یو ائی ٹی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جوہر علی کی پاکستان کی سرکردہ نیوز ویب سائٹ جیوے پاکستان ڈاٹ کام کے لیے محمد وحید جنگ سے خصوصی گفتگو
سوال ۔کیا تبصرہ کریں گے ملک میں انرجی کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور اس حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے بارے میں ؟ جواب ۔ دیکھیں پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت اج کیا ہے ؟ انرجی ۔ یہ ایک ایسا ایریا ہے جہاں حکومت نوکریاں دینے کا وعدہ کرتی ہے کیونکہ جب پروڈکٹیوٹی بڑھے گی تو بغیر بجلی کے یہ ممکن نہیں ۔ اور اپ کو اس ملک میں کلین انرجی اور چیپ انرجی چاہیے ۔ اگر کلین انرجی نہیں ہوگی تو ہیلتھ سیکٹر پر بوجھ پڑے گا لوگ بیمار ہوتے رہیں گے ۔انرجی کا شعبہ ایسا ہے جس میں ترقی سے ملک اگے بڑھے گا انرجی نہیں ہوگی تو ماس پروڈکشن بھی نہیں ہو سکے گی اور جب زیادہ پیداوار نہیں ہوگی تو اپ ایکسپورٹ نہیں کر سکیں گے جب اپ پیداوار بڑھائیں گے تو کوالٹی بھی بہتر رکھ سکیں گے اور دنیا اپ کی چیزیں خریدے گی ۔ ہمیں اپنے انرجی کے لوڈ سسٹم اور ڈسٹریبیوشن سسٹم کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے اگر ایک دفعہ ان مسائل کو حل کر لیں تو پھر ہمارے ملک میں کوئی کمی نہیں ہے قدرت نے ہمیں بہترین زمین دی ہے جہاں چار فصلیں ہیں چار موسم ہیں جب بجلی ہوگی تو ہماری زراعت کی پیداوار میں اضافہ ہوگا را مٹیریل بنے گا اور انڈسٹری چلے گی بچوں کی تعلیم بھی بجلی سے جڑی ہوئی ہے اگر رات کو بجلی ہوگی تو بچہ اچھی طرح سوئے گا اور صبح اٹھ کر سکول کالج اور یونیورسٹی میں بہتر انداز سے پڑھ سکے گا اگر رات کو نہیں سوئے گا تو صبح تعلیم بھی صحیح طرح حاصل نہیں کرے گا ہمارے ملک میں دو نوبل پرائز ونرز ہیں یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے لوگ ذہین ہیں اور قابل ہیں درحقیقت ہم نے انرجی کو کبھی نیشنل ایمرجنسی سمجھا ہی نہیں ۔
سوال ۔ اس وقت ملک میں انرجی کے جو حالات ہیں اس حوالے سے اپ معیشت کے تناظر میں کیا کہنا چاہیں گے ؟
جواب ۔ چیلنج اور مشکلات ضرور ہیں لیکن ان کا حل بھی موجود ہے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہی میجر ایشو ہے اس کو حل کیا جا سکتا ہے سوچنے کی بات ہے کہ لوگ ڈالرز کیوں اٹھا رہے ہیں اور کہاں سے پیسہ ا رہا ہے جو ڈالرز خرید رہے ہیں مشکل ساتھ ملین لوگ ٹیکس دے رہے ہیں باقی لوگ ٹیکس نہیں دیتے سال 2018 میں کراچی میں 10 ملین ریڑھی والے تھے تھیلوں اور ریڑی پر سبزی پھل اور دیگر چیزیں بیچنے والے ایک اخباری رپورٹ کے مطابق روزانہ 500 روپے کسی نہ کسی کو دیتے ہیں تاکہ وہ اپنا کام چلا سکیں اگر حکومت ان سے دو روپے ٹیکس لے کر ان کو اچھا ماحول تحفظ اور صاف ستھرا ایریا دے دے تو اپ خود حساب لگائیں کہ 200 روپے کے حساب سے 30 دن اور اسے 365 دنوں سے اور پھر 10 لاکھ سے ضرب دیں تو 730 ارب روپے سالانہ بنتے ہیں اتنا شاید اپ کا صوبے کا بجٹ نہیں ہے اور یہ صرف ایک شہر کی بات ہو رہی ہے باقی شہروں کو بھی ملا لیں تو سمجھ لیں ٹیکس کتنا ہو جائے گا میرے خیال میں بات نیت کی ہے اگر اپ اچھی نیت سے کوئی کام کریں گے تو رزلٹ بھی اچھا ائے گا امپورٹ ایکسپورٹ میں توازن لانے کی ضرورت ہے ویلیو ایڈیشن کریں گے تو لوگوں کو نوکریاں ملیں گی سویابین کی مثال لے لیں تین ارب کی امپورٹ ہے اسے یہاں اسانی سے اگایا جا سکتا ہے اسی طرح ائل سیڈ ہے اور پام ائل پورے سندھ میں لگ سکتا ہے ان چیزوں کے حوالے سے نیشنل ایمرجنسی ڈکلیئر کرنے کی ضرورت ہے ہماری بہترین کھجور ایکسپورٹ نہیں ہوتی بلکہ چھوارہ بن کر اس کی ویلیو کم ہو جاتی ہے اسے مختلف میڈیسن بنانے میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور ایکسپورٹ بڑھائی جا سکتی ہے ۔ہم کوئلے سے انرجی بنا رہے ہیں دنیا کوئلے سے بھاگ رہی ہے لیکن ہمیں اپنی ضروریات دیکھنی ہیں میرا خیال ہے بائیو ماس کے حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے اب تو ایک ڈرم میں بھی اسے بنایا جا سکتا ہے اسان طریقے موجود ہیں
پانی کو اوپر اٹھائیں اور نیچے پھینکیں اسی طرح بجلی بن سکتی ہے پھر وہی پانی اپ کی زراعت میں استعمال ہو سکتا ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد لیں تو ملک کو چلانا مشکل کام نہیں ہے ۔
سوال ۔یو ائی ٹی یونیورسٹی کے سولر پروجیکٹس کے حوالے سے کچھ بتائیے ؟
جواب ۔ پاور کا ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ہمارے بچے زیادہ پڑھائی کا رجحان نہیں رکھتے کیونکہ سب کو کمپیوٹر سائنس کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور وہاں پہ بچے 40 40 لاکھ روپے ماہانہ کما بھی رہے ہیں سولر رینیویبل انرجی کے پوٹینشل کو ابھی ایکسپوز نہیں کیا گیا اب تو عام پانی کے ذخائر سے بھی بجلی بن سکتی ہے بڑے ڈیم بنانے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔کمرشلائزیشن اصل مسئلہ ہے ماس پروڈکشن ہو سکتی ہے ابھی بچے جو پروجیکٹ بنا رہے ہیں ان میں امپروومنٹ کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے کمپیوٹر سائنس میں بڑی تعداد میں بچے جا رہے ہیں تو حکومت کو ان کی سیٹیں بڑھانی چاہیے میں نے تجویز پیش کی تھی کہ یونیورسٹی میں تین شفٹوں میں پڑھانا چاہیے 24 گھنٹے یونیورسٹی کو چلنا چاہیے اس کے لیے اپ نئی بلڈنگ بنانے سے بچ جائیں گے اور نئی فیکلٹی ہائر کر کے لوگوں کو نوکریاں بھی دے سکیں گے
سوال ۔اس حوالے سے سندھ ہائر ایجوکیشن اور وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے کیا رویہ اور اقدامات سامنے ائے ؟
جواب ۔ سندھ ہائر ایجوکیشن کے ڈاکٹر طارق رفیع اور اسلام اباد سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ڈاکٹر مختار احمد سے ایک کانفرنس میں ملاقات ہوئی وہاں پر یہ تجویز پیش کی تو انہوں نے اس کو سراہا اور کہا کہ اپ تین شفٹیں چلا سکتے ہیں گویا ان کا رد عمل مثبت ہے ۔بات بھی اسان اور سادہ ہے کہ نئی بلڈنگ نہیں بنانی پڑے گی تین شفٹوں میں یہی یونیورسٹی پڑھا سکتی ہے نئی یونیورسٹیاں بنانے کا خرچہ بچ جائے گا بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ اسکل سکھا کر مارکیٹ میں نکالیں تو ان کو فائدہ ہوگا ایک بدقسمتی یہ رہی ہے کہ قوم کو لکیر کا فقیر بنانے میں لگے رہے سنگاپور ہم سے بعد میں ازاد ہوا اور اگے نکل گیا ہمیں دوسرے ملکوں کے ماڈل سے سیکھنا چاہیے ۔
سوال ۔ کچھ اپنے کیریئر اور کامیابیوں کے حوالے سے بتائیے ؟
جواب ۔ پاکستان سے ماسٹر کرنے کے بعد میں امریکہ چلا گیا تھا وہاں دوبارہ ماسٹر کرایا گیا جسے ایم فل کہتے ہیں اور پھر پی ایچ ڈی کیا ۔پھر وہاں مجھے کام کرنے کا موقع ملا اور اس کے بعد پھر میں ٹورانٹو میں سات سال رہا ۔ پھر مجھے ایک کمپنی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور پاکستان میں ا کر خدمات انجام دینے کا موقع مل گیا مجھے خوشی ہوئی کہ میں اپنے ملک کے لیے کچھ کر سکوں اور پشاور میں رحمان میڈیکل انسٹیٹیوٹ نے مجھے بلایا اور مجھے موقع ملا کہ میں اپنے ملک کے لیے کچھ کر سکوں اور اج کل میں کراچی میں یونیورسٹی کے ساتھ منسلک ہوں سال 2022 میں یہاں یونیورسٹی کے ساتھ منسلک ہوا مجھے امریکہ کینیڈا جرمنی اور پاکستان کا تجربہ ہے ۔چین کے حوالے سے میں نے کافی سٹڈی کی ہے ۔ پاکستان میں فری لانسر سوسائٹی کے کلچر کو فروغ دینا چاہیے ۔
سوال ۔یونیورسٹی کے کتنے شعبے ہیں اور مستقبل کا کیا پلان ہے ؟
جواب ۔ بنیادی طور پر تین بڑے شعبوں میں تعلیم کا سلسلہ جاری ہے ان میں الیکٹریکل کا شعبہ ہے کمپیوٹرز سائنسز ہیں اور بزنس ایڈمنسٹریشن ہے اس کے علاوہ این ٹی سی جسے ریگولیٹ کرتی ہے وہ انجینئرنگ ٹیکنالوجی ہے اگے چل کر ہم بائیو انجینئرنگ میں کام کرنا چاہتے ہیں بل گیٹس بھی یہ کہتا ہے کہ اگر وہ آج 26 سال کا ہوتا تو بائیو انجینئرنگ میں انویسٹ کرتا ۔
============================
https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC