو دور لوگ جگہ بنانے میں ناکام ہو جاتے ہیں لیکن ڈینی نے ان ساری حد بندیوں کو توڑا اور آگے بڑھتے چلے گئے۔ اس انڈسٹری میں آگے بڑھنے کے لیے ان کا سب سے بڑا امتحان ان کی زبان تھی جس امتحان کو انھوں نے بہت جلد پاس کر لیا۔ آپ فلموں میں ان کے مکالمے اور تلفظ سن کر دنگ رہ جائیں گے۔
’وائلڈ فلمس انڈیا‘ کے ایک پوڈکاسٹ میں اپنے شروعاتی جد و جہد کے دن کو یاد کرتے ہوئے ڈینی نے مشہور ہدایت کار بی آر چوپڑا کا ذکر کرتے ہوۓ بتایا کہ ’ان دنوں میں ’ایف ٹی آئی آئی‘ کے فائنل امتحان دے رہا تھا تو میری ملاقات بی آر چوپڑا سے ہوئی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ تم بس محنت کرتے رہو ضرور کامیاب ہوگے اور میں تمہیں اپنی فلم میں رول دوں گا۔ اور یہ میرے لیے بہت بڑی بات تھی چونکہ بی آر چوپڑا تو بی آر چوپڑا ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’پھر بعد میں کسی طرح بی آر چوپڑا نے فلم ’دھند‘ میں مجھے کاسٹ کر لیا۔ فلم کافی ہٹ ہوئی اور میری خوب تعریف ہوئی چونکہ وہ رول ایک ایسے شخص کا تھا جو بظاہر عمر رسیدہ معلوم ہو اور میں اس وقت بمشکل 20 یا 21 سال کا رہا ہوں گا۔‘
ہندی سنیما میں ڈینی نے کئی اہم فلمیں دی ہیں۔ ڈاکو کے کردار میں وہ خاصے پسند کیے گئے ہیں۔ انہوں نے اپنی قابلیت اور استعداد سے اس انڈسٹری میں اپنی ایک الگ پہچان اور وقار بنایا۔ فنون لطیفہ میں ان کی بے شمار خدمت کے لیے انھیں ہندوستان کے چوتھے اعلیٰ ترین شہری اعزاز پدم شری سے بھی نوازا گیا۔

امیتابھ بچن، ونود کھنہ اور دھرمیندر کے ساتھ انھوں نے ٹکر کے کردار ادا کیے۔ ’ہم‘ اور ’صنم بے وفا‘ جیسی فلموں میں ان کی اداکاری کو ناقدوں نے سراہا تھا جبکہ ’اگنی پتھ‘ میں ان کے ولن ’کانچا چینا‘ کے کردار کو بہت سراہا گیا۔ ‎
زیادہ تر فلموں میں ان کو منفی کردار میں ہی دیکھا گیا ہے، یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ ان کو جو شہرت حاصل ہوئی اس کو ان کے منفی کرداروں نے ہی دوام بخشا ہے۔ لیکن در حقیقت جیسے وہ فلم میں نظر آتے ہیں ویسے وہ بالکل بھی نہیں ہیں۔ وہ ایک ہنس مکھ اور ملنسار انسان ہیں اور آج بھی وہ اپنے صحت کا خوب خیال رکھتے ہیں۔ انھوں نے مسلم کردار کو بخوبی نبھایا ہے چاہے وہ ’خدا گواہ‘ کا پٹھان ہو یا پھر فلم ہم میں بختاور کا کردار۔
https://www.urdunews.com/node/839346
==============================

’رکشے کے پرزوں‘ سے بنی جیپ، جو ایک لیٹر میں ’30 کلومیٹر‘ چلتی ہے
میانوالی کے ظہور احمد نے ایک فور بائی فور منی جیپ تیار کی ہے، جس میں ڈرائیور سمیت چھ افراد سفر کر سکتے ہیں۔
محمد جنید خان ہفتہ 24 فروری 2024
میانوالی کے موٹر سائیکل مکینک ظہور احمد نے آٹو رکشہ کے پرزوں سے ایک فور بائی فور منی جیپ تیار کی ہے، جس میں ڈرائیور سمیت چھ افراد باآسانی سفر کر سکتے ہیں۔

ظہور کے مطابق انہیں یہ جیپ تیار کرنے میں چار سے پانچ ماہ لگے۔ ’یہ آٹو رکشہ 200 سی سی ہے جسے میں نے جیپ میں تبدیل کیا۔ اس پر میری تقریباً ساڑھے چار لاکھ روپے لاگت آئی۔‘


آٹو پالیسی: ٹیکس چھوٹ کے باوجود سستی گاڑیاں کیوں نہیں مل رہیں؟
انہوں نے مزید بتایا: ’اس کے کچھ پرزے میں راولپنڈی سے لایا اور کچھ سرگودھا سے۔ اس میں زیادہ تر پارٹس آٹو رکشہ کے ہیں، رم اور سٹیرنگ اسمبلی وغیرہ مہران کی ہے۔

ظہور نے اسے بچوں کے لیے ’بہترین سواری‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں گرنے کا کوئی خدشہ نہیں۔

’اگر بچوں کو سیروتفریح کے لیے کہیں لے جانا ہو تو اس جیپ میں آٹھ سے دس بچے با آسانی سفر کر سکتے ہیں۔‘

ظہور نے بتایا: ’ایک لیٹر پیٹرول میں تقریباً 30 کلومیٹر فی لیٹر سے زائد اس کی اوسط ہے۔ اس کی دیکھ بھال بہت آسان ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ منی جیپ میں لائٹس، سیٹیں اور سٹئیرنگ سمیت سب کچھ فٹ ہے۔
https://www.independenturdu.com/node/161296