یونان کی دیوی آرٹیمس کو عریاں جنگلات میں دوستوں کے ساتھ گھومنا پسند تھا۔(77) اقتباس۔ “اسلامبول سے استنبول”

ایفیسس کی مرکزی سڑک پر چلتے ہوے میدان کے کونے پر پہنچے تو نشیب میں دنیا ہی مختلف نظر آئی۔ ٹوٹی ہوئی عمارتیں اور بکھرا ہوا ملبہ، سفید سنگ مرمر کے بڑے بڑے ستون کوئی کھڑا کوئی گرا پڑھا ہے۔۔ ہمارا گائیڈ تو انہی پتھروں پر آگئیں چل رہا ہے، لیکن ہمارے لیے مشکل ہے کہ ایک قوم کی ہڈیوں پر چلیں اور کسی تہذیب کو پاوں تلے روندیں۔ تباہ و برباد شہر کے کھنڈرات پر پھتر دل انسان بھی کتنا چل سکتا ہے؟۔ کچھ تو سوچے گا، اسے کچھ تو خیال آئے گا کہ یہاں کیسے کیسے ہنرمند، صاحب عقل و فن رہتے تھے اور آج بھکرا ملبہ اہل زمین دیکھتے ہیں۔ لہذا گائیڈ کو کہنا پڑھا، بس کر بھائی، اتنی انگریزی ہمیں آتی تھی وہ ہم نے سمجھ لیا، اب ہمیں واپس لے چلو۔ بولا مرکز تک تو چلیں، جہاں لائبریری ہے، اسپتال ہے، جہاں اس وقت کی اشرافیہ کے محلات ہیں۔ عبادت گاہیں اور تجارتی مراکز ہیں۔ فیصلہ ہوا یہ درست ہے آدھا شہر بھی نہ دیکھا تو کیا دیکھا۔ پھر دل پر پتھر رکھ کر انہی پتھروں پر چلنے لگے کہ اس شہر میں اب کوئی آشیانہ نہیں۔ میدان کے اس کونے کے بعد نشیب میں اچھا خاصا چلنا پڑتا ہے تب شہر کا مرکزی چوک آتا ہے، پہاڑی سے اترنا تو ظاہر ہے مسئلہ تھا ہی ،کوشش مرداں ہمت خدا کے مصداق گائیڈ صاحب کا دلچسپ اور معلوماتی لیکچر سنتے، سنتے ہم مرکزی چوک تک پہنچ ہی گئے۔


صاحبو!
کیا شہر آباد کیا تھا، انسانی عقل دھنگ رہ جاتا ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے گیارہ سو سال قبل یونانی شہزادہ اینڈروکلوس(Androclus ) کے پاس اس قدر ٹیکنالوجی کہا سے آئی ہو گی کہ پتھروں کی تراش خراش کے علاوہ ان پر اتنی خطاطی اور رنگ روغن کہ آج تک باقی ہے۔ اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ 18 میٹر سے بھی زیادہ مرمر کے پتھر سے ایک ستون نکالنا اس کو کھڑا کرنا اور ٹنوں وزنی پتھر کو اٹھا کر دوسری اور تیسری منزل تک لے جانا اچھنبے کی بات تو ہے۔ چوں کہ، یہ اور اس سے بھی زیادہ معجزات اس تہذیب میں یہاں بکھرے پڑے ہیں لہذا اس سب کو سچ ماننا پڑھتا ہے اور اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جتنا بھی پیچھے جائیں، ان تہذیبوں میں کوئی نہ کوئی چیز ایسی سامنے آتی ہے جو اس زمانے کو منفرد بناتی ہے، آیفیسس کی تہذیب و ثقافت بھی ترقی یافتہ اور منفرد لگی کہ اس میں دنیاوی کسی بھی چیز کی کمی نظر نہیں آتی شہر میں داخلے کا ایک بڑا دروازہ، جس کی آرچ کے کچھ ستون آج بھی کھڑے ہیں۔ یہ وسیع آرج مرمر کے چند پتھر جوڑ کر کھڑی کی گئی۔ ایک بڑی اور کشادہ سڑک جو سنگ مرمر کے بڑے اور دیوہیگل پتھروں کی تعمیر کردہ ہے۔ اس کے ساتھ منسلک چھوٹی سڑکیں جن کو گلیاں کہہ سکتے ہیں سب پختہ اور سنگ مرمر کے پتھر کی ہیں۔ اب یہ خود تحقیق طلب ہے کہ اتنا کثیر سفید سنگ مرمر کا پتھر کہاں سے آیا ہو گا جو سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر میں صرف ہوا۔یہ اور اس سے جڑے کئی سوالات ایسے تھے کہ جس کا جواب گائیڈ کیا ابھی تک محققین بھی اچھی طرح نہیں ڈھونڈ سکے۔ ہم اس سخت ترین گرمی میں دماغ کو اور زیادہ گرم کرنے کے بجائے اس طرح کی ساری سوچیں جن کے جوابات فوری طور پر ملنا مشکل تھے، بانیان ایفیسس اور اس وقت کے ہنر مندوں کے کام کی داد دیتے ہوئے ذہن سے جھٹکی اور سنگ مرمر کے پتھروں سے بنی کشادہ اور بڑی سڑک پر چلتے ہوئے چوک تک پہنچے، جہاں ایک عمارت کے ڈھانچہ کا ایک حصہ موجود ہے، چند بلند ستون کھڑے ہیں۔ ستونوں کے ساتھ ایک چبوترا اور اس کے ساتھ سڑیاں نیچے سفید سنگ مرمر کا فرش ہے اس ڈھانچے کے اطراف اور سامنے پیچھے ٹوٹی ہوئی عمارتوں کے نشانات اور بکھرے ملبے کے ڈھیر بکھرے پڑے نظر آتے ہیں۔ گائیڈ نے بتایا کہ یہاں ایک بڑی لائبریری تھی جو سیلس کے بیٹے نے اس کی یاد گار کے طور پر تعمیر کرائی تھی۔ سیلس 106ء میں جب ایفیسس کا گورنر تھا تو اس کا انتقال ہوا تھا۔ یہ عمارت رومن عہد میں اس شہر میں خوبصورت ترین عمارتوں میں سے ایک تھی۔ گائیڈ نے بتایا کہ سیلس کا سرکوفگس لائبریری کی مغربی دیوار کے نیچے ہے۔ اس کا اگواڑا 1970۔۔ 1980 کے درمیانی عرصہ میں دریافت ہوا۔ جب یہ عمارت دریافت ہوئی کتابیں دیواروں کے طاق میں محفوظ تھی۔ جن کو دیکھنے کے بعد اس پر تحقیق کرنے میں زیادہ وقت صرف نہیں ہوا کہ یہی سیلس لائبریری تھی جس کا حوالہ یونان کی قدیم روایت اور تحریروں میں ملتا ہے۔ اس لائبریری میں لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ اور مطالعہ روم سمیت لائبریری میں وہ تمام سہولتیں موجود تھیں جو آج کی جدید دنیا کی لائبریریوں میں ہیں۔
ایفیسس کے شہر میں اس وقت لائبریری کے علاوہ اور بھی بڑی بڑی مذہبی، تعلیمی ثقافتی اور رہائشی عمارتیں اور جدید سہولیات موجود تھیں۔ اسی نوعیت کی ایک اور اہم ترین عمارت آرٹیمس کا مندر ہے جو آج بھی دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک ہے۔ یہ مذہبی عبادت گاہ یونانی دیو مالائی دیوی آرٹیمس کے نام سے منسوب تھی۔ آرٹیمس کو دنیا سے مُسْتَغْنی، عریاں اپنے دوستوں کے ساتھ جنگلوں میں رہنا پسند تھا۔ اپالو کی جڑواں بہن تھی جو اہم یونانی دیوتا، فن تیر اندازی، موسیقی، فنون لطیفہ کا سرپرست اور بمثل آفتاب خوب صورت تھا۔ وہ تمام یونانی دیوتاوں میں سے عوام میں سب سے زیادہ مقبول اور پسندیدہ تھا۔ اسی طرح اس کی بہن آرٹیمس بھی بہادر اور خوب صورت تھی لیکن ایک آزادی پسند عورت، جسے شہری زندگی سے زیادہ جنگلات میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ عریاں گھومنا پسند تھا. قدیم یونان میں ان دونوں بہن بھائی کو مقدس دیوتا مانا جاتا تھا۔ اسی عقیدت میں اہل ایفیسس نے آرٹیمس مندر بار بار تعمیر کیا اور بار بار تباہ ہوا۔ ہمارے گائیڈ نے بتایا کہ یہ مندر اپنے وقت میں پہلا بڑا اور یونانی عقیدے کے مطابق مقدس دیوی آٹیمس کے نام کی وجہ سے پورے یونان میں مذہبی مرکز کے طور پر مانا جاتا تھا۔ آرٹیمس کے نام سے کئی مرتبہ اس شہر میں مندر تعمیر ہوتے اور تبا ہوتے رہے۔ پہلا مندر کب تعمیر ہوا یہ تو معلوم نہیں لیکن پہلا مندر کب تباہ ہوا اس کے بارے میں تاریخ بتاتی ہے کہ ساتویں صدی قبل مسیح میں اس علاقے میں شدید سیلابی طوفان آیا جس کی وجہ سے آرٹیمس مندر ریت میں دب گیا۔ ایک اور جگہ پڑھا کہ آٹھویں صدی قبل مسیح میں اس شہر میں آرٹیمس مندر موجود تھا۔ تاہم ساتھویں صدی میں سیلاب سے تباہ ہونے والے مندر کو عوامی کوشش سے 550 قبل مسیح میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ 353 قبل مسیح میں ایک یونانی شہری ہرموٹریاتس جو خود کی بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے چاہتا تھا، نے ایفیسس کی اس سب سے مقدس اور خوب صورت عمارت کو آگ لگا دی۔ اس وقت کی انتظامیہ آگ پر قابو نہ پا سکی جس ک باعث مندر آگ میں بھسم ہو گیا ۔ ہرموٹریاتس مندر جلانے سے مقبول عام تو بہت ہوا لیکن قبول عام نہ ہو سکا۔ مقدس عمارت کے جلانے کے جرم میں عوامی غیض و غضب نے اسے پھانسی دے دی۔ بتایا جاتا ہے کہ آرٹیمس مندر کی عمارت سفید سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی تھی، جو 350 فٹ لمبی اور 180 فٹ چوڑی تھی۔ اس عمارت میں سفید سنگ مرمر کے 127 ستون تھے۔ مندر کو نقش و نگار کر کے خوب صورت کیا گیا تھا۔ خاص طور پر تمام ستونوں کی خوب صورت نقاشی کی گئی تھی جو اس وقت غیر معمولی اور مہنگا کام تھا۔ مندر کے اندر آرٹیمس کا ایک مجسمہ بھی نصب کیا گیا تھا، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ کافی بلند اور بڑا تھا۔ مندر کے آباد اور برباد ہونے کی کہانی اس وقت تمام ہوئی جب 401ء میں مکمل طور پر تباہ ہوا تو پھر دوبارہ اس کے کھنڈرات اور ایک ستون کھڑا پایا گیا جو الف کی طرح اس اجڑی وادی بے آب و گیاہ میں کھڑا رب العالمین کی حمد و ثناء بیان کر رہا ہے جس کے حکم سے یہ بستی آباد ہوئی اور اسی کی حکمت سے تباہ و برباد ہو گئی۔ اس جگہ پر اب مندر کی صرف بنیادیں اور ایک ستون کھڑا ہے، جہاں کبھی قدیم بحیرہ روم کا سب سے بڑا مندر تھا، جہاں بحیرہ ایجیئین کی تہذیب و تمدن دفن ہے ۔
=======================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC