ماہرین اور کارکنوں کا 2022 کے سیلاب کے تناظر میں موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی میں اصلاحات کا مطالبہ

کراچی، (رپورٹر) ملک کے آفات زدہ علاقوں میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں، رضاکاروں اور محققین نے بدھ کے روز پالیسیاں بنانے اور کمزور و نادار کمیونٹیز جیسا کہ شیڈول کاسٹ اقلیتوں، کسانوں اور خواتین کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نےکہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اکثر اوقات آفات آرہی ہیں۔
ہم نے 2022 کے سیلاب کے بعد سندھ میں ریلیف اور ریسکیو آپریشن کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور امتیازی سلوک کا مشاہدہ کیا،” ایک مقرر نے سندھ میں 2022 کے سیلاب میں خطرات کے تجربات پر ایک رپورٹ کے اجراء اور مباحثے کے سیشن کے دوراں کیا، جس کا مشترکہ طور پر اہتمام نیشنل کمیشن فار ہیومین رائیٹس اور دی نالج فورم نے کیا تھا۔

این سی ایچ آر کی رکن برائے سندھ انیس ہارون، سماجی تنظیم ہینڈز کے رحیم مری، محقق نجم الدین؛ ٹریڈ یونینز کے رہنما ناصر منصور اور ٹی کے ایف کی ڈائریکٹر زینیا شوکت نے اس موقع پر خطاب کیا۔

مقررین نے آفات کے دوران غریبوں کی حالت زار پر روشنی ڈالی، انہوں نےکہا کہ 2022 میں مون سون کی طوفانی بارشوں کے بعد سندھ میں ان طبقوں نے تباہ کن سیلاب کا سامنا کیا۔

محقق نجم الدین نے 2022 کے سیلاب کے بعد سانگھڑ اور نواب شاہ اضلاع میں کیے گئے سروے کے نتائج پیش کیے، جس میں کمزور آبادیوں پر پڑنے والے شدید اثرات کو ظاہر کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تباہی دراصل “انسانی ساختہ” تھی، مگر اس میں انتظامیہ کی نااہلی اور بے حسی بھی شامل تھی۔ انہوں نےکہا کہ گذشتہ سال کے سیلاب نے سندھ کے 24 اضلاع اور 13 ملین کی آبادی کو شدید متاثر کیا، جس کے نتیجے میں انسانی ابادیوں کو نقصان پہنچا، مویشیوں کا زیان ہوا اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی۔

ان کے مطابق، سندھ میں امدادی اور بحالی کی کوششیں شروع کرنے سے پہلے نادار کمیونٹیز کے ساتھ ان کی ضروریات یا خدشات کا اندازہ لگانے کے لیے حکومت یا امدادی اداروں کی جانب سے بامعنی شمولیت، شرکت یا مشاورت کا مکمل فقدان دیکھا گیا تھا۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ فوری امداد سے صرف ان کی فوری ضرورتوں کو پورا کیا جا سکتا تھا اور زیادہ تر متاثرہ خاندانوں کو وہ معمولی امداد بھی نہیں ملی۔

امدادی انتظامات کی عدم موجودگی کی بنیاد شیڈول کاسٹ ذاتوں یا مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک ہے جو عام طور پر سندھ میں قدرتی آفات میں سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2010 اور 2022 کے سیلابوں کے دوران بھی ایسا ہی دیکھا گیا۔

محقق نے مشاہدہ کیا کہ بے زمین کسان یا ہاری آبادی کے دوسرے سب سے زیادہ کمزور گروہ تھے، جو بری طرح متاثر ہوئے کیونکہ ان کے مکانات تباہ ہو گئے تھے اور ان کے پاس پناہ گاہیں ناپید تھیں۔

ہینڈز کے رحیم مری نے موسمیاتی تبدیلیوں اور سیلاب کے درمیان تعلق پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سندھ کے مخصوص علاقوں جیسا کہ نوشہرو فیروز میں غیر معمولی بارشیں ہوئیں جس سے سیلاب آیا۔ مری نے نشاندہی کی کہ بارش کے بہتے تیز پانی نے منچھر جھیل کے پشتوں کو تباہ کیا جس سے بڑی بستیاں بھی تہس نہس ہوگئیں۔ یہ حکومت کی ناکامی تھی کہ وہ 2010 کے سیلاب سے کوئی سبق نا سیکھ سکی۔ انہوں نے بہتر اور سرعت ردعمل اور کمزور کمیونٹیز کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا۔

کارکنوں کے حقوق کے کارکن ناصر منصور نے ریلیف اور بحالی کی کوششوں کی سیاسی جہت پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے ریاست کے ردعمل پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ ریاستی اداروں کے امدادی اور بچاؤ کا عملہ نااہل اور غیر تربیت یافتہ یوتا ہے۔ انہوں نےایک مضبوط عوام کی مہم شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کمزوروں کی حفاظت کے لیے زیادہ موثر انداز میں جدوجہد کرنی چاہیے۔

این سی ایچ آر کی محترمہ انیس ہارون نے اپنے شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے ریاست کی ذمہ داری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں صحت کو بنیادی حقوق کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ انہوں نے سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی میں ناکامی اور غریب آبادی کے لیے اقدامات کی عدم موجودگی کو اجاگر کرتے ہوئے ناکافی پالیسی ردعمل پر تنقید کی۔

ٹی کے ایف کی ڈائریکٹر زینیا شوکت نے تباہی سے نمٹنے کی حکمت عملیوں میں انسانی حقوق کے پہلوؤں کو شامل کرنے کی وکالت کرتے ہوئے موجودہ پالیسیوں پر ایک جامع نظرثانی کا مطالبہ کیا۔

شرکاء، جن میں سے کچھ آن لائن تھے، نے پسماندہ کمیونٹیز کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ چونکہ قوم اب تک 2022 کے سیلاب کے نتیجے میں مشکلات سے دوچار ہے، ماہرین اور کارکنوں نے واضح کیا کہ فوری طور پر پالیسی اصلاحات، عوامی بیداری میں اضافہ، اور معاشرے کے سب سے کمزور طبقات کی حفاظت کے لیے اقدامات لیے جائیں۔
=================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC