مقبوضہ کشمیر میں فوجی نفری میں اضافہ، کیا مقاصد ہیں؟

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی،
============


محظ پروپیگنڈہ ہے یا حقیقت لیکن زبان زد عام ہے کہ 8 فروری 2024ء کو پاکستان میں مودی کا دوست اقتدار میں آنا طہ پا چکا، جس کے بعد بھارت اور پاکستان کے تعلقات بہتر اور تجارتی راہداری بحال ہو گی۔جب کہ دونوں پڑوسی ملک شرفاء کی طرح شیروشکر، باہم اختلاط ہوں گے، سالوں سے ٹوٹے ربط ضبط بحال ہوں گے اور دونوں جانب سے شال و ساڑھی کے تحائف کا تبادلہ ہو گا۔ خطہ یورپ کی طرح ترقی اور عوام کے بنیادی مسائل حل اور خوش حالی دلیز کیا کیچن تک پہنچے گی۔ لیکن مودی ہے کہ اس کو چند ہفتے بھی صبر نہیں ہوتا۔ وہ اتنی جلدی میں اور بے صبرہ کیوں ہے یہ منتق سمجھ نہیں آئی۔ اسے کون سا خوف کھا رہا ہے، جو مقبوضہ جموں و کشمیر میں آئے روز فوج بھر رہا ہے اور اب یہ مثال تو صادق آتی ہے کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں جہاں فوجی نہ ہو۔ اب تو مقبوضہ جموں و کشمیر میں ایسے حالات بھی نہیں کہ نفری پر نفری بھیجی جائے۔ تازہ اعلان کے مطابق بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں فوج کی 4 نئی این سی سی بٹالینز کے قیام کی منظوری دی ہے جس کے بعد پہلے سے موجود فوجی نفری میں 12 ہزار 860 سپاہیوں کا اضافہ ہو جائے گا۔ جب کہ چند روز قبل بھارتی وزارت دفاع نے کشمیر میں موجود فوج کے لیے اربوں روپے مالیت کی پچاس سے زائد بکتر بند گاڑیاں خریدنے کی منظوری دی تھی۔ یہ جدید گاڑی خریدنے کی منظوری گزشتہ ماہ کے آخری عشرے میں پونچھ کے علاقہ سرن کوٹ میں فوجی گاڑی پر ہونے والے ایک حملہ میں متعدد فوجیوں کے ہلاکت و زخمی ہونے کے بعد دی گئی۔ تازہ اطلاعات کے مطابق بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی جانب سے دی جانے والی مذید 4 نیشنل کیڈٹ کور یونٹس میں سے 3 مقبوضہ جموں کشمیر ریجن اور ایک لداخ میں قائم کی جائے گی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق راج ناتھ سنگھ نے ادھم پور اور کپواڑہ میں ایک ایک بوائز اینڈ گرلز آرمی بٹالین اور ادھم پور میں ایک ایئر سکواڈرن جب کہ کارگل ، لداخ کےلئے لڑکوں اور لڑکیوں کی آرمی این سی سی بٹالین کی بھی منظوری دی ہے۔بھارتی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں پہلے سے موجود 27 ہزار 870 کیڈٹس کے علاؤہ جموں کشمیر اور لداخ میں مزید 12 ہزار 860 کیڈٹس کا اضافہ کیا جائے گا ۔اس وقت این سی سی ڈائریکٹوریٹ کے دو گروپ ہیڈکوارٹر ہیں، جن میں مجموعی طورپر 10 این سی سی یونٹ موجود ہیں ، جو تین جغرافیائی خطوں جموں کشمیر اور لداخ پر مشتمل ہیں۔ لگ بھگ چالیس ہزار مسلحہ نیم فوجی نفری مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعینات باقاعدہ آرمی فورس سے سے علاوہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد 10 لاکھ سے زائد ہے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس پاکستان چیپٹر کے سیکرٹری جنرل شیخ عبدالمتین کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مسلحہ افواج کی تعداد 16 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ویلج ڈیفنس کمیٹی کے نام پر بھارتی جنتا پارٹی کے غنڈوں کا مسلحہ جتھا اس ساری گنتی میں شمار نہیں کیا جا رہا،جس کی تعداد ڈھائی سے تین لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ گاوں، گاوں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مسلحہ دہشت گرد جتھے گو کہ سولین ہیں تاہم ان کو سرکاری رائفل مہیا کی گئی ہے۔امن امان کی بحالی اور آتنگ بادی کی روک تھام کے نام پر قتل و غارت کے اس کو پورے اختیار حاصل ہیں جو کالے قوانین کے تحت بھارتی فوجی اور پولیس کو حاصل ہیں۔ بھارت گزشتہ کئی سال سے غیر علانیہ اور مختلف حیلے بہانوں سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلحہ افواج میں اضافہ کر رہا ہے خاص طور پر سالانہ امرناتھ یاترا کے راستوں پر سکورٹی کے انتظامات کے لیے کم و بیش 50 ہزار نئی فوجی نفری کو تعینات کرتا ہے جو واپس نہیں جاتی۔ ان میں سے بعض کو جموں چھاونی میں محفوظ فوج کے طور پر رکھا جاتا ہے جب کے بعض کو وادی میں گلی گلی تعینات فوجیوں میں مرج کر کے غیر محسوس طریقے سے فیلڈ نفری میں بتدریج اضافہ کر رہا ہے۔ دنیا کی اس سب سے بڑی جیل میں انسانی زندگی اجیرن ہو چکی خاص طور پر عفت مآب خواتین کا جینا محال ہے، جن کو انسانی حقوق کی پامالی، تشدد، کسی فوجی کی اچانک آمد اور بندوق کے زور پر ریپ کا خوف اسے نفسیاتی بنا رہا ہے۔ تب ہی مقبوضہ وادی میں گھر گھر نفسیاتی مرض میں اضافے کی رپورٹ مل رہی ہیں جن میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے ۔ اس سے بھی زیادہ خطرے ناک بات یہ ہے کہ گزشتہ 33 برسوں سے بھارتی فوجیوں نے ریپ کو بطور جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ جس کی کوئی انکوائری یا متاثرین کی داد رسی نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر مقبوضہ وادی کے کنن پوش پورہ جڑواں گاؤں میں 23 اور 24 فروری منجمد کر دینے والی درمیانی شب بھارت کے لگ بھگ ڈیڑھ سو سے زائد فوجی مردوں کو باہر درختوں کے ساتھ باندھ کر گھروں میں داخل ہوئے۔ 8 سال کی بچی سے 80 سال کی بوڑھی عورت تک 100 سے زائد خواتین کا جبری ریپ کیا۔ اس واقع میں کچھ خواتین ہلاک ہوئی کچھ نے بعد ازاں خود کشی کی جو بچی رہی وہ زندہ لائش کی مانند ہی رہیں لیکن اس سنگین واقعہ کی نہ کوئی غیر جانبدار انکوائری ہوئی اور نہ کسی کو اس جرم میں سزا ملی بلکہ بھارتی حکومت ایسے فوجی افسران کو ایوان صدر میں بلا کر بھارتی سٹار کا ایوارڈ دیتی ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس گھناؤنے جرم کی بین الاقوامی سطح پر مذمت ہوتی ہے اور نہ درست رپورٹنگ۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی کارکن خرم پرویز اور اس نوعیت کے صحافیوں کو جب سے جیل میں ڈالا گیا۔ مسرت ظہرہ جیسی فوٹو گرافر کو وطن چھوڑنا پڑا مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم کی کوئی خبر نہ باہر آتی ہے نہ کوئی تصویر دنیا کے سامنے آتی ہے۔ آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت پاکستان کے کرپٹ سیاسی نظام می ضم ہو کر بنیادی ذمہ داری ہی بھول گئی۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں مہنگے علاقوں میں اعلی شاں محلات تعمیر کرنا ان کی کوشش ہے تاکہ اپنے اصل مالک کی گھر پر دعوت کی جائے، تاکہ ان کے اسٹیٹس میں اضافہ ہو۔جب کہ مقبوضہ کشمیر کی قیادت جیلوں میں ہے یا مفادات اور قیادت کے جھگڑے میں بکھری ہوئی ہے۔ ویسے بھی مقبوضہ کشمیر کی قیادت خواہ مین اسٹریم ہو یا آزادی پسند کبھی بھی سمت کا درست تعین نہیں کیا،اور نہ ایک چھتری کے سائیہ میں جمع ہوئی۔ ان مظلوم عورتوں، بچوں، بوڑھوں کی فریاد کون سنے اور کون بولے۔ اس صورت حال میں جناب کے ایچ خورشید کی پیشن گوئی درست ثابت ہوتے دکھتی ہے کہ کشمیریوں کو دوبارہ کھڑا ہونے میں سو سال لکھیں گے، کیوں کہ بھارت نے کشمیریوں کو تین محاذوں پر توڑا ہے۔ نسل کشی، سماجی ویلیوز، اور معاشی قتل۔ موجود صورت حال کے تناظر میں راجہ فاروق حیدر خان نے کشمیر کی آزادی کے لیے ساڑھے سات سو سال کی پیشن گوئی کی ہے، لیکن راجہ صاحب کے محبوب قائد آکر اس عرصہ میں کچھ کمی کرتے ہیں یا اضافہ زیادہ دور کی بات نہیں۔
========================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC