مسئلہ کشمیر مسلم دنیا کا ایک متفقہ معاملہ نہیں۔۔۔

سچ تو یہ ہے،
===========

بشیر سدوزئی،
=========

عین اس وقت جب دنیا بھر کے حکمران اور ان کے نمائندے یو این جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے نیو یارک پہنچنے کی تیاریوں میں مصروف تھے، مقبوضہ کشمیر میں پولیس چیف نے بیان دیا کہ ” کشمیریوں کی آزادی کے سیاسی اتحاد “حریت کانفرنس” کو ختم کر دیا گیا ہے ،آتنگ وادیوں کو بھی جلد ختم کر دیں گے” کشمیر کے پولیس چیف کے اس بیان کو سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے اس بیان کے تناظر میں دیکھا جائے تو مطلب بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے پولیس چیف نے یہ بیان جاری کرنے کے لیے اسی وقت کا انتخاب کیوں کیا جب یو این جنرل اسمبلی اجلاس ہونے والا تھا ۔۔گوتریس نے چند دن قبل دورہ پاکستان کے موقع پر کہا تھا کہ” بھارت کشمیر پر اقوام متحدہ کی ثالثی ماننے کے لیے تیار نہیں” گویا یہ سیدھا سادہ پیغام تھا کہ بھیا ادھر کی امید ختم اور بار ،بار کا واویلا بند کرو کہ یو این مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنی قراردادوں پر عمل کرے ۔ یو این سیکریٹری جنرل کے اس بیان کے بعد کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ٹیبل پر ہونے کے باوجود ترجحات نہیں رہا اور نہ اقوام متحدہ کی جانب سے ماضی بعید میں منظور کی جانے والی قراردادیں قابل عمل رہی ہیں ۔ اس کے باوجود کوئی بھی ممبر اپنی تقریر میں بات کرنا چاہئے تو اسی کو انڈرسٹینڈنگ کہا جاتا ہے۔ رائے شماری سمیت اقوام متحدہ میں کشمیر پر دیگر قراردادوں کا بوسیدہ ہونے یا بین الاقوامی برادری کی مسئلے میں عدم دلچسپی کی وجہ پاک بھارت کے درمیان اعتماد سازی اور کافی حد تک کشمیریوں کی ناقص حکمت عملی اور اپنی آزادی جیسے اہم ترین مسئلے کی سفارت کاری کو مکمل طور پر دوسروں کے حوالے کر دنیا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ حالات و واقعات تبدیل ہوتے رہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تاشقند، شملہ اور لاہور معاہدوں پر دستخط ہونا وقت کی ضرورت تھی جس کے بعد اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کا ضامن نہیں ثالث رہ گیا۔ لیکن کشمیریوں نے اس پر کبھی اعتراض نہیں اٹھایا اور اپنے مسئلے کے خارجہ امور کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ یہ جاننے کے باوجود کہ ان معاہدات کے بعد کشمیر کے مسئلے کی قانونی صورت حال یہ ہے کہ اب یہ ایک قوم کی آزادی کے بجائے دو پڑوسی ممالک کے درمیان سرحدی تنازعہ رہ گیا ہے جب تک دونوں کی رضامندی نہ ہو اقوام متحدہ سمیت کوئی بھی ثالث مداخلت نہیں کر سکتا اور نہ دلچسپی لے گا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 30 برسوں کے دوران لگ بھگ ایک لاکھ افراد کے شہید ہونے کے باوجود بھارت ایسے کشمیر میں آتنگ وادیوں کی گڑھ بڑھ اور امن اماں کا مسئلہ کہتا رہا جیسے دنیا نے تقریبا مان رکھا ہے کیوں کہ اتنے بڑے قتل عام ریپ، گرفتاریوں، ٹارچر ،پلٹ گنوں کے استعمال کے باوجود دنیا نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تو مذمت کی لیکن اسے آزادی کی تحریک تسلیم نہیں کیا ۔۔ کشمیری آج بھی یہ بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ دنیا آزادی کی تحریکوں میں تو توجہ دیتی ہے، تنازعات تو فریقین کے درمیان رضامندی سے ہی حل ہوتے ہیں اور بھارت نے پولیس چیف کے توسط سے واضح پیغام دیا ہے کہ اب مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ کرنے والوں کی نہ کوئی آواز رہی اور نہ کوئی سننے والا ہے ۔اسی وجہ سے بھارت آسانی کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر کے بلا کسی مذاحمت غیر کشمیری ہندو انتہاء پسندوں کی آبادکاری کر رہا ہے اور اب تک 40 لاکھ ہندووں کو آباد کرنے کی منصوبہ بندی مکمل کر چکا اگر اقوام متحدہ کے نزدیک یہ متنازعہ علاقہ سمجھا جا رہا ہوتا تو بھارت ایسے اقدامات کبھی نہیں کر سکتا تھا۔۔ اس کے باوجود جموں و کشمیر کے عوام حسب سابق اس پر خوش ہیں کہ پاکستانی وزیراعظم نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران مسئلہ کشمیر کو اٹھایا ہے جس سے اس مقدمہ کی کارروائی میں پیش رفت ہو گی۔۔ لیکن پاکستان کے حکمران بھی کیا خوب ہیں کہ کشمیریوں کو کیا پاکستانی قوم کو بھی سچ نہیں بتاتے اور نہ وقت کے ساتھ حکمت عملی تبدیل کرتے ہیں ۔ یہ جاننے کے باوجود کہ سیکریٹری جنرل نے صاف الفاظ میں انکار کر دیا کہ اقوام متحدہ اس مسئلے میں اب کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی وزیراعظم شہباز شریف نے ایک مرتبہ پھر سابق حکمرانوں کی طرح قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش میں بیان جاری کرایا کہ ان کی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے نیویارک میں ملاقات ہوئی، جہاں مسئلہ کشمیر کو اٹھایا گیا ۔مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی ابتر صورتحال کا ذکر کیا اور توقع ظاہر کی کہ انتونیو گوتریس اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کا پرامن حل نکالنے کے لیے اقدام کریں گے۔وزیراعظم پاکستان نے یو این میں اپنی تقریر میں بھی کشمیر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیاء میں امن کی خاطر یہ مسئلہ حل ہونا چاہیے۔ لیکن بھارتی مندوب اس کے جواب میں اسیے بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کہے گا، فائل داخل دفتر اور مقبوضہ کشمیر میں قتل عام جاری رہے گا، آئندہ سال ستمبر ،اکتوبر نئی اسمبلی تک انسانی سروں کی تازہ فصل کٹ چکی ہو گی۔ یہ سلسلہ گزشتہ 30 برسوں سےجاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کشمیری بھارتی مظالم کو بھول کر اس کے سامنے سر تسلیم خم یا آزادی کی بات نہیں کرتے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ سیکریٹری جنرل کے بیان کو دس دن بھی نہیں گزرے تھے وزیراعظم پاکستان نے اسی پرانے بیان کو تازہ کر کے دورایہ ہے جو 75 سال سے جاری کیا جارہا ہے۔ بات یہاں ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ نوجوان وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے تنظیم تعاون اسلامی کے وزراء خارجہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مسلہ کشمیر کو مسلم دنیا کا ایک متفقہ معاملہ قرار دیا، حب کہ حقیقت یہ ہے کہ خلافت کے خاتمے کے بعد مسلم دنیا نے قبلہ اول کی آزادی کو متفقہ معاملہ نہیں سمجھا کشمیر کو کیا سمجھا جائے گا۔ مسلہ کشمیر اس لیے مسلم دنیا کا مسلہ نہیں کہ جموں و کشمیر اکثریتی مسلم ریاست ہے مسلم ریاست نہیں۔ جب سے مسئلہ کشمیر کے ساتھ مسلم اور جہاد کا لفظ جڑھا الجھاؤ بڑھتا گیا اسی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ وادی کے لوگ جموں سے اور جموں کے پیر پہنجال سے اور جموں و کشمیر کے عوام گلگت بلتستان کے عوام سے دور ہوتے گئے۔۔ لوگوں کی اس تقسیم نے کافی حد تک ریاست کی تقسیم کی راہ ہموار کر دی جس پر غور و فکر ہو رہی ہے۔کشمیریوں کے مذہب کے نام پر تقسیم ہونے سے ان کی وحدت پارہ پارہ ہوئی اور پورے کشمیر میں آج کوئی ایک لیڈر ایسا نہیں جو ان کو جوڑنےکی بات کرتا ہو۔۔اسی سازش کے تحت کشمیر کے حقیقی باشندوں پنڈتوں کو وادی سے نکال کر کشمیری معاشرے کی ہندو مسلم تقسیم کو مذید گہرا کیا گیا۔ بعد ازاں تحریک آزادی کشمیر کی مسلحہ جدوجہد جس کا آغاز لبریشن فرنٹ نے کیا تھا جہاد کشمیر اور غزوہ ہند کا نام دیا گیا جس سے بین الاقوامی برادری میں عدم دلچسپی سے ہمارے مقصد کو نقصان پہنچا۔ اب مسئلہ کشمیر کو امت مسلمہ کا مسئلہ بنا کر پیش کرنے سے گویا دنیا کہ وہ ممالک جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر کشمیریوں کے حق میں تھوڑی بہت بات کرتے بھی ہیں لاتعلق ہو جائیں گے ۔ حریت کانفرنس تو عملی طور پر ختم ہی کر دی گئی، جب کہ آزاد کشمیر میں سیاسی قیادت اقتدرار اور مال و دولت کے حصول میں سرگرداں ہے ۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان گزشتہ کچھ عرصے سے ایسے بیانات دے رہے ہیں کہ کبھی کبھی کچھ امید بند رہی ہوتی ہے اور پھر کسی موقع پر مایوسی ہوتی ہے۔ خاندانی اور ذاتی سیاسی پس منظر رکھنے کے باوجود اس مشکل وقت میں وہ تحریک آزادی کشمیر کی سمت درست کرنے کے لیے کھل کر سامنے نہیں آ رہے۔ ابھی تک فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار ہیں، وہ ایک قدم آگئیں بڑھتے ہیں اور چار قدم پیچھے ہٹتے ہیں، ایک بیان دیتے ہیں اور ایک ہفتہ اس کے وضاحتی بیان جاری کر رہے ہوتے ہیں ۔ ان کو چاہیے کہ کے ایچ خورشید کی طرح عزت کے ساتھ مرنے اور اور بعد از مرگ قوم کے دلوں میں رہنے کے لیے نواز شریف کو خدا حافظ کہہ کر مسئلہ کشمیر پر اپنے بیانیہ کو لے کر قوم کے پاس آئیں اور پاکستان کے پالیسی سازوں کو سمجھا ئیں کہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے قبضہ میں چھوڑ کر اسٹیٹس کو قائم کرنا پاکستان کے مفاد میں نہیں ۔ اگر یہ فیصلہ ہو بھی گیا کشمیری تو جیسے تیسے کچھ عرصہ اور گزارہ کر لیں گے ہندو انتہاء پسند پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرتے رہیں گے، لہذا کوئی بین الاقوامی دباو ہے بھی تو آزاد کشمیر کی حکومت کو ڈوگرہ کی جانشین حکومت کے طور پر تسلیم کر کے پاکستان سرحدی تنازعہ سے جان چھڑا کر ریاست اور ایک قوم کی آزادی کے بیانیہ پر واپس آئے تاکہ مسئلہ کشمیر پر قراردادیں اور اقوام متحدہ کا کردار بحال ہوا اور بھارت کو رائے شماری کے لیے مجبور کیا جا سکے شماری ہو گی تو لگ پتا جائے گا کہ کشمیری بھارت کو کتنا پسند کرتے ہیں۔۔۔۔
================================