نیا جزیرہ

======

ہم انیسویں اور بیسویں صدی کو جوڑنے والی وہ مخلوق ہیں جو نہ ادھر کے رہے اور نہ ادھر کے ۔۔۔نہ ہم اصل سے جُڑ پا رہے ہیں اور نہ ہی نقل کو برداشت کر پا رہے ہیں ۔۔۔یوں سمجھ لیں کہ نہ سل بٹہ استعمال کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی چائنا کی دی ہوئی آسانیاں ہمیں بھاتی ہیں ۔۔۔ہمیں مٹّی کے برتن بھی اچھے لگتے ہیں اور مٹکے کے پانی کا ذائقہ بھی ہمیں یاد ہے۔۔۔نہ ہمیں پچھلی باتوں پر صبر آتا ہے اور نہ ہی موجودہ آسانیوں پر شکر کرنے کی عادت ہے ۔۔۔اور اِسی مخمصے میں ہم سمجھ نہیں پا رہے ہیں اپنی موجودہ نسل کو کیسے پروان چھڑائیں دراصل ہم خود ہی جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں۔۔۔ اور میرے نزدیک حل صرف اسی میں ہےکہ ہمیں صبر اور شکر کرنا آ جائے۔۔۔جڑ سے جُڑے رہیں لیکن شاخوں کو نظر انداز نہ کریں۔۔۔جیسا کہ بقول اقبال ۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

ہم نے جو زندگی گذاری ہمارے بچے اس سے لا علم ہیں۔۔۔ہم انہیں وہ آگاہی دے بھی نہیں سکتے۔۔۔لیکن مایوس نہ ہوں۔۔۔ہمارا دین ایسا ضابطہ حیات ہے کہ اگر ہم اپنی نسلوں کو دین سے جوڑنے میں کامیاب ہو گئے ۔۔۔تو اللہ سُبْحَان و تعالٰی ہماری نسلوں كو ضائع نہیں کرے گا۔۔۔۔انشاءاللہ اگر ہم یہ نہ کر سکے تو انٹر نیٹ کے سمندر کا بہاؤ ہماری نسلوں کو دور لے جا کر کیسے اسے جزیرے پر پھینک دے گا۔۔۔۔جہاں وہ یہ بھی بھول جائیں گے کہ اُن کے خالق نے انہیں کیوں تخلیق کیا تھا۔۔۔اللہ سُبْحَان و تعالیٰ ہماری اور ہماری نسلوں کی حفاظت فرمائیں آمین۔

شاذیہ عامر
============