اپنے خاندان کو چھوڑا اور اپنی تعلیم مکمل کرکے اسکول کی نوکری کی لیکن ہر جگہ مجھے جنسی تعلقات کے لیے مجبور کیا گیا۔ لیذا سروس کمیشن کا امتحان دیکر پولیس فورس جوائن کی میرا خیال تھا کہ

لیڈی انسپکٹر نے جیوے پاکستان کے لیے خصوصی لکھا ہے۔ ہم نوٹ کے ساتھ شائع کر رہے ہیں کہ متعلقہ حکام اور انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی تنظیمیں اس ناانصافی کا نوٹس لیں گی۔
===================================

اسلام وعلیکم, آج سے تیس سال پہلے میں نے اپنے خاندان کو چھوڑا اور اپنی تعلیم مکمل کرکے اسکول کی نوکری کی لیکن ہر جگہ مجھے جنسی تعلقات کے لیے مجبور کیا گیا۔ لیذا سروس کمیشن کا امتحان دیکر پولیس فورس جوائن کی میرا خیال تھا کہ میں مسلمان عورت ہوں اور دین اسلام کے مطابق زندگی گزاروں گی اور اپنے خاندان کے شرابی اور جواری حرام کمانے والے مردوں سے شادی کرنے سے بہتر ہے کہ اپنی زندگی خود گزاروں لیکن افسوس کے پولیس کےاعلی افسروں نے میری بات کو چیلنج بنادیا اور وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ عورت اسلام کے مطابق زندگی نہی گزار سکتی


اسے یا تو شادی کرکے رشتہ داروسے بناکر رکھے یا نوکری میں غیر مردوں سے ناجائز تعلق رکھنے پڑتے ہے۔ لہذا مجھے باقاعدہ مخصوص گروپ کے افسروں نے اتنا پریشان کیا کہ میں مجبور ہوکر اپنے ایمان کا سودا کرلوں اور ان کی بات مان لوں مجھے اتنا ذلیل اور بے عزت کیا گیا اور جھوٹے کیسوں میں جیل بھیجا گیا نوکری سے فارغ کردیا میں جہاں مکان لیتی وہاں پولیس کے ٹاؤٹ آکر خالی کروالیتے ہر


وقت میری نگرانی ہونے لگی اور میری ماں کو مجھ سے الگ ہونے پر مجبور کردیا میں اس لیے خاموش تھی کہ میری ماں کی جان بچ جائے گی لیکن میری ماں مرگئ اور مجھے باَلاخر شادی کرنی پڑی میں نے اپنے شرابی شوہر کے جوتے کھائے نوکری کرکے پیسہ کمایا لیکن پھر مجھے لگا کہ یہ مجھے اسی غلط راستے پر ڈالنا چاہتا ہے جس سے میں بچنا چاہتی تھی حتی کہ وہ مجھے نماز اور قرآن پڑھنے سے بھی روکتا۔


معلومات کی تو پتا چلا یہ تو اسی گروپ کا آدمی فیصل رشید کا بھائ ہے مجھے بے وقوف بنا کر شادی کے پاک رشتے میں پھنسا کر غلط راستے پر لانے کی کوشش کی جارہی تھی تاکہ میں اللہ کا راستہ چھوڑ کر ان اعلی افسران کو اپنا خدا ماننے پر مجبور ہوجاؤں اور انکی ناپاک خواہشات پوری کروں اور ایک طوائف بن جاؤں مجھے بہت حیرت ہوئ کہ میرے خیال میں یہ لوگ مجھے بھول گئے ہوگے لیکن میں تو ہر وقت انکی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چھبتی تھی پھر مجھے ڈرانے دھمکانے کے ساتھ میرے معصوم بیٹے کو مارنے کی دھمکیاں ملنے لگی میں ہوسکتا تھا کہ


اپنی ماں کی طرح اپنے بیٹے کو بھی چھوڑ دیتی لیکن افسوس مجھے پتا چلا کہ میرا شوہر اسکو بھی ان لوگوں کے ہاتھوں بیچ دیگا۔لہذا میں خاموش ہوگئ اور پھر اپنے محکمہ پولیس کے اعلی افسران اور انکے ٹاؤٹ سے جنگ جاری رکھی۔ اعلی افسران مجھے سرکاری رہائش خالی کرنے کے لیے مجبور کررہے ہے اور میری ڈیوٹی جان بوجھ کرمیرے بیٹے کے اسکول ٹائم کے مطابق رکھتے ہے تاکہ آسانی سے میرے بیٹے کو غائب کردے۔ اور پھر مجھے بیٹے کی موت کا صدمہ دیکر پاگل خانے شفٹ کردے تاکہ میری زندگی کو عبرت کا نشان بنا کر عوام میں پولیس کی دہشت اور خوف قائم رکھا جائے۔ لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ پولیس کے اعلی افسران اللہ کی طاقت کو اور عذاب کو چیلنج کررہے ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ بہت جلد اپنی طاقت اور تکبر اور ناجائز دولت کے ساتھ غرق ہوجائے گے لیکن اللہ کا حکم نہی مانے گے شاید ان کے ہدایت کا دروازہ بند ہے۔
یا اللہ میری اور میرے معصوم بیٹے کی حفاظت فرما اور ہمیں ظالموں کے مقابلے میں غیب سے مدد کر آمین۔
================================

لیڈی سب انسپیکٹر روبینہ شاہین بلوچ سندھ کی پہلی خاتون افسر جنہوں نے FBI دنیا کی پہلی امریکن ایجنسی سے کورسز پاس کیے اور سرٹیفیکٹ لیے اور مزید آفرز بھی موجود ہے لیکن اپنے ملک کی خدمت کا جزبہ لیے اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے کرتے ہوئے اپنے معصوم بچے کی ذمہ داری بھی نبھارہی ہے اسکے باوجود سندھ پولیس کے اعلی افسران میرٹ پر کوئ پوسٹنگ پر آرڈر کرنے کے لیے تیار نہی۔ جبکہ لیڈی افسر نے


چار بار کراچی کے بڑے تھانوں میں ایڈیشنل ایس ایچ او خدمات انجام دی اور ان کے خلاف کوئ پبلک کمپلین نہی اور نا کرپشن کا الزام ہے۔ اس کے باوجود لیڈی افسر کو نظر انداز کرکے کرہشن میں سزا یافتہ افسروں کو ہی ایس ایچ او لگاتے ہے۔
پاکستان پولیس کے سربراہان سے گزارش ہے کہ لیڈی افسر کو میرٹ پر ایس ایچ او لگایا جائے تاکہ محنت کرنے والے ایماندار افسران کی حوصلہ افزائ ہوسکے۔ شکریہ
==========================================
ہم پولیس حکام کو پولیس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں لکھنے کی بھی دعوت دیتے ہیں۔