نئی حکومت کے لیے بڑا چیلنج۔۔۔ مہنگائی اور مہنگائی


ون پوائنٹ

نوید نقوی
=========

پاکستان میں خدا خدا کر کے عام انتخابات خیر و عافیت سے منعقد ہو چکے ہیں۔ اب نئی حکومت بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان جوڑ توڑ جاری ہے۔ اگلے کچھ دنوں تک سب کچھ واضح ہو جائے گا کیونکہ قانون کے مطابق 29 فروری تک قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس منعقد ہونا ضروری ہے۔ ان انتخابات کے کامیاب انعقاد کے لیے جہاں الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سیکیورٹی فورسز نے اپنا اہم کردار ادا کیا وہیں ملک بھر کے اساتذہ نے بھی بطور پریذائیڈنگ ، اسسٹنٹ پریذائیڈنگ اور پولنگ آفیسرز کے طور پر کم معاوضے اور ناکافی سہولیات کے باوجود اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ قوم کے معماروں کو کن مشکلات کا سامنا ہوا اور انتظامی طور پر تحصیل و ضلعی انتظامیہ کہاں کھڑی رہی اس پر انشاء اللہ تعالیٰ پھر کبھی قلم اٹھاؤں گا لیکن چونکہ پاکستان میں اساتذہ ایک ایسی مخلوق ہیں، حکومت چاہے جس طرح بھی ڈیوٹی کروائے یہ اف تک نہیں کرتے۔ میں پوری ایمانداری سے سمجھتا ہوں پاک افواج کے بعد اگر کوئی ادارہ منظم طریقے سے اپنے فرائض منصبی سر انجام دے رہا ہے تو وہ محکمہ ایجوکیشن ہے۔ لیکن چونکہ اس وقت مہنگائی کا جن بوتل سے نکلنے کو بیتاب ہے اس لیے قوم کے معماروں کے لیے انہی صفحات پر پھر گذارشات لکھوں گا۔ اب وطن عزیز میں صورتحال یہ ہے کہ عام آدمی ہر روز کی ایک نئی کہانی سے تنگ آگیا ہے اُس کا مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے ۔ فیصلہ سازوں سے ہاتھ جوڑ کر التماس ہے کہ آپس میں مل بیٹھ کر مُلک کو اس ہیجانی کیفیت سے نکالیں۔ دنیا کے سامنے پہلے ہی بہت تماشہ بن گیا ہے اب یہ وطن مزید صدمے برداشت نہیں کر سکتا۔ خدارا اپنی آنے والی نسلوں اور اپنے ملک کے لیے سب ایک ہو جائیں اور کچھ ایسا کریں کہ پاکستان کا عام آدمی چین و سکون کے ساتھ ساتھ تحفظ بھی محسوس کرے ۔ ہمارے سیاستدان جس طرح قوت فیصلہ سے محروم ہیں مجھے ڈر ہے آنے والی نسلیں جمہوریت سے اکتا جائیں گی اور اس کا نقصان نہ صرف ملک کو ہوگا بلکہ اردگرد کے ممالک پر بھی منفی اثر پڑے گا۔ جس کا نتیجہ وہی کہ قوموں کے درمیان ہماری بچی کھچی عزت بھی ختم ہو جائے گی۔ یوں تو اس وقت پوری دنیا میں وسائل کی تقسیم میں خیانت کی وجہ سے افراتفری ہے لیکن اگر اعداد و شمار دیکھیں تو اس وقت اسرائیل کی غزہ میں جارحیت کی وجہ سے یمن کے حوثیوں نے بحیرہ احمر میں باب المندب کا سمندری روٹ بند کر رکھا ہے اور اس کا اثر امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک کی معیشت پر پڑ رہا ہے لیکن وہ اسرائیل کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیے ہوئے ہیں اور اپنی عوام کو غلط بیانی کرتے ہوئے شرحِ سود میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ مہنگائی میں مصنوعی اضافہ کر کے جیسے تیسے اپنی معیشتوں کو سنبھالا دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ایسا زیادہ عرصے تک نہیں ہوگا۔ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی ادارے چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ ان نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں مہنگائی کا جن قابو سے باہر ہونے والا ہے۔ اس لیے روس اور یوکرین جنگ کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی غزہ پر جارحیت فوراً روکی جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہاں دنیا کی ترقی یافتہ معیشتیں ڈگمگا رہی ہیں وہیں وطن عزیز کہاں کھڑا ہے؟ جہاں اتنی بڑی طاقتوں کو بحران کا سامنا ہے لامحالہ اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے کیونکہ پاکستان میں پہلے سے ہی مہنگائی اپنے عروج پر ہے اور عوام کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ پاکستان میں اس وقت مڈل کلاس طبقہ معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ اچھے خاصے سفید پوش لوگ بڑی مشکل سے زندگی کی گاڑی کو رواں رکھے ہوئے ہیں۔ اب جبکہ پاکستان میں نئی حکومت بننے جا رہی ہے تو اس کے پاس کیا آپشن ہوں گے اور کیا وہ اپنے عوام کو جو پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں پسے ہوئے ہیں کوئی ریلیف دے سکے گی یا نہیں۔ تو حقائق یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں نئی حکومت بننے کے بعد مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ عوام پر نئے ٹیکسوں کی بھرمار ہوگی۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور اس کا اثر تمام ضروریات زندگی پر پڑے گا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نگران حکومت نے اپنے مینڈیٹ سے بڑھ کر کچھ اداروں کی پرائیویٹائزیشن کرنے کی ہمت نہیں کی لیکن جوں ہی منتخب حکومت آئے گی وہ بہت سے اداروں کو پرائیویٹائز کرے گی جس سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوں گے اور ایک ایسی مہنگائی ہوگی جو عوام نے پہلے دیکھی ہوگی اور نہ ہی سنی ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں اگلے تین سالوں تک کسی بھی قسم کا ریلیف نہیں مل سکے گا۔ یہاں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ آئندہ جون تک پاکستان کو 28 ارب ڈالرز کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ اتنی بڑی رقم کہاں سے اور کیسے آئی گی یہ ایک بلین ڈالرز کا سوال ہے جس کا جواب ماہرین معیشت ہی بہتر دے سکتے ہیں۔ ایک غیر ملکی رپورٹ کے مطابق عالمی بینک نے حکومت پاکستان پر غیر ملکی قرضہ جون 2024 تک 820 کھرب روپے تک پہنچ جانے کا تخمینہ لگایا ہے۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں غربت کی شرح 41 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یہاں ایک افسوس ناک حقیقت بھی بیان کرتا چلوں کہ پاکستان میں غربت کے شکار افراد کی تعداد 12 کروڑ سے زائد ہے۔ یہ تعداد معمولی نہیں ہے بلکہ پاکستان کی نصف آبادی بنتی ہے۔ ایک کروڑ بیس لاکھ افراد جن کے پاس تعلیم بھی ہے بے روزگار ہیں۔ یہ سب باتیں بیان کرنے کا مقصد قوم کو مایوس کرنا نہیں ہے بلکہ وارننگ دینا ہے کہ آنے والے مشکل وقت کی پہلے سے تیاری کی جائے۔ آپ کے اخراجات جن میں ڈریسنگ، فیشن اور فضول لوازمات شامل ہیں ان کو فوری ختم کر دیں۔ سادگی کا کلچر پروان چڑھائیں۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سمیت دفاتر میں یونیفارم ٹائپ ڈریس کا رواج عام کیا جائے تاکہ ہر کسی کی ذاتی بچت ہو سکے۔ حکمرانوں کو اپنے اللے تللے اور مہنگے اخراجات پر قدغن لگانا چاہیئے۔ شاید کہ کچھ اچھا اثر پڑ جائے