ریڈیو کا عالمی دن اور میرا صداکار سے پروڈیوسر تک کا سفر۔

میری بات۔
==========

ریڈیو کے عالمی دن کو منانے کا آغاز2011ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی جانے والی قرار داد کی منظوری کے بعد ہوا ور دنیا بھر میں ورلڈ ریڈیو ڈے پہلی بار 2012ء میں منایا گیا تب سے اب تک یہ دن مخصوص نظریات کے تحت منایا جاتا ہے اور اس سال یہ دن اس عزم کے ساتھ منایا جارہا ہے کہ ریڈیو کو دنیا بھرمیں تنازعات کی روک تھام اور قیام امن کے لیے ایک ستون کے طور پر اجاگر کیا جاسکتا ہے اور یہ درست بھی ہے کیونکہ ریڈیو سٹیشن رائے عامہ کی تشکیل کرتے ہیں اور ایک بیانیہ تیار کرتے ہیں جو ملکی اور بین الاقوامی حالات اور فیصلہ سازی کے عمل کو متاثر کر سکتا ہے۔ریڈیو کے صحافتی معیار اور صلاحیت میں اضافہ کو امن میں سرمایہ کاری سمجھا جانا چاہیے کیونکہ تنازعات کی روک تھام اور امن کی تعمیر میں ریڈیو ایک اہم پلیئر ہے اور امن کی بحالی اور منتقلی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ریڈیو مختلف طبقات کو اکٹھا کرنے اور تبدیلی کے لیے مثبت مکالمے کو فروغ دینے کے لیے منفرد مقام رکھتا ہے۔ریڈیو پروگرامرز کی مختلف تکنیکیں، پروگراموں اور فارمیٹس جیسے کال ان، ٹاک شوز، سامعین کے فورم وغیرہ کے ذریعے مکالمے کے کلچر کو بھی تقویت دیتی ہیں اور اس طرح بات چیت کے مواقع فراہم کرتی ہیں جس کی وجہ سے جمہوریت مضبوط اور پائیدار امن کی بنیاد فراہم ہوتی ہے۔پیشہ ورانہ ریڈیو ممکنہ طور پر تنازعات کی
بنیادی وجوہات اور محرکات دونوں کو حل کرتا ہے۔ یہ مایوسیوں، یا مفادات کے تصادم کو واضح کرکے، غلط فہمیوں کو دور کرکے اور عدم اعتماد کے مسائل کی نشاندہی کرکے تنازعات کی روک تھام کا متبادل طریقہ پیش کرتا ہے۔ اس سے نفرت، انتقام کی خواہش، یا ہتھیار اٹھانے کی خواہش کا مقابلہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔اقوام متحدہ کے امن مشن اپنے بہت سے میزبان ممالک میں ریڈیو اسٹیشنوں اور ریڈیو پروگراموں کی حمایت کرتے ہیں۔ ریڈیو انسانیت کا جشن منانے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے اور جمہوری گفتگو کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ یہ عالمی سطح پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ذریعہ ہے۔ میری ریڈیو سے واقفیت 7سال کی عمر میں ہوئی جب میں اپنی والدہ اور چھوٹی بہن کے ہمراہ پہلی بار ریڈیو پاکستان لاہور کے بچوں کے پروگرام روشن دنیا میں شرکت کرنے آیا جہاں میری پہلی ملاقات اس پروگرام کے کوآر ڈینیٹر نصیر بھائی سے ہوئی جو خود میمکری آرٹسٹ تھے اور پروگرام کے دوران پرندو ں مختلف آرٹسٹوں کی آوزیں نکالتے تھے میں اس وقت پرائمری کلاس کا طالب علم تھا اور میں نے اپنا آڈیشن دیا جوبچوں کی نظم پر مبنی تھا جسے سلیکٹ کرلیا گیا اور میں نے پروگرام کے دوران بھائی جان منور سعید اور آپی ریحانہ صدیقی کے سامنے بچوں کے درمیان بیٹھ کر پڑھا اس وقت پروگرام کے دوران بچوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہوتی تھی اور یہ پروگرام ان دنوں ہر جمعہ کو لائیو براڈ کاسٹ ہوتا تھا اور اس کے لیے ہمیں اچھی خاصی ریہرسلز کرنا پڑتی تھیں تاکہ اپنا آئیٹم ٹھیک طریقے سے پیش کرسکیں۔ریڈیو پاکستان لاہور میرا صداکار کاآڈیشن پروڈیوسر نسرین انجم بھٹی نے لیا جن کو ہم نسرین آنٹی کے نام سے بلاتے تھے اس آڈیشن کے بعد مجھے سی کیٹگری ملی اور میں ڈراموں میں بچوں کے کردار کے لیے منتخب ہونے لگا جبکہ میری بہن کو صداکاری میں دلچسپی نہیں تھی و ہ تقریرکرنے اور شعر گوئی میں یکتا تھی اس لیے اس نے اس میدان ہی میں طبع آزمائی کی اور ریڈیو کے پلیٹ فارم کے ذریعے ہونے والے مقابلوں میں شرکت کرکے ایوراڈز حاصل کیے اور بعد میں حکیم سعید صاحب کے زیر اثر ہونے والی نونہال اسمبلی میں ہونے والی تقریبات میں بطور مقررہ شرکت کرکے پوزیشنز حاصل کرتی رہیں جبکہ میں اس فیلڈ میں مکمل فلاپ رہا۔ریڈیو پاکستان لاہور کے ڈراموں میں مجھے مسلسل کام ملتا رہا اور میری کیٹگری پہلے بی اور 1996ء تک آتے آتے میں صداکار کی اے کیٹگری میں شامل ہوچکا تھاان دنوں مجھے پروڈیوسر آفتاب اقبال،برکت اللہ،رضا کاظمی،احمد شیخ اور ریاض محمود اپنے ڈراموں میں کام دیا کرتے تھے جس کی وجہ سے میری پاکٹ منی نکل آتی تھی۔ میں نے ریڈیو کا وہ دور بھی دیکھا جب میں ایک طرف ڈرامہ میں کردارا دا کیا تو مجھے اسی وقت ڈیوٹی روم سے چیک مل گیا اور یہ دور آج تک واپس نہیں آیا۔1999ء میں پروڈیوسر احمد شیخ کی سفارشات پر پروگرام منیجر گلزار عثمانی نے میری کیٹگری بڑھا کر AAکردی جو آج تک قائم ہے گزرتے دنوں کے بعد میں نے بھی صداکاری سے ہٹ کر پروگراموں کے اسکرپٹ لکھنے شروع کردییاور ساتھ ہی نوجوانوں کے پروگرام ہم جوان سے بطور کمپئیر منسلک ہوگیا اور درمیان میں ڈراموں میں بھی کام کرلیتا تھا۔ مجھے انٹرویوز کی ایک سیریز میری پہچان پاکستان کے لیے چنا گیا جو تحریک پاکستان سے وابستہ ورکرز کے انٹرویوز پر مبنی تھی او ر یہ ریکارڈ بھی میرے پاس آج تک ہے کہ میں نے سال بھر میں اس دور میں زندہ ورکرز کے انٹریوز کو براڈ کاسٹ کیا۔ریڈیو ہی کی شہرت مجھے پی ٹی وی پر لے آئی مگر میں وہاں کے ماحول میں ایڈجسٹ نہیں کرپایا یاں پھر وہاں میرا دل نہیں لگا اور میں ریڈیو کا ہی ہوکر رہ رگیا۔ریڈیو پروگرامنگ کو دیکھ دیکھ کر میں اس سے سیکھتا گیا اور اوپر سے اسکرپٹ لکھنے کے فن سے میں آشنا تھا اس لیے مجھے پروڈیوسرز کی جانب سے پروگرام لکھنے اور صداکاری کے لیے دیے جانے لگے اسی دوران مجھے پروڈیوسر آفتاب اقبال کے توسط سے سئینیر صحافی نجم الحسن عارف سے ملاقات کا موقع ملا جو ان دنوں روزنامہ پاکستان میں چیف رپورٹر تھے اور انھوں نے مجھے اخبار کی رپورٹنگ ٹیم میں شامل کرلیا جہاں پر مجھے کرائم رپورٹنگ دی گئی اور میں صحافت سے وابستہ ہوا مگر دل میں ریڈیو کی محبت موجودتھی اس لیے پروگراموں کے اسکرپٹ لکھ لیتا اور ڈراموں میں صداکاری بھی کرلیتا۔ 2014ء میں مجھے شادی کے ایک دن بعد ریڈیو پاکستان لاہور میں کنٹریکٹ پروڈیوسر کی تعیناتی کا حکم نامہ ملا اور آج 2023ء میں اسی حثیت سے ادارے سے منسلک ہوں اورریڈیو پاکستان کے ماٹو وطن کو عظیم سے عظیم تر بنانے میں اپنا کردار ادا کررہاہوں۔ریڈیو آج بھی کم لاگت والا ذریعہ ہے جو خاص طور پر دور دراز کے لوگوں تک پہنچنے کے لیے موزوں ہے اور لوگوں کے لیے تعلیمی،ثقافتی،زرعی،دینی اور ادبی خدمات سرانجام دے رہا ہے اور مجھے بھی گزشتہ روز معروف ادیب،شاعر اور ڈراما نگار امجد اسلام امجد کی وفات پر قومی پروگرام مجھے اپنا ستارہ ڈھوندنا ہے پروڈیوس کرنے کا موقع ملا جس کومیں نے تحریر بھی کیا جبکہ راوی حفظ کاظم اور ساتھی پروڈیوسر عفت علوی تھیں جبکہ آج مجھے انٹرنیشنل ریڈیو لسنرزآرگنائزیشن پاکستان کی جانب سے ریڈیائی خدمات پرسند اعزاز عطا کی گئی ہے جسے میں اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہوں۔
=================