حسن ناصر ہمیشہ زندہ رہیں گے

ڈاکٹر توصیف احمد خان
===================

حسن ناصر ریاست حیدرآباد دکن کے ایک روشن خیال خاندان میں پیدا ہوئے۔ جوانی میں کمیونسٹ پارٹی کے تحت چلنے والی کسانوں کی تلنگا تحریک سے متاثر ہوئے۔ مخدوم محی الدین تلنگا تحریک کے قائدین میں شامل تھے۔

حسن ناصر نے کچھ عرصہ حیدرآباد دکن میں ترقی پسند تحریک میں حصہ لیا۔ ان کے گھر والوں نے حسن ناصر کو ولایت بھیجنے کا فیصلہ کیا تو حسن ناصر ہوائی جہاز میں سوار ہوکر کراچی میں اتر گئے۔ حسن ناصر کمیونسٹ پارٹی کے دفتر میں آفس سیکریٹری ہوگئے، یوں حسن ناصر کمیونسٹ پارٹی کی زیر زمین سرگرمیوں کے علاوہ مزدور یونینوں میں بھی متحرک رہے۔

بائیں بازو کے رہنما کامریڈ زبیر الرحمن نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ ’’ حسن ناصر 1948میں 20 برس کی عمر میں آندھرا پردیش (حیدرآباد دکن) سے کراچی آکر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شامل ہوگئے۔ اس وقت لائٹ ہاؤس کے نزدیک کمیونسٹ پارٹی کا دفتر ہوتا تھا، وہ وہیں صبح سویرے دفتر کھولتے اور جھاڑو لگاتے تھے۔

انھوں نے اپنے خاندانی جاگیردار طبقے سے ناتا توڑ کر مزدور طبقے سے ناتا جوڑ لیا تھا، اسی لیے کبھی لانڈھی، کورنگی اورکبھی سائٹ کی صنعتی بستیوں میں ٹھکانہ کرلیا تھا۔ لانڈھی ماچس فیکٹری، گنیش کھوپرا مل لیاری، ڈالمیا سیمنٹ فیکٹری اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کے مزدور یونینوں سے مستقل رابطے میں رہتے تھے۔‘‘

50ء کی دہائی میں بنگال کے سابق پریمیئر حسین شہید سہروردی مسلم لیگ سے علیحدہ ہوئے اور پہلے عوامی لیگ قائم کی جو مولانا بھاشانی سمیت دیگر کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کی شرکت سے عوامی لیگ بن گئی، حسن ناصر عوامی لیگ میں کام کرنے لگے۔

پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دورِ اقتدار میں کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سید سجاد ظہیر، عظیم شاعر فیض احمد فیض، محمد حسین عطا اور روشن خیال افراد شامل تھے، انھیں راولپنڈی سازش کیس میں ملوث کیا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی اور اس سے ملحقہ طلبہ، مزدوروں اور دانشوروں کو بغیر کسی جواز کے گرفتار کیا گیا۔

کراچی میں بائیں بازوکی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے تعلیم عام کرنے اور طلبہ کے حقوق کے لیے 8 جنوری 1953کو ایک تحریک چلائی۔ اس تحریک کے رہنماؤں میں ڈاکٹر سرور، پروفیسر جمال نقوی اور مرزا کاظم وغیرہ شامل تھے۔

یہ تحریک دوسرے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے دور میں بھی چلی۔ حکومت نے تحریک کے مطالبات تو مان لیے مگرکچھ عرصہ بعد ڈی ایس ایف کے رہنماؤں کو گرفتار کر کے کراچی جیل میں بند کردیا گیا۔ گرفتار ہونے والوں میں ڈاکٹر سرور، جمال نقوی اور منہاج برنا وغیرہ شامل تھے۔

اورینٹ ایئر ویز جو بعد میں پی آئی اے میں تبدیل ہوگئی کے ٹریڈ یونین کارکن اقبال علوی بھی گرفتار ہونے والوں میں شامل تھے۔ حسن ناصر بھی اس دوران گرفتار ہوئے۔ اس وقت معروف وکیل فخر الدین جی ابراہیم نے وکالت کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت کراچی سے شایع ہونے والے انگریزی کے اخبارکراچی ٹائمز کے ایڈیٹر زیڈ اے سلہری کو بھی گرفتار کر کے کراچی سینٹرل جیل میں نظربند کیا گیا۔

فخر الدین جی ابراہیم یہ واقعہ بیان کرتے تھے کہ جیل میں مقید حسن ناصر سے ان کی ملاقات ہوئی۔ حسن ناصر نے کہا کہ یہ لڑکے مہینوں سے بند ہیں۔ کمشنر نقوی کا آدمی آتا ہے اور لڑکوں سے کہتا ہے کہ معافی نامہ پر دستخط کرو تو رہائی ملے گی۔

آپ ان کا مقدمہ لڑیں گے؟ یوں حسن ناصر اور فخر الدین جی ابراہیم کہتے ہیں کہ وہ حسن ناصر کی وجہ سے ترقی پسند تحریک کے حامی ہوئے۔ عدالتوں نے حسن ناصر اور دیگر رہنماؤں کی حبس بے جا کی عرض داشتیں منظورکیں تو و ہ رہا ہوگئے۔

حسن ناصر کی والدہ زہرہ علمبردار حسن کراچی آئیں اور حسن ناصر سے کہا کہ ان کے والد بسترِ مرگ پر ہیں، واپس چلو مگر حسن ناصر تیار نہیں ہوئے۔ زہرہ علمبردار، حسن ناصر کو فخر الدین جی ابراہیم کے پاس لے گئیں جنھوں نے حسن ناصر کو تیار کیا کہ وہ والدہ کے ساتھ حیدرآباد دکن چلے جائیں، حسن ناصر والدہ کے ساتھ چلے گئے مگر 1956 میں پھرو اپس آگئے اور تنظیمی کاموں میں مصروف ہوگئے۔

جنرل ایوب خان نے 1958میں ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ ترقی پسند اخبارات پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہارکو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا اور ایوب خان حکومت نے سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگادی اور کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں کو گرفتارکر لیا گیا۔ حسن ناصر مسلسل انڈرگراؤنڈ زندگی گزارتے تھے۔

پولیس کی سی آئی ڈی برانچ کے اہلکار ان کا تعاقب کرتے تھے۔ بائیں بازو کے رہنما معراج محمد خان مرحوم کا کہنا تھا کہ حسن ناصر نے ملک میں تیل کی تلاش کے لیے سوویت پولیس اور رومانیہ کے معاہدے کرانے میں کوئی کردار ادا کیا تھا۔

امریکی سامراج اور پاکستانی حکومت کے لیے یہ سنگین جرم تھا۔ 13 نومبر 1960کو جنرل ایوب خان کی آمریت میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے عظیم رہنما کامریڈ حسن ناصر کو لاہور کے بدنام زمانہ شاہی قلعے میں شدید جسمانی اذیت دے کر شہید کر دیا گیا تھا۔

حسن ناصر برصغیر کے سب سے بڑے جاگیردار محسن الملک کے نواسے تھے، ان کی شہادت کے بعد ان کی والدہ زہرہ علمبردار حسین کہتی ہیں کہ ’’ ہر انسان کی زندگی کا اپنی ذات کے علاوہ بھی مقصد ہوتا ہے، ورنہ وہ انسان نہیں، بعض مقاصد ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں جان کی بازی لگانی ہوتی ہے، میرے بیٹے کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔

میں بہت دنوں سے یہ جانتی تھی، کئی سال سے جی کڑا کیے رکھا، بالآخر وہ لمحہ آگیا جو ٹل نہیں سکتا تھا۔ میری بات چھوڑیے البتہ حسن ناصر خوش قسمت تھا کہ اگر اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکا، تو اس کے لیے جان دے دینے کی سعادت تو پائی۔‘‘

فیض احمد فیض کمیونسٹ پارٹی کے کارکن تھے، حسن ناصر کی شہادت کے بعد لکھتے ہیں ’’ دو تین برس اور گزر گئے، ایوب خان کی حکومت قائم ہوئی اور پہلا ( بلکہ دوسرا ) مارشل لاء نافذ ہوا، ہم لوگ ایک بار پھر جیلوں میں بھر دیے گئے اور اس دفعہ لاہور قلعہ کے وحشت ناک زنداں کا منہ دیکھا، چار پانچ مہینے بعد رہائی ہوئی۔

ہمیں نکلے ہوئے تھوڑے دن گزرے تھے کہ ایک شام مال روڈ پر مجھے لاہور قلعے کا ایک وارڈن ملا، علیک سلیک کے بعد اس نے بتایا کہ قلعے میں ہمارے ساتھ کا کوئی نیا قیدی آیا تھا، جو دو دن پہلے فوت ہوگیا ہے، اسی شام یا اگلے دن اسحاق سے ملاقات ہوئی اور ہم دونوں نے طے کیا کہ ہو نہ ہو یہ قیدی ضرور حسن ناصر ہوگا۔‘‘ اس کے بعد جس دلیری سے اسحاق نے اس درد ناک سانحے کے سلسلے میں مختلف دروازے کھٹکھٹائے، اس کی تفصیل ان کی کتاب ’’حسن ناصر کی شہادت‘‘ میں موجود ہے۔

میجر اسحاق نے حسن ناصرکی بازیابی کا مقدمہ دلیری سے لڑا۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران سرکاری وکیل نے کہا کہ ’’ حسن ناصر نے اپنے سیل میں خود کشی کر لی ہے اور انھیں میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کیا گیا ہے۔‘‘ حسن ناصر کی والدہ اپنے بیٹے کی لاش لینے کے لیے حیدرآباد دکن سے لاہور آئیں۔ پولیس نے جو لاش دکھائی وہ ان کے بیٹے کی نہیں تھی، وہ مایوس ہوکر دوبارہ اپنے گھر چلی گئیں۔

حسن ناصر ایوب خان حکومت کے پہلے لاپتہ سیاسی کارکن تھے جن کی لاش نہیں ملی مگر حسن ناصر کی شہادت نے ایوب خان کی آمریت کے خلاف تحریک کو مضبوط کر دیا۔ حسن ناصر کو شہید کرنے والے تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہوگئے مگر حسن ناصر ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

https://www.express.pk/story/2564214/268/
=========================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC