میرے بھائی ذوالفقار نے ہماری دادی کا امام ضامن مجھ پر باندھا اور یہ تقریب میرے دادا کی لائبری میں منعقد کی گئی،

میرے بھائی ذوالفقار نے ہماری دادی کا امام ضامن مجھ پر باندھا اور یہ تقریب میرے دادا کی لائبری میں منعقد کی گئی، جو کہ زمین پر میری سب سے پیاری جگہ ہے۔ ہمارے پیچھے میری خالہ، چچا اور والد کے بچپن کی تصاویر اور پیپلز پارٹی کا اصلی جھنڈا خود میرے دادا نے لگایا تھا۔ /

فاطمہ بھٹو ۔۔۔۔۔

ہم کوئی دوسری تقریبات نہیں کریں گے، میں شاندار شادیوں میں شامل نہیں ہوں لیکن خاص طور پر اب یہ بہت نامناسب محسوس ہوتا ہے جس کے پیش نظر بہت سے لوگ جدوجہد کر رہے ہیں۔ میں نے اپنے پیارے والد کو بہت یاد کیا، لیکن وہ ہمارے ساتھ تھے۔ میں نے اسے اپنے دل میں محسوس کیا اور ہمارے درمیان موجود ہر شخص پاپا سے بہت پیار کرتے ہیں۔ براہ کرم ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور آپ کی تمام نیک خواہشات کا شکریہ 💙 فاطمہ بھٹو کا ٹوئٹ ۔۔۔۔۔

فاطمہ بھٹو نے اپنے ٹوئٹر اکائونٹ اپنی تصاویر شیئر کر دی ۔۔۔

=================================================
سابق وزیراعظم و پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی و میر مرتضیٰ بھٹو کی بیٹی فاطمہ بھٹو رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔

میر مرتضیٰ بھٹو کے بیٹے ذوالفقارعلی بھٹو جونیئر نے ٹوئٹ میں بتایا کہ فاطمہ بھٹو اور گراہم جبران کا نکاح ہوگیا، نکاح کی مختصرتقریب 70 کلفٹن کے گھر میں اپنے دادا کی لائبریری میں کی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے تھے موجودہ حالات میں تقریب زیادہ پرتعیش اندازمیں ہو، لوگوں سے فاطمہ اور گراہم جبران کیلئے نیک تمناؤں اور دعاؤں کے طلبگار ہیں۔
=================
’ہوئے تم اجنبی‘ میں واقعی سعدیہ خان سے محبت ہو گئی تھی: میکال

عیدالفطر پر اداکار میکال ذوالفقار کی دو فلمیں ’ہوئے تم اجنبی‘ اور ’منی بیک گارنٹی‘ کی نمائش ہو رہی ہے۔

یوں یہ عید میکال کے لیے دوہری خوشی کا باعث ہے۔ ’منی بیک گارنٹی‘ ایک کامیڈی تھرلر ہے جبکہ ’ہوئے تم اجنبی‘ 1971 کے سقوط ڈھاکہ کے تناظر میں بنی ایک رومانوی داستان۔

اس بار میکال کراچی آئے تو ہم نے ان کی قیام گاہ پر دھاوا بول دیا اور کہا ’انٹرویو لیے بغیر تو ہم ٹلنے والے نہیں، چاہے آپ تھکن کا جتنا مرضی کہیں۔‘

ہمارا اصرار دیکھ کر میکال ٹال نہ سکے اور انٹرویو دینے کے لیے تیار ہو گئے۔

میکال سے سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ وہ دو فلموں کی ایک ساتھ ریلیز کی وجہ سے الجھن کا شکار تو نہیں؟

اس پر انہوں نے کہا کہ ’مجھے جب یہ معلوم ہوا تو میں خود الجھن کا شکار ہوگیا تھا، بلکہ میں نے کامران شاہد سے کہا بھی کہ آپ اپنی فلم عید الاضحٰی پر لے آئیں۔

’لیکن اب میں سوچتا ہوں کہ بطور اداکار یہ میرا فائدہ ہے کہ میری تشہیر ہو رہی ہے اور میری دو فلمیں آئی ہیں۔‘

میکال نے فلم ’منی بیک گارنٹی‘ میں ایک پشتون کا کردار کیا ہے۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پشتو لہجے میں اردو بولنے کے لیے کافی محنت کی، اس لیے وہ خود کو بڑے پردے پر دیکھنے کے لیے مشتاق ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ اس کردار میں وہ پشتو نہیں بول رہے بلکہ صرف لہجہ اپنایا ہے۔

فلم کے نام پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا تو فلم دیکھ کر ہی معلوم ہو گا۔

’فلم میں ایکشن زیادہ نہیں۔ ہم نے کوئی فائرنگ نہیں کی بلکہ ہم پر فائر ہوئے ہیں۔ تھوڑا سا ایکشن ہے، جیسے لڑائی جھگڑا، بھاگنا دوڑنا وغیرہ لیکن زیادہ نہیں۔‘

منی بیک گارنٹی دینے کے بارے میں انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’فیصل قریشی نے یہ نام رکھ کر مصیبت میں ڈال دیا ہے۔

’فلم کا نام ان کا مرکزی خیال ہے، یہ فلم دیکھ کر ہی معلوم ہو گا کہ یہ نام کیوں رکھا گیا۔‘

میکال کی والدہ انگریز ہیں ان کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ خود میکال کا بچپن برطانیہ میں گزرا۔

وہ آج بھی لندن اور لاہور کو اپنا گھر کہتے ہیں کیونکہ ان کے والد کا تعلق لاہور سے تھا۔

انہوں نے بتایا کہ بچپن میں وہ پاکستانی برادری اور انگریز برادری دونوں کے ساتھ آرام سے خود کو شامل کر لیتے تھے۔

برطانیہ میں فلم کی نمائش کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ’بہت پُرامید ہیں کیونکہ وہاں پاکستانی برادری کافی ہے اور وہ پاکستانی فلم کو پسند بھی کرتے ہیں۔‘

اپنی دوسری فلم ’ہوئے تم اجنبی‘ کے بارے میں میکال کا کہنا تھا کہ ’یہ 1971 کے المیہ مشرقی پاکستان کے تناظر میں بنی ہے۔‘

1971 کی کہانی ایک ایسے لڑکے کی ہے جو ڈھاکہ یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے، اور اسی دوران مشرقی پاکستان میں یہ سارا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ کردار میکال کے مطابق ہیرو والا کردار ہے۔

’فلم میں 11 گانے ہیں جس میں عابدہ پروین، نوید ناشاد، ساحر علی بگا اور علی ظفر جیسے گلوکاروں نے گانے گائے اور یہی اس فلم کا سب سے مزیدار پہلو ہے کیونکہ سارے کے سارے گانے بہت اچھے ہیں۔‘

میکال کے مطابق ’فلم میں بہت زیادہ رومانس ہے اور ٹریلر میں جتنا نظر آ رہا ہے اس سے کہیں زیادہ ہے۔

’کئی سین ایسے تھے کہ جس میں سعدیہ سے واقعی محبت ہو گئی تھی اور مجھے اداکاری کرنا ہی نہیں پڑی۔‘

میکال نے بتایا کہ ’سعدیہ خان اتنی خوبصورت لگ رہی تھیں اور اتنا زبردست سماں تھا کہ بس میں انہیں ہی دیکھتا رہا کہ واہ واہ واہ۔

انہوں نے کہا کہ انہیں منی بیک گارنٹی سے انہیں زیادہ امید ہے کیونکہ وہ پوری دنیا میں ریلیز ہو رہی ہے، لیکن پاکستان میں دونوں فلموں میں مقابلہ ہے۔
================================
مارننگ شوکی میزبانی کرکےفالتو لوگوں کی تعریف نہیں کرسکتی، اداکارہ ایمان علی
سوشل میڈیا سے لوگ کی بدتمیزی کی وجہ سے چڑ ہے، سماء کے پروگرام “حدکردی” میں گفتگو

اداکارہ ایمان علی.

پاکستان کی معروف ماڈل اور اداکارہ ایمان علی نے کہا ہے کہ مارننگ شو کی ہوسٹنگ نہیں کرنا چاہتی، فالتو لوگوں کی تعریف نہیں کرسکتی، مارننگ شو میں فالتو لوگوں کی تعریف کرنی پڑتی ہے۔

سما ء کے پروگرام“ حد کردی“ میں میزبان مومن ثاقب کے سوالوں کا مزاح کے انداز میں جواب دیتے ہوئے اداکارہ ایمان علی نے کہا کہ میں ماضی میں شیف بننا چاہتی تھی اور مجھےکھانا بنانے کا بہت شوق ہے، میں نئی ڈیشز بناتی ہوں ، میں نے گیارہ سال کی عمر میں پہلی ڈیش بلوچی کڑاہی بنائی تھی ، جو مجھے پاپا نے بنانی سکھائی تھی۔

میزبان کے ایک سوال پر اداکارہ کا کہنا تھا کہ میں پاکستان چھوڑ کر جانے کا سوچ رہی ہوں، میرے شوہر کینیڈین ہیں ، تو جہاں ”میرے وہ، وہاں میں“۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا سے مجھے اس لئے چڑ ہے کیوں کہ وہاں پر لوگ بدتمیزی کرتے ہیں، اور اپنی تصویریں بھی خود بنانی پڑتی ہیں،اور اس طرح سٹار والی فیلنگ بھی نہیں آتی، کم ازکم کوئی کیمرہ لے کر پیچھے تو آئے۔

ایمان علی کا کہنا تھامیرے انٹرویو ز کی فضول باتیں وائر ہوجاتی ہیں اور اہم باتیں رہ جاتی ہیں۔
============

بہنوں کو شادی کے موقع پر گھوڑے پر کیوں بٹھایا‘: بھائی کو 50 ہزار جرمانے اور سوشل بائیکاٹ کی ’سزا‘

مضمون کی تفصیل
مصنف,موہر سنگھ مینا
بی بی سی

انڈیا کی ریاست راجستھان میں رواج ہے کہ لڑکیاں اپنی شادی کے دن گھوڑے پر بیٹھتی ہیں۔ اس سے یہ پیغام دیا جانا مطلوب ہوتا ہے کہ بیٹے اور بیٹیاں برابر ہیں۔

لیکن جب گھوڑوں پر بیٹھی دلت لڑکیوں کی بات آتی ہے تو انڈیا کے سماج کے اندر سے ہی آوازیں اٹھنے لگتی ہیں۔

ایسا ہی کچھ انڈیا کے ضلع بارمیر کے گاؤں میلی میں ہوا جب ’بندولی‘ کی رسم کے لیے دو دلت بہنوں کو گھوڑے پر بٹھایا گیا لیکن جیسے ہی دونوں بہنوں کے ہاتھوں پر لگی مہندی کا رنگ تھوڑا سا پھیکا پڑا، ایک تنازع کھڑا ہو گیا۔

انڈیا میں بندولی نامی تقریب شادی سے ایک دن پہلے ادا کی جاتی ہے جس میں لڑکیاں کل دیوی کی پوجا کرنے جاتی ہیں۔

میلی گاؤں کی تقریباً 4000 کی آبادی میں 300 خاندان دلت میگھوال برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس گاؤں میں پہلی بار لڑکیوں کو شادی سے پہلے گھوڑے پر بٹھایا گیا تھا اور یہ رواج شروع کرنے والا ایک دلت خاندان تھا۔

انڈیا
،تصویر کا ذریعہMOHAR SINGH MEENA
،تصویر کا کیپشن
شنکر رام میگھوال: ’مجھے وہاں بلایا گیا اور بہنوں کو گھوڑے پر بٹھانے پر 50 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا۔ رقم ادا نہ کرنے پر سماجی بائیکاٹ کیا گیا‘

گھوڑے پر بیٹھنے کی سزا
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شنکر رام میگھوال نے بتایا کہ اُن کی بہنوں کی شادی کے دو ماہ بعد میگھوال برادری کے 12 گاؤں کے سرپنچوں کی پنچایت ہوئی۔

’مجھے وہاں بلایا گیا اور بہنوں کو گھوڑے پر بٹھانے پر 50 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا۔ رقم ادا نہ کرنے پر سماجی بائیکاٹ کیا گیا۔‘

پنچایت کے اس فیصلے نے ان کے گاؤں میں تناؤ کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ شنکر رام میگھوال کے گھر میں انڈیا کے دلت رہنما بھیم راؤ امبیڈکر کی تصویر نمایاں تھی۔

شنکر نے بتایا کہ انھوں نے پنچایت کے فیصلے کے خلاف تھانے میں شکایت درج کروائی اور ایس ڈی ایم آفس سے بھی رابطہ کیا گیا ہے۔

تھانے کے انچارج ناتھو سنگھ چرن بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’شنکر رام نے تحریری شکایت دی ہے، تاہم اس نے کوئی ویڈیو، آڈیو، تصویر یا تحریری ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔ ہم نے شکایت کنندہ کا بیان لے لیا ہے اور تحقیقات کر رہے ہیں۔‘

دوسری جانب مقامی ایس ڈی ایم دنیش بشنوئی نے بھی بی بی سی کو بتایا کہ ’پولیس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔‘

شنکر میگھوال نے اپنی تحریری شکایت میں لکھا ہے کہ ’بہنوں کو گھوڑے پر بٹھایا گیا، اس لیے میرے خاندان کو سوسائٹی سے نکال دیا گیا اور 50 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ اسی دوران سرپنچوں نے سوسائٹی کو دھمکی دی کہ جو کوئی بات کرے گا یا ہمارے پاس آئے گا، خاندان کے ساتھ اس کو بھی سزا دی جائے گی۔‘

پنچایت نے سزا کیوں دی؟
بی بی سی نے پنچایت سے وابستہ لوگوں سے بات کرنے کی کوشش کی۔ پنچایت میں موجود پوکر میگھوال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جرمانہ پنچایت نے لگایا لیکن شنکر نے جرمانہ ادا کرنے سے انکار کر دیا۔‘

شنکر لال میگھوال نے پولیس کو اپنی شکایت میں پنچ موہن لال اور پنچ بھانجارام کے نام بھی لکھے ہیں۔

بی بی سی نے پنچ موہن لال سے جرمانے کے بارے میں پوچھا۔

موہن لال کہتے ہیں کہ ’پنچایت میں جرمانہ نہیں لگایا گیا۔ ہمارا آپس میں کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ پولیس سے شکایت کیوں کی گئی۔‘

پنچ بھانجارام سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ تاہم ان کے بھتیجے رمیش میگھوال نے کہا کہ وہ اس معاملے پر بزرگوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

رمیش میگھوال دو سال سے بھیم آرمی کے مقامی صدر ہیں اور اب سرکاری نوکری کی تیاری کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں پنچایت میں نہیں تھا، لیکن مجھے معلومات ملی ہیں۔ میں جودھ پور میں ہوں اور فون پر لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ سماجی بائیکاٹ غلط ہے۔‘

انڈیا
،تصویر کا ذریعہSHANKAR RAM MEGHWAL
’پہلی بار ایک لڑکی گھوڑے پر بیٹھی‘
دیپو اور لکشمی کی شادی اسی سال 6 فروری کو ہوئی تھی جب ان کو گھوڑے پر لے جایا گیا۔ دیپو کا سسرال جودھ پور میں اور لکشمی کا سسرال پالی ضلع میں ہیں۔

جودھ پور میں ہم سے بات کرتے ہوئے دیپو کا کہنا تھا کہ ’ہمیں گھوڑے پر بیٹھ کر بہت خوشی ہوئی، گاؤں میں پہلی بار ہوا کہ لڑکیوں کو گھوڑے پر بٹھایا گیا۔‘

یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ لیکن پھر اچانک اُن کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔

انھوں نے کہا ’میں نے بڑی بہن لکشمی سے فون پر بات کی تھی۔ وہ بھی بہت دکھی ہیں۔ ہم نے کوئی جرم نہیں کیا، لیکن پھر بھی جرمانہ ہوا۔‘

پھر وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں ’اس دوران سب اکٹھے تھے۔ سب خوش تھے اور گاؤں والوں نے اسے بہت پسند کیا۔ لیکن مجھے نہیں معلوم کہ دو ماہ بعد اُن کے ساتھ کیا ہوا۔‘

گھوڑے پر بیٹھنے کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے دیپو اعتماد سے کہتی ہیں کہ ’سسرال والوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک اچھا قدم تھا۔ ہم کب تک پسماندہ سوچ کے ساتھ زندہ رہیں گے؟‘

دیپو کے شوہر ڈاکٹر یشپال ڈینٹسٹ ہیں اور جودھ پور میں اپنا کلینک چلاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’معاشرے کو اچھائی کا پیغام دیا گیا تھا یا برا، اب سمجھ نہیں آتا۔‘

انڈیا
،تصویر کا ذریعہSHANKAR RAM MEGHWAL
،تصویر کا کیپشن
بہنوں کی گھوڑے پر لی گئی تصویر

’خاندان پریشان ہے‘
شنکر کے والد کا انتقال 2010 میں ہوا تھا۔ اپنے والد کی جگہ شنکر رام کو راجستھان کے محکمہ تعلیم میں نوکری مل گئی۔

32 سالہ شنکر رام میگھوال نے پنچایت کے فیصلے کو چیلنج تو کیا ہے لیکن وہ پریشان ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میری بہنیں اور بھائی ہیں۔ میں انھیں اپنے والد کی کمی محسوس نہیں ہونے دینا چاہتا۔‘

دیپو کی بھابھی ریکھا میگھوال کہتی ہیں کہ ’اب ہمیں کام یا شادی کے لیے دعوت نامے نہیں مل رہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’آج کل بہت آزادی ہے لیکن ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عورتوں کو آزادی نہیں ہے۔ وہ دونوں بہنیں گھوڑے پر بیٹھ کر بہت خوش تھیں۔‘

انڈیا
،تصویر کا ذریعہSHANKAR RAM MEGHWAL
،تصویر کا کیپشن
متاثرہ خاندان

بندولی کیا ہے؟
راجستھان ہائی کورٹ کے وکیل ماہر ستیش کمار کا کہنا ہے کہ دوسری ریاستوں کے مقابلے میں راجستھان میں بندولی کی روایت کا رواج زیادہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’گھوڑا ہمیشہ سے فخر، بہادری اور جاگیرداری کی علامت رہا ہے۔‘

دہلی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر جتیندر مینا کہتے ہیں کہ ’کئی جگہوں پر بندولی پیدل اور گھوڑے، گاڑی یا اونٹ پر بھی کی جاتی ہے۔‘

’شادی سے ایک دن پہلے کل دیوی یا کل دیوتا کی پوجا کی جاتی ہے۔ خواتین گیت گاتی ہوئی چلتی ہیں۔ لڑکیاں بھی گھوڑوں پر بیٹھ کر بندولی کھینچنا شروع کر دیتی ہیں۔ یہ فخر اور وقار کی علامت ہے۔‘

انڈیا
،تصویر کا ذریعہSHANKAR RAM MEGHWAL
’دلت خواتین کے لیے گھوڑے پر بیٹھنا ضروری ہے‘
دلت مفکر بھنور میگھونشی کہتے ہیں کہ ’لڑکیوں کا گھوڑے پر سوار ہونا ایک بہت ہی مثبت تبدیلی ہے لیکن خواتین کو معاشرے میں تسلیم نہیں کیا جاتا۔‘

ڈاکٹر جتیندر مینا کہتے ہیں کہ ’پہلے شادیوں میں صرف لڑکے ہی گھوڑوں پر بیٹھتے تھے، لیکن پچھلے کئی برسوں سے لڑکیوں نے بھی اس رواج میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’پدرانہ سوچ نہیں چاہتی کہ عورتیں برابر کے طور پر کھڑی ہوں۔‘

انڈیا
،تصویر کا ذریعہSHANKAR RAM MEGHWAL
ذات پنچایت کیا ہے؟
سماجی کارکن کویتا سریواستو کہتی ہیں کہ ’راجستھان میں ہم انھیں ذات پنچایت کہتے ہیں۔ جب بھی اعلیٰ ذات کے لوگوں کو کسی قسم کا چیلنج آتا ہے تو وہ ان پنچایتوں کے ذریعے حکم جاری کرتے ہیں۔ یہ بالکل غیر آئینی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’جو لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اور اس طرح کے احکامات جاری کرتے ہیں، ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔‘

’سیاسی جماعتیں انھیں نہیں روکتیں کیونکہ یہ ان کے ووٹ بینک کی سیاست کا حصہ ہیں۔‘

تاہم میلی کا معاملہ پولس انتظامیہ تک پہنچنے کے بعد دلت میگھوال سماج کی پنچایت بیک فٹ پر آگئی ہے۔

شنکر رام میگھوال کہتے ہیں کہ ’پنچایت نے مجھے دوبارہ بلایا ہے اور سمجھوتہ کرنے کا کہا ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ وہ اسٹامپ پیپر پر اپنی غلطی تسلیم کریں۔‘
==================