دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانے میں ناکامی – سندھ کے وزیر داخلہ سے جواب کون لے گا ؟


گزشتہ ایک مہینے میں کراچی میں دہشت گردی کے تین بڑے واقعات ایک طرف سے شہریوں کو خوفزدہ کردیا ہے تو دوسری جانب سیکیورٹی کے ذمہ دار اداروں اور حکومتی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھائے ہیں ۔ یہ روایت رہی ہے کہ دہشتگردی کا الزام غلط ملکی ایجنسیوں پر ڈال کر معاملے کو رفع دفع کر دیا جاتا ہے لیکن ہر مرتبہ دہشت گردی کا نیا واقعہ نئے سوالات لے کر آتا ہے ۔ شہر قائد میں دہشت گردی کی تازہ لہر


اپنے ساتھ بہت سے سوالات لائی ہے وفاقی اور صوبائی حکومت ایک معاملے پر سخت تشویش کا اظہار بھی کر رہی ہے اور نوٹس بھی لیا گیا ہے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی ملاقات بھی ہوئی ہے اور دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی پر تبادلہ خیال بھی ہوا ہے بظاہر دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانے میں ناکامی کا سارا ملبہ آئی جی سندھ مشتاق مہر پر ڈال دیا گیا ہے اور انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن

میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ ڈاکٹر کامران فضل کو آئی جی سندھ کا اضافی چارج دے دیا گیا ہے ۔ بظاہر امن و امان کی صورتحال پر قابو پانا یقینی طور پر پولیس کا کام ہے اس لیے آئی جی سندھ کو عہدے سے فارغ کرنا وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کا ایک درست اقدام ہے لیکن سندھ پولیس کے علاوہ بھی مختلف ادارے اور اہم شخصیات سے اس حوالے سے ذمہ داریاں رکھتی ہیں ان کی کارکردگی کا بھی جائزہ لینا


چاہیے سیاسی حلقوں میں یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ آئی جی سندھ کو تو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے لیکن سندھ کے وزیر داخلہ سے باز پرس کون کرے گا ؟ اگر صوبے میں فل ٹائم وزیر داخلہ ہوتا تو آج اس سے جواب دہی ہو سکتی تھی

لیکن وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبے میں کوئی فل ٹائم وزیر داخلہ مقرر نہیں کیا اور یہ انتہائی اہم عہدہ بھی اپنے پاس رکھا ہے ویسے ہی یہ بات اٹھائی جاتی رہی ہے کہ اتنی مصروفیات کے ہوتے ہوئے وزیراعلی دیگر محکمہ کو


کیسے وقت دے سکتا ہے محکمہ خزانہ کا قلمدان بھی وزیر اعلی کے پاس ہے محکمہ داخلہ کا بھی ۔اس کے علاوہ بھی مختلف قلمدان وزیر اعلی نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور سندھ میں امن و امان کی صورتحال ہر دور میں ہی ایک مسئلہ رہا ہے اور دہشت گردی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں وزیر اعلی کو چاہیے تھا کہ فل ٹائم و زیر داخلہ مقرر کر دیتے تو وہ امن و امان کی صورتحال پر زیادہ وقت اور توجہ دے سکتا تھا

پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بھی ایسی صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے اتنی بڑی کابینہ میں کسی ایک کو وزیر داخلہ بنا دینا چاہیے


تاکہ وزیراعلی کے سر سے بوجھ کم ہو اور صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے وزیر داخلہ اپنے طور پر بہتر انتظامات کر سکے اس طرح صوبائی حکومت کی کارکردگی میں مزید بہتری آئے گی اور اس کا کریڈٹ بھی وزیراعلی کو ہی ملے گا ۔ ۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے حلقوں میں وزیراعلی کے فیصلے کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے

کہ اہم محکموں کا قلمدان وزیر اعلی نے اپنے پاس اس لیے رکھا ہوا ہے کہ وہ فوری فیصلے کر سکیں اور انتہائی اہمیت کے حامل فیصلوں میں تاخیر نہ ہو ۔

======================================