نگراں حکومت اور انسانی حقوق

ڈاکٹر توصیف احمد خان
====================
سیاسی کارکنوں اور سوشل ایکٹیوسٹ کی سڑک بند کرنے اور قابلِ اعتراض تقاریر اور ریاست سے بغاوت جیسے الزامات پر گرفتاریاں جمہوری روایات کو پسِ پشت ڈالنے کے مترادف ہیں۔ ان اقدامات سے انتخابات کے لیے سازگار فضاء قائم کرنے کے دعوے باطل ہو رہے ہیں۔

جلسوں کا انعقاد اور سیاسی معاملات پر رائے دینے کا حق 1973ء کے آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے باب کا بنیادی حصہ ہے۔ بیوروکریسی کے یہ امتناعی اقدامات نگراں حکومت کی ساکھ کو متاثر کر رہے ہیں۔

نگراں حکومت کے وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کی زندگی کا ایک بڑا حصہ ٹریڈ یونین کو منظم کرنے، کارل مارکس کے نظریات کی ترویج اور اظہارِ رائے کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے میں گزرا ہے۔
پنجاب کے چھوٹے شہر تونسہ شریف کے چھ سالہ آکاش نقوی کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے۔ آکاش اس وڈیو میں بتارہے ہیں کہ پولیس ان کے والد کی تلاش میں گھر پر آئی، والد گھر پر موجود نہیں تھے۔

پولیس نے آکاش کا کمپیوٹر توڑ دیا اور انھیں ساری رات تھانہ میں رکھا۔ لاہور میں تحریک انصاف کے دو بزرگ رہنماؤں کی تصویر اخبارات میں شایع ہوئی۔ ان میں ایک رہنما ویل چیئر پر تھے اور دونوں رہنماؤں کو پولیس نے ہتھکڑیاں لگائی تھیں۔

برطانوی دور میں سیاسی کارکنوں کو مختلف نوعیت کے الزامات لگا کر جیلوں میں مقید رکھنے کی روایت شروع ہوئی۔ جب انگریز حکومت نے سب سے پہلے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر پر بغاوت کے قانون کے تحت مقدمہ چلایا تھا، پھر کانگریس ، جمعیت علمائے ہند اور کمیونسٹ پارٹی کی انگریز مخالف تحریکوں کو کچلنے کے لیے بغاوت کی دفعات کے ساتھ ساتھ امن و امان کو خراب کرنے، غیر قانونی اجتماع کرنے، لاؤڈ اسپیکر کا استعمال اور غیر قانونی طور پر پمفلٹ شایع کرنے کے الزامات لگائے جاتے تھے۔

1947ء میں ہندوستان کا بٹوارہ ہوا۔ آزادی کے قانون کے تحت جو قوانین برطانوی ہند حکومت میں نافذ تھے وہی قوانین نئی ریاست میں بھی نافذ ہوئے۔ اس قانون کے تحت گورنر جنرل کو امتناعی اقدامات اٹھانے کے اختیارات مارچ 1948ء تک کے لیے تفویض کیے گئے تھے مگر ان اختیارات میں توسیع کی گئی۔

انگریز حکومت آزادی کی تحریک میں شریک سیاسی کارکنوں کو سیکیورٹی ایکٹ اور سیفٹی ایکٹ کے تحت نظربند کرتی تھی۔ آزادی کے بعد برسر اقتدار حکومتوں نے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے ان قوانین کا بے دریغ استعمال کیا۔ ایوب خان کے دور میں سیاسی سرگرمیوں پر تقریباً پابندی رہی۔ ایوب خان حکومت نے مخالفین کو اسی طرح کے الزامات کے تحت نظر بند کرنے کا طریقہ کار اختیار کیا۔

ڈپٹی کمشنر کو دفعہ 144 اور امن او امان کے قانون کے تحت بے تحاشا اختیارات حاصل ہوئے۔ جنرل ایوب خان نے 1965ء کی بھارت سے جنگ کے وقت ایمرجنسی نافذ کی اور ڈیفنس پاکستان رولز DPR کے تحت سیاسی رہنماؤں کی زندگیاں تنگ کی گئیں۔ جنرل یحییٰ خان نے ڈی پی آر کے ساتھ مارشل لاء ریگولیشنز کے ذریعہ سیاسی اجتماعات پر پابندی لگا دی۔ مشرقی پاکستان کے عوام کی نفرت کی ایک وجہ برسر اقتدار حکومتوں کے یہ امتناعی قوانین تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے ایمرجنسی برقرار رکھی اور سیاسی مخالفین کے خلاف ڈی پی آرکا بیہمانہ استعمال کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو حکومت نے سیاسی کارکنوں کو گرفتار کرنے کے لیے فوجداری قوانین کے دائرہ میں آنے والی دفعات کو استعمال کیا۔

مسلم لیگ کے رہنما چوہدری ظہور کو بھینس چوری کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے ایمرجنسی تو ختم کی مگر مارشل لاء ریگولیشنز کے ذریعہ سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کرنا ، شہر وار صوبہ بدر کرنا عام سی بات بن گئی۔ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ شہر باز مزاری کو پہلے سندھ حکومت نے صوبہ بدرکیا۔

باقی صوبوں کی حکومتوں نے انھیں اپنے صوبہ سے نکل جانے کے احکامات جاری کیے تو مزاری صاحب نے سپریم کورٹ سے پوچھا تھا کہ وہ کہاں جائیں ؟ 80ء کی دہائی کے آخری عشرہ میں محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے، وہ پیر پگارا کی دریافت تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے انھیں وزیر اعظم نامزد کیا تھا، مگر محمد خان جونیجو نے سیاسی سرگرمیوں پر تمام قسم کی پابندیاں ختم کردی تھیں۔

سیاسی جلسے کرنے، جلوس نکالنے، پمفلٹ شایع کرنے اور لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کرنے پر عائد پابندیاں ختم کردی گئیں۔ یوں گزشتہ صدی کا آخری عشرہ اور اس صدی کے پہلے عشرہ میں برسر اقتدار حکومتوں نے سیاسی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے امتناعی قوانین استعمال نہیں کیے۔

بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد وہاں بعض سیاسی گروہوں کی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کی گئی۔ اس صدی میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندیوں کے خاتمہ کے بعد بھی تحریک انصاف نے کئی بار اسلام آباد میں دھرنے دیے۔

سپریم کورٹ کے متوقع چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس میں اس بارے میں تفصیلی فیصلہ دیا۔ نگراں حکومت کو قائم ہوئے ابھی ہفتہ بھی نہیں ہوا۔ وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنے عہدہ کا حلف اٹھانے کے بعد یہ واضح کیا کہ حکومت شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کی یہ واضح رائے ہے کہ شفاف انتخابات محض پولنگ کے عملہ کی فراہمی اور انتخابی نتائج کے اعلانات تک محدود نہیں ہوتے بلکہ شفاف انتخابات کے لیے سیاسی سرگرمیاں آزادانہ طور پر منعقد ہونا ضروری ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں سے مراد سیاسی جلسے اور جلوس وغیرہ ہیں۔ پہلے زمانہ میں سیاسی جلسوں میں پمفلٹ تقسیم ہوتے تھے۔

ان پمفلٹ میں سیاسی جماعتوں کا منشور ہوتا تھا اور مخالف جماعتوں کے منشور کی غلطیاں اور خامیاں بیان کی جاتی تھیں۔ اب یہ سارا کام واٹس ایپ، فیس بک ، ٹیوٹر، ایس ایم ایس اور انسٹا گرام جیسے پلیٹ فارمز پر منتقل ہوگئی ہیں، مگر ان جدید پلیٹ فارم کے استعمال کے ساتھ جلسے جلوسوں کی آزادی ضروری ہے اور نگراں حکومت کے وزراء کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ سیاسی جلسہ میں مقررین کے خیالات نگراں حکومت کے بیانیہ سے مختلف ہوسکتے ہیں۔

ملک گزشتہ کئی برسوں سے شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ بجلی اور گیس کے نرخ مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ پٹرول کی قیمت ہر پندرہ دن بعد بڑھ جاتی ہے۔ پہلے پی ٹی آئی کی حکومت اور پھر اتحادی حکومت مہنگائی کے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ چکی ہیں۔

ایک اقتصادی ماہر کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں دو سو فیصد اضافہ ہوا ہے جس سے درمیانہ طبقہ براہِ راست متاثر ہوتا ہے، طالبان کی دہشت گردی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس دہشت گردی کا محور وزیرستان ہے۔ حکومت کو درگزر سے کام لینا چاہیے۔

https://www.express.pk/story/2528784/268/
==============================================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC