انسانی المیہ جنم نہ لے

ڈاکٹر توصیف احمد خان
================

نگراں حکومت نے پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغانستان کے باشندوں کو ملک سے نکالنے کا آپریشن شروع کردیا ہے۔

کئی ہزار افغان باشندوں کو افغانستان بھیجا جاچکا ہے۔ وزارت داخلہ نے عورتوں اور بچوں کو بائیو میٹرک سے مستثنیٰ قرار دیدیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ڈائریکٹریٹ میں 13 لاکھ افغان مہاجرین رجسٹرڈ ہیں اور 8 لاکھ 80 ہزار افراد کے پاس قانونی دستاویزات نہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ 10 لاکھ 73 ہزار افراد کے پاس کوئی قانونی دستاویز نہیں ہیں۔

حکومتی آپریشن کے تحت غیر رجسٹرڈ افراد کو ان کے وطن واپس بھیجا جا رہا ہے۔ افغان مہاجرین کی واپسی کے بارے میں ملک میں مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔
سندھ کے قوم پرست اور ترقی پسند جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ غیر قانونی تارکینِ وطن کو سندھ سے نکال دینا چاہیے مگر خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے پختون قوم پرست اور جمعیت علماء اسلام نے افغان مہاجرین کوافغانستان واپس بھیجنے کی مخالفت کی ہے۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے کمشنر نے پاکستان کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ اقوام متحدہ کا بیانیہ ہے کہ حکومت پاکستان کی اس پالیسی سے انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی مطالبہ کررہی ہیں کہ افغان مہاجرین کی بے دخلی انسانی حقوق کے چارٹر 3 کی خلاف ورزی ہے۔ انسانی حقوق کی جدوجہد کرنے والے رہنما فرحت اﷲ بابر، جبران ناصر، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد، پختون قومی موومنٹ کے رہنما محسن داوڑ اور دیگر افراد نے سپریم کورٹ میں ایک مشترکہ عرضداشت میں یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ نگراں حکومت قانونی طور پر پالیسی معاملے پر فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے۔

حیرت انگیز طور پر بلوچستان کے بلوچ قوم پرست جو ہر دفعہ ہونے والی مردم شماری میں افغان مہاجرین کے اندراج کے خلاف مہم چلاتے ہیں، خاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں۔ کراچی میں سول سوسائٹی کی تنظیموں نے یہ بیانیہ اختیارکیا ہے کہ افغان مہاجرین کی افغانستان منتقلی کا عمل بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

افغان مہاجرین کے مسئلے پرکسی حتمی رائے قائم کرنے سے قبل افغان مہاجرین کے پاکستان میں پناہ لینے کے پس منظر کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ 1978ء میں افغانستان میں ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوئی۔ افغانستان کی کمیونسٹ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے کابل پر قبضہ کیا اور سردار داؤد کا اقتدار ختم ہوا۔ نور محمد تراکئی نے افغان معاشرے میں بنیادی تبدیلیوں کے لیے اصلاحات کا آغازکیا۔ سب سے پہلے سود کا خاتمہ کیا گیا، عورتوں کی تجارت پر پابندی لگادی گئی۔

زرعی اصلاحات نافذ کی گئیں اور خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے سوویت یونین اور مشرقی یورپی ممالک میں داخلوں کے لیے پالیسی بنائی گئی۔ نور محمد تراکئی کے ان بنیادی اقدامات سے افغانستان کے معاشرے میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔

اس بات کے امکانات پیدا ہونے لگے کہ افغانستان ایشیا کا سوئٹزر لینڈ بن جائے گا اور افغان انقلاب کے اثرات خطے میں دیگر ممالک پر پڑیں گے۔ یہ صورتحال امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے اس خطے میں مفادات کے خلاف تھی۔

انھی خطرات کے باعث افغان پروجیکٹ کا آغازکیا گیا۔ ملک کے تیسرے آمر جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھی اس پروجیکٹ کے ایک اسٹیک ہولڈر بنگئے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک بھی اس پروجیکٹ کا حصہ بن گئے۔افغانستان کی مذہبی جماعتیں بھی اس پراجیکٹ کا حصہ بن گئیں۔اس پراجیکٹ کے تحت یہ پالیسی تیارکی گئی کہ افغانستان کے عوام میں پروپیگنڈہ کیا جائے کہ نئے حکمراں اسلام کے مخالف ہیں اور افغان حکومت کی خواتین کو برابرکی نمائندگی، وراثتی جائیداد میں خواتین کے حصے کو یقینی بنانے کے اقدامات کو منفی انداز میں بیان کیا گیا۔

پاکستان کی دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں اس پروجیکٹ کی حصے دار ہوئیں، یوں افغانستان میں جہاد کا آغاز ہو گیا اور افغانستان سے بڑے پیمانے پر ہجرت شروع ہوئی۔یوں افغانستان کی حکومت انتشارکا شکار ہوئی۔ افغانستان کے انقلاب کو بچانے کے لیے سوویت یونین کی فوج افغانستان میں داخل ہوگئی، یوںافغانستان میں لڑائی شدت اختیارکرگئی۔

اس وقت کے امریکا کے صدر ریگن نے افغان مجاہدین کے رہنماؤں کو واشنگٹن بلا کر کہا کہ ’’ آپ جہاد کر کے عظیم خدمات انجام دے رہے ہیں‘‘ افغان مہاجرین پاکستان کے علاوہ ایران میں بھی داخل ہوئے، مگر پاکستان اور ایران کی پالیسی میں بڑا فرق سامنے آیا۔

پاکستان میں افغان مہاجرین کو پورے ملک میں کاروبارکرنے، جائیدادیں خریدنے اور پاکستان کا شناختی کارڈ بنانے کے لیے سہولتیں فراہم کیں، یوں افغان مہاجرین پورے ملک میں پھیل گئے مگر ایران نے افغان مہاجرین کو کیمپوں میں رکھا اور جب کابل پر ڈاکٹر نجیب کی حکومت ختم ہوئی تو ان مہاجرین کو واپس بھیج دیا گیا۔

پاکستان میں افغان مہاجرین نے شادیاں کیں، جائیدادیں لیں اور ٹرانسپورٹ کے شعبے پر قبضہ کیا، افغان خیمہ بستیوں میں مقیم ہوئے، خیمہ بستیوں میں رہنے والے افغان جرائم میں ملوث ہوگئے، انھوں نے گینگ بنائے۔ افغان بچوں نے کراچی اور دیگر شہروں کے کوڑے کے کاروبار پر قبضہ کر لیا۔ طالبان نے جب کابل پر قبضہ کیا تو مزید کئی ہزار افغان باشندے پاکستان آئے، افغانستان میں امریکا اور نیٹو کی فوجوں سے منسلک ہزاروں افغان بھی پاکستان میں آ گئے۔

یہ لوگ یورپی ممالک کے ویزے کا انتظار کر رہے ہیں۔ سینئر صحافی سہیل سانگی کا کہنا ہے کہ سندھ میں افغان مہاجرین کی آمد سے ڈیموگرافی میں فرق پڑا۔ ان لوگوں نے مقامی افراد کے مفادات کو نقصان پہنچایا، سہیل سانگی کی اس دلیل میں خاصا وزن ہے۔

اس انسانی المیہ کی ذمے داری افغانستان کے مقتدر طبقے خصوصاً مذہبی طبقے پر بھی عائد ہوتی۔ پاکستان پر مہاجرین کا بوجھ لادنے کی ذمے داری‘ ضیاء الحق ‘ان کے قریبی ساتھی اور مذہبی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔

جنہوں نے لاکھوں ڈالر کما کر متوقع انسانی المیے پر توجہ نہیں دی۔ حکومت نے اب اپنی پالیسی میں نرمی کی ہے جو افغان باشندے امریکا اور یورپی ممالک کے ویزوں کے منتظر ہیں، انھیں فوری طور پر نہ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔

https://www.express.pk/story/2563335/268/
=================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC