قصہ آرتھو اسکوپی اور ڈاکٹر اختر کی شفقت کا۔

ن والقلم۔۔۔مدثر قدیر

قصہ آرتھو اسکوپی اور ڈاکٹر اختر کی شفقت کا۔


گزشتہ سال ہونے والے حادثہ کی وجہ سے میرے دائیں گھٹنے میں درد اور سوجن ختم ہی نہیں ہوپارہی تھی،ڈاکٹرز سے کنسلٹ کرنے پر پتہ چلتا کہ سوزش ہے جو کہ یورک ایسڈ کی زیادتی کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے جس پر میں طویل عرصے تک درد اور یورک ایسڈ سے نجات کی گولی کھاتا رہا مگر افاقہ ہونے کی بجائے درد اور چلنے میں،قدم اٹھانے میں دشواری کا مسئلہ بڑھتا ہی جارہا تھا اور اب حال یہ تھاکہ دماغ گھٹنے کو حرکت دینے کا سگنل بھیجتا مگر گھٹنا اس پر اپنا ردعمل کچھ دیر بعد دیتا جس کی وجہ سے مجھے تھوڑا چلنے کے بعد سانس چڑھ جاتا مگر اسی طرح میں نے روز مرہ کے کام جاری رکھے جن میں گھر کی تین منزلوں کا چڑھنا بھی شامل تھا جبکہ کموڈ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے واش روم میں بھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا مگر زندگی اس تکلیف کے ساتھ چل رہی کبھی تو یوں ہوتا کہ کسی قسم کی درد محسوس نہیں ہوتی تھی پر جب شروع ہوتی تو رکنے کو نام نہیں لیتی تھی اسی صورتحال کے تناظر میں جون اور جولائی میں مجھے سخت اذیت سے دوچار ہونا پڑا جب میں دفتر یاں گھر میں ٹھیک انداز میں چلتا ہوا آیا اور آکر کرسی یا اسٹول پر بیٹھ گیا مگر جب اٹھنے کی کوشش کی تو یوں محسوس ہوا جیسے کسی اجنبی طاقت نے لاک لگا دیا ہے اور میں چلنے پھرنے سے قاصر ہو گیا ہوں مگر عمر کے حصے میں گھٹنے کے ری ایکشن کے خلاف درد کی کیفیت کو لے کر چلنا شروع کردیتا جو کچھ دیر بعد مندمل ہوجاتی اور میں کافی سکون محسوس کرتا مگر اب یہ مسئلہ روزانہ ہی درپیش ہونے لگا اور میں اپنے آپ کو اس کے آگے بے بس محسوس کرنے لگا کہ شاید یہ مفلوجیت کی طرف جارہاہے اسی دوران میری ملاقات سروسز ہسپتال کی آرتھوپیڈک یونٹ ون کے انچارج ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد اختر سے ہوئی جنہوں نے تفصیلی میرا مسئلہ سنا اور ہدایات دیں کہ پہلے ادویات ہی سے دیکھتے ہیں شاید فرق محسوس ہو مگر جب ادویات سے افاقہ نہ ہوا تو ایک روز میں سخت ٹینشن میں ان کے پاس پہنچا اور دوبارہ مدعا بیان کیا انھوں نے فوری ڈاکٹر عمر چیمہ سے کہا کہ ادھر ہی میرے کمرے میں مدثر کا تفصیلی معائنہ کرو اور دیکھو کیا مسئلہ ہے ڈاکٹر عمر چیمہ بھی شفقت سے پیش آئے اور مکمل تشخیص کرکے رپورٹ فوری ڈاکٹر اختر کو دی جس پر انھوں نے کہا فی الحال فوری طور پر ایم آئی آر کرائی جائے تاکہ پتہ چل سکے کیا مسئلہ درپیش ہے جس پر میں نے ایم آر آئی کرائی اور اس کو رپورٹ ڈاکٹر اختر کو بجھوائی جس کے جواب میں انھوں نے میسج کیا کہ آرتھو اسکوپی کا پراسیجر کرنا پڑے گا۔آرتھواسکوپی دراصل ایک عمل ہے جس میں کیمرہ جو ڑ میں ڈال کردیکھا جاتا ہے کہ کیا وہاں کیا مسئلہ ہے اسی دوران ڈاکٹر صاحب نے مجھے کچھ ٹیسٹ اور تجویز کردیے جن میں ایکو کارڈیوگرافی اور خون کے چند ٹیسٹ شامل تھے جو میں نے کرواکر رپورٹس ان کو دکھائیں تو انھوں نے کہا کہ ہفتے کو آپریشن کریں گے تاکہ اتوار کو تم آرام کرسکو اور سوموار کو واپس اپنی روٹین میں آجاؤ اس پر 26اگست کو آپریشن ہونا قرار
پایاجس پر مجھے ایک دن پہلے یعنی جمعہ کو وارڈ میں داخل ہونا تھا تاکہ فائل بن سکے اور ساتھ ہی انستھزیا کی فٹنس کی رپورٹ بھی مل جائے اور میں مقررہ وقت پر ہسپتال پہنچ گیا اور اپنا پروسیجر مکمل کرانے لگا جس میں انستھزیا فٹنس بھی شامل تھی جس کے بعد میں واپس دفتر آگیا اور اپنے کام میں مشغول ہوگیا اور دوسرے دن صبح 7بجکر 45منٹ پ آپریشن تھیٹر پہنچ گیا جہاں ڈاکٹر اختر میرا پہلے ہی سے انتظار کررہے تھے انھوں عملہ کو اپریشن تھیٹر تیار کرنے اور مجھے آپریشن ٹیبل پر پہنچانے کے احکامات دیے اور 8بجکر 30منٹ پر میری کمر پر انستھزیا کا انجکشن لگا دیا گیا اور کچھ دیر بعد مجھے ٹانگیں ہلانے کا کہا گیا مگر میں ہمت کے باوجود ایسا نہ کرسکا جس پر انھوں نے اپنا کام شروع کردیا اور 9بجے ڈاکٹر اختر اور ڈاکٹر عمر چیمہ نے آکر آپریشن کا آغاز کیا جو ایک گھنٹے تک چلا اور تمام پروسیجر نے اپنے بائیں جانب لگے مانیٹر میں دیکھا کہ کیسے جوڑ میں کیمرہ داخل کیا گیا اور اس کیمرے نے جوڑ کے اندر لگے جالے کو دیکھایا جس پر ڈاکٹر اختر نے بتایا کہ جتنا زیادہ جالا ہوگا اتنا ہی جوڑ گھس رہا ہوگا آخر کا ر انھیں ایک جگہ پر شہادت کی انگلی کے سائز جتنی ہڈی نظر آئی جس کو فوری طور پر گرائینڈر کی مدد سے کاٹا گیا اور سٹیل کی چھوٹی پیالی میں اس کے گرنے کی آواز مجھ تک پہنچی اس کے ساتھ ہی انھیں ایک اور چھوٹے سائز کی ہڈی نظر آئی جسے کاٹ کر نکالا گیا اور ڈاکٹر اختر نے مجھے دونوں ہڈیوں کو دکھایا جو انگلی کی پور سے بھی چھوٹی تھیں مگر کیمرے کی طاقت نے ان کو انگلی جتنا بڑا کرکے واضح کیا تھا اس کے بعد آپریشن ختم ہوا اور مجھے آپریشن ٹھیٹر سے باہر شفٹ کیاگیا جہاں مجھے سردی لگنی شروع ہوگئی اور میرے اوپر کمبل ڈال دیا گیا تاکہ جسم کاٹمپریچر نارمل ہوجائے آخر کار 10بجکر 15منٹ پر مجھے وارڈ میں شفٹ کردیا جہاں پر مجھے درد کا انجکشن اور طاقت کی ڈرپ لگائی گئی کچھ دیر بعد ڈاکٹر اختر تشریف لائے اور میری خیریت دریافت کی میں نے ان سے پانی پینے کے بارے میں پوچھا انھوں نے کہا کہ ابھی دو گھنٹے تک کچھ کھانا پینا نہیں جس کے بعد وہ چلے گئے اور میں بھی کچھ دیر کے لیے سوگیا اس سارے عمل کے دوران میری بیگم میرے ہمراہ تھیں ایک بجے کے بعد میری آنکھ کھلی تو ڈاکٹر وقار گل میرے سر پر کھڑے تھے انھوں نے حال پوچھا اتنی دیر میں ڈاکٹر عمر چیمہ بھی فری ہوکر راؤنڈ کے لیے آگئے اور میری طبیعت بارے دریافت کیا جس کے 2بجے ڈاکٹر اختر دوبارہ تشریف لائے اور انھوں نے میری حالت کو دیکھکر اسٹاف کو ہدایت دیں کہ ان کی میڈیسن روک دیں اور برنالہ نکال دیں ان کو ابھی کسی چیز کی ضرورت نہیں اور مجھ سے کہنے لگے کہ آپ رات کو گھر چلے جائیے گا اور انھوں نے میری ڈسچارج لکھ دیا اور کہنے لگے کہا پانی کے ایک دو گھونٹ پی لیں اگر الٹی نہیں آتی تو بعد میں جوس لے لیجئے گا اس کے بعد انھوں نے اجازت لی اور چلے گئے اسی دوران راجا سرفراز اور وقار باری پہنچ گئے اور میں راجا سرفراز سے سیب کے جو سکی فرمائش کی جو انھوں نے فوری پوری کردی بعد میں ڈاکٹر وقار گل چائے لے آئے اور ان سے گفتگو کو دور چل پڑا اس دوران 4بجے کے قریب میں نے محسوس کیا کہ میری ٹانگوں میں جان آرہی ہے تو میں اٹھنے کا فیصلہ کیا اور ڈاکٹر وقار گل نے مدد کی میں اٹھ کر واش روم گیا اور اپنے کپڑے تبدیل کیے اور واپس بیڈ پر آکر لیٹ گیا اس دوران ڈاکٹر وقار گل نے اجازت چاہی وہ نکلے ہی تھے کہ فراز عدیم آگئے اور ان سے گفتگو شروع ہوگئی کچھ دیر بعد مہران اجمل خان اور سجاد کاظمی تشریف لے آئے جن سے آپریشن سے متعلق گفتگو شروع ہوئی ان کے جانے کے بعد میں دوبارہ اٹھا اور چلنے کی کوشش کی تو بیگم صاحبہ نے سہارا دینے کی کوشش کی تو میں نے ان کو روک دیا کہ اب خود کوشش کرنے دو صبح سے لیٹ کر تھک گیا ہوں اسپورٹس مین ہوں جسم چلنے کی کوشش کررہا ہے اس کو چلنے دو۔7بجے کے قریب مجھے ڈسچارج کردیا گیا اور میں آہستہ
آہستہ بنا کسی سہارے دوسری منزل سے نیچے اترآیا اور باہر آکر رکشہ میں بیٹھ کر گھر کی راہ لی،گھر پہنچ کر درد اور انفیکشن کی دوا کھا کر میں سوگیا اور صبح اٹھ کر میں نے محسوس کیا کہ اب درد نہیں جس کے بعد میں اپنے گھر کی تیسری منزل تک چڑھ گیا اور کام میں مشغول ہوگیا کچھ دیر بعد ڈاکٹر اختر کی کال آئی اور انھوں نے طبیعت دریافت کی میں نے اپنا حال بیان کردیا اور ان سے پوچھا کہ میں نہا سکتا ہوں جس پر انھوں نے کہا کہ پٹی اتار کر نہا لیں اور دوبارہ ڈریسنگ کرلیجئے گا جس پر میں نے ان کا اور ان کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا جن کی شفقت کے باعث میرا پروسیجر مکمل ہوا اور آج ایک ہفتے بعد جب میں یہ تحریر لکھ رہاہوں مجھے چلنے پھرنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہورہی اور میں اپنے گھر کی تیسری منزل پر آسانی سے آجارہاہوں اور کل وحید کی خدمات حاصل کرکے ٹانکے بھی کھلواچکا ہوں اور میری دائیں ٹانگ کی سوجن بھی ختم ہوچکی ہے جو 8مہینے سے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی اور میں یورک ایسڈ اور درد کی گولیاں کھاکھا کر تنگ آچکا تھا۔
=================================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC