آج آپ سپریم کورٹ کے حکم کے تابع ایوان کی کارروائی چلائیں کیوں کہ آج یہ ایوان ایک نئی تاریخ رقم کرنے جارہا ہے اور آئینی اور قانونی طریقے سے ایک سیلیکٹڈ وزیراعظم کو شکست فاش دینے جارہا ہے۔

سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر ہونے والے پارلیمان کے ایوانِ زیریں کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی نے ساڑھے بجے تک ملتوی کردیا ہے۔

یہ اہم اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں ہورہا ہے جس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد نعت رسول مقبول پیش کی گئی اور قومی ترانہ بجایا گیا۔

ایوان کی کارروائی شروع ہونے سے قبل ایک خاتون رکن قومی اسمبلی کی وفات پانے والی والدہ کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔

سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ووٹنگ کرائی جائے، شہباز شریف
ایوان کی باقاعدہ کارروائی شروع ہونے کے بعد سب سے پہلے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے تقریر کی۔


اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ پرسوں پاکستان کی تاریخ کا تابناک دن تھا جب عدالت عظمیٰ نے آپ کے، وزیراعظم عمران خان اور ڈپٹی اسپیکر کے غیر آئینی اقدام کو کالعدم قرار دیا اور نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کرکے پاکستان کا مستقبل تابناک بنا دیا۔’

انہوں نے کہا کہ میں اس کے لیے متحدہ اپوزیشن کی پوری قیادت اور قوم کو سلام پیش کرتا ہوں کہ ان کی جدو جہد کے نتیجے میں یہ دن دیکھنا نصیب ہوا۔

انہوں نے کہا کہ میری گزارش ہے کہ آج آپ سپریم کورٹ کے حکم کے تابع ایوان کی کارروائی چلائیں کیوں کہ آج یہ ایوان ایک نئی تاریخ رقم کرنے جارہا ہے اور آئینی اور قانونی طریقے سے ایک سیلیکٹڈ وزیراعظم کو شکست فاش دینے جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو ماضی میں ہوگیا ہوگیا، آج آپ آئین و قانون اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے لیے کھڑے ہوجائیں اورصحیح معنوں میں اسپیکر کا کردار ادا کر کے تاریخ میں سنہرے حروفوں میں نام لکھوالیں، اس موقع سے فائدہ اٹھا لیں سیلیکٹڈ وزیراعظم کی ڈکٹیشن پر نہ چلیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بڑا واضح ہے۔

اس دوران اسپیکر قومی اسمبلی نے شہباز شریف کو کہا کہ میں نے سپریم کورٹ کا پورا فیصلہ پڑھا ہے اور میں من و عن اس کے مطابق اجلاس کی کارروائی کروں گا اور ہم چاہتے ہیں کہ اس میں بین الاقوامی سازش کے بارے میں بھی بات ہو۔

اس پر اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ اگر آپ پھر اس طرف آئیں گے تو آپ سپریم کورٹ کے فیصلے کی حکم عدولی کررہے ہیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے سپریم کورٹ کا حکم نامہ پڑھا اور یاددہانی کرائی کہ آپ اس کے مطابق ایجنڈا آئٹم پر کارروائی کرنے کے پابند ہیں کسی اور پر کارروائی نہیں کرسکتے اس لیے مہربانی کر کے ووٹنگ کرائی جائے۔

آئینی سیاسی اور جمہوری انداز میں مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، شاہ محمود
ایوان میں بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ میں اپنی جماعت کی طرف سے کہنا چاہتا ہوں کہ آئین میں عدم اعتماد کی تحریک کا حق موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ اس تحریک کو پیش کرنا اپوزیشن کا حق ہے اور اس کا دفاع کرنا میرا فرض ہے، ہم آئینی سیاسی اور جمہوری انداز میں مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

میں آج ایک اور چیز ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں اور قوم کو گواہ بنانا چاہتا ہوں کہ آّئین شکنی نقطہ نظر تھا نہ ہوگا، آئین کا احترام ہم سب پر لازم ہے اور وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ وہ دل سے مایوس ہیں لیکن سپریم کورٹ کے فیصلےپر سر تسلیم خرم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ آئین شکنی سے بھری ہوئی ہے میں حالیہ آئین شکنی کا حوالہ دینا چاہوں گا، قوم اس بات کی گواہ ہے کہ 12 اکتوبر 1999 میں آئین شکنی ہوئی، قوم اس بات گواہ ہے جب اعلیٰ عدلیہ کے سامنے جب وہ کیس گیا تو نہ صرف جسٹیفیکیشن مانگی گئی بلکہ آّئین میں ترمیم کی اجازت بھی دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن، بلاول بھٹو زرداری صاحب نے عدلیہ کے فیصلے سے قبل بیان دیا کہ کوئی نظریہ ضرورت کا فیصلہ ہم قبول نہیں کریں گے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ میں پاکستان تحریک انصاف کا مؤقف ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں، میرا وزیر اعظم کہتا ہے کہ مایوس ہوں لیکن عدلیہ کا احترام کروں گا۔

انہوں نے کہا عدالت نے حکم دیا ہے کہ اجلاس جاری رہے گا اور تب تک ختم نہیں ہوگا جب تک کارروائی مکمل نہیں ہوجاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اتوار کو ہونے والے اجلاس اور وزیر اعظم عمران خان کے اسمبلی توڑنے کی تجویز کا عدالت نے ازخود نوٹس لیا اور اسپیکر کی رولنگ کو مسترد کردیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسمبلی تحلیل کرنے کا مطالبہ ہماری اپوزیشن پونے 4 سال سے کر رہی ہے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے، جس کے پیش نظر وزیر اعظم نے فیصلہ کیا کہ عوام کے پاس چلتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ عوام پاکستان مستقبل کن ہاتھوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کرلیا ہے لیکن اپوزیشن عدلیہ میں کیوں گئی، اس کا ایک پس منظر ہے، یہاں جب ڈپٹی اسپیکر اجلاس کر رہے تھے اس میں آئینی کارروائی سے انکار نہیں کیا تھا۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ ایک نئی صورتحال میرے سامنے آئی ہے جہاں ایک بیرونی سازش ہورہی ہے اور اس کی تحقیقات ہونا ضروری ہے، قومی سلامتی کمیٹی کا فورم ایک اعلیٰ ترین فورم ہے، اس میں مراسلے کی بازگشت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب قومی سلامتی کمیٹی نے اس مراسلے کو دیکھا تو اس حل پر پہنچی کہ یہ سنگین اور حساس مسئلہ ہے اور احکامات جاری کیے۔

پہلا یہ کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔

انہوں نے دفتر خارجہ کو حکم دیا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن میں ڈیمارش کرو اور دفتر خارجہ یہی کرتا ہے، قومی سلامتی کمیٹی نے دوسرا فیصلہ یہ دیا کہ یہ فیصلہ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے رکھا جائے تاکہ وہ بات کی باریکی تک جائیں۔

شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دوران اپوزیشن بینچز سے آوازیں آنے لگیں، دریں اثنا اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردیا۔

متحدہ اپوزیشن کا پارلیمانی اجلاس
اجلاس سے قبل ٹیلی ویژن فوٹیج میں دارالحکومت میں سخت حفاظتی انتظامات دکھائی دیے جبکہ متحدہ اپوزیشن کے پارلیمانی گروپ کا اجلاس بھی ہوا جس کی صدارت مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کی۔

اپوزیشن کو عدم اعتماد کے اقدام کے ذریعے وزیر اعظم کو بے دخل کرنے کے لیے 342 میں سے کم از کم 172 قانون سازوں کی حمایت درکار ہے۔

اس تاثر کے باوجود کہ اس نے ایوان زیریں میں اپنی اکثریت کھو دی ہے، حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اب بھی اس بات پر بضد تھی کہ وہ اپوزیشن کے لیے میدان کھلا نہیں چھوڑے گی اور اس نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ ان کے لیے معاملات کو اتنا ہی مشکل بنا دے گی، چاہے وہ ووٹنگ کے طریقہ کار میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہو یا اپوزیشن کے نامزد کردہ شہباز شریف کو نئے قائد ایوان کے طور پر منتخب کرنے سے روکنا ہو۔

یاد رہے کہ 3 اپریل کو ہونے والے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف پیش کردہ تحریک عدم اعتماد بغیر ووٹنگ کرائے آئین و قانون کے منافی قرار دے کر مسترد کردی تھی۔

بعدازاں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم عمران خان کی تجویز پر اسمبلی توڑ دی تھی۔

جس پر لیے گئے از خود نوٹس کا فیصلہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے 5-0 کی اکثریت سے قاسم سوری کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ اور صدر مملکت کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔

ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے قومی اسمبلی کو بحال کرتے ہوئے اسپیکر کو ایوان زیریں کا اجلاس 9 اپریل بروز ہفتہ صبح ساڑھے 10 بجے تک بلانے اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ ووٹنگ والے دن کسی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جائے گا، تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں فوری نئے وزیر اعظم کا انتخاب ہوگا جبکہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو تو حکومت اپنے امور انجام دیتے رہے گی۔

اپوزیشن کا وزیراعظم پر عدم اعتماد
اپوزیشن نے گزشتہ ماہ 8 مارچ کو وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی اور ساتھ ہی اسمبلی کے اجلاس کی ریکوزیشن بھی دے دی گئی تھی۔

آئین کے تحت اسپیکر اسمبلی اجلاس کی ریکوزیشن جمع کرانے کے 14 روز کے اندر اجلاس بلانے کا پابند ہے اور تحریک عدم اعتماد پارلیمان میں پیش کیے جانے کے بعد کم از کم 3 بعد اور 7 روز سے پہلے اس پر ووٹنگ ہونی ہوتی ہے چناچہ 22 مارچ تک اجلاس طلب کیا جانا تھا۔

اپوزیشن نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد داخل کی، فوٹو: ڈان نیوز
تاہم اس دوران اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کونسل کے 48 ویں اجلاس کے انعقاد کے باعث ایوانِ زیریں کے ہال میں تزیئن و آرائش کا کام جاری تھا۔

چنانچہ اسپیکر نے 21 مارچ کو ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے 25 مارچ کو اجلاس طلب کیا جسے وفات پاجانے والے رکن قومی اسمبلی خیال زمان اور دیگر کے لیے فاتحہ خوانی کے فوری بعد ملتوی کردیا گیا تھا۔

جس کے بعد 28 مارچ کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے 161 اراکین کی حمایت سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی۔

منحرف اراکین اور سندھ ہاؤس
قبل ازیں تحریک پیش کیے جانے سے قبل ہی حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کچھ اراکین کے اپوزیشن کیمپ میں جانے کا بھی معاملہ بھی سامنے آیا اور محرف اراکین سندھ ہاؤس میں پائے گئے تھے جن کی تعداد سے متعلق مختلف دعوے سامنے آئے۔

پی ٹی آئی کے اراکین نے یہ خبر سننے کے بعد سندھ ہاؤس اسلام آباد پر دھاوا بول دیا تھا اور مرکزی دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوگئے تھے۔


منحرف اراکین کے سامنے آنے کے بعد سے صورتحال ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی اور حکومتی کیمپ میں ہلچل مچ گئی، انحراف کرنے والے اراکین کو اپوزیشن کے حق میں ووٹ دینے سخت انتباہات بھی کیے گئے اور باضابطہ طور پر اظہارِ وجوہ کے نوٹس بھی جاری کیے گئے۔

تاہم حکومت کی ڈھارس اس وقت بندھی جب اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کی جانب سے تحریک عدم اعتماد میں حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا گیا جس کے بدلے میں چوہدری پرویز الٰہی کو عثمان بزدار کی جگہ وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کا وعدہ اور انہیں ناراض اراکین کی حمایت کا ٹاسک دیا گیا کیا گیا۔

اس پیش رفت کے سامنے آنے کے بعد 28 مارچ کو پنجاب میں اپوزیشن کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تاہم وزیراعلیٰ نے اسی روز اپنا استعفیٰ وزیراعظم عمران خان کو پیش کردیا جسے 5 روز بعد گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے منظور کرلیا۔

اتحادیوں کی راہیں جدا
منحرف اراکین کے سامنے آنے پر پارٹی پالیسی سے انحراف کی صورت میں تاحیات نااہلی کی کوشش کر کے دباؤ ڈالا گیا اور اس مقصد کے لیے آئین کی دفعہ 63 اے کے تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا گیا۔

تاہم دوسرا بڑا جھٹکا حکومت کو اس وقت لگا جب اپوزیشن اتحاد مرکز اور بلوچستان میں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور اس کے 5 میں سے 4 اراکین اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد پر وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کا وعدہ کیا۔

ایم کیو ایم نے ایک معاہدہ کر کے تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں اپوزیشن کا کیمپ جوائن کیا—تصویر: اے پی
اس کے ساتھ ہی حکومت کی جانب سے اپنی ایک اور اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کو منانے کی کوششوں میں شدت آگئی اور حکمراں جماعت کے وفود نے اتحادیوں سے کئی ملاقات کی۔

تاہم یہاں بھی حکومت کی کوششیں رائیگاں گئیں اور ایم کیو ایم پاکستان نے بھی اپوزیشن کیمپ میں شمولیت اختیار کرلی جس کے بعد پی ٹی آئی واضح طور پر ایوان میں اکثریت سے اقلیت میں بدل گئی۔

وزیر اعظم کا ‘سرپرائز’
تاہم 27 مارچ کو وزیراعظم کے ایک اقدام نے تحریک عدم اعتماد کے معاملے کو یکسر مختلف رنگ اس وقت دیا جب ‘امر بالمعروف’ کے عنوان سے منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایک کاغذ لہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ ان کی حکومت کو گرانے کی تحریری طور پر دی گئی دھمکی ہے۔

خط سامنے آنے کے بعد مختلف قیاس آرائیاں پائی جارہی تھی چنانچہ حکومت نے اس مراسلے کو چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پیش کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔

تاہم اگلے ہی روز اپنے فیصلے میں تبدیلی کرتے ہوئے مبینہ دھمکی آمیز خط پر کابینہ اراکین کے علاوہ میڈیا سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بھی بریفنگ دی گئی۔


دریں اثنا علیحدہ طور پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ خط اصل میں سفارتی کیبل تھا جو امریکا میں پاکستان کے اُس وقت کے سفیر اسد مجید نے کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو سے ملاقات کی بنیاد پر بھیجی تھی۔

ایک سینئر پاکستانی عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ ملاقات میں امریکا کی جانب سے استعمال کی گئی زبان غیر معمولی طور پر سخت تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب تک عمران خان دھمکی آمیز مراسلے کے ساتھ منظر عام پر نہیں آئے اس وقت تک امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں ٹوٹ پھوٹ یا نئی کشیدگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔

مذکورہ صورتحال پر وزیراعظم کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں اہم وفاقی وزرا، مشیر قومی سلامتی، مسلح افواج کے سربراہان نے شرکت کی۔


اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا گیا کہ مشیر قومی سلامتی نے کمیٹی کو ایک غیر ملک میں پاکستان کے سفیر کے ساتھ غیر ملکی اعلیٰ عہدیدار کے باضابطہ رابطے اور کمیونیکیشن کے بارے میں بریفنگ دی، غیر ملکی اعلیٰ عہدیدار کے رابطے اور کمیونیکیشن سے متعلق وزارت خارجہ کے سفیر نے باضابطہ طور پر آگاہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: دھمکی آمیز خط: سفارتی ذریعے سے مراسلہ دے دیا گیا، دفتر خارجہ

اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلہ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے غیر ملکی عہدیدار کی جانب سے استعمال کی جانے والی زبان کو غیر سفارتی قرار دیا تھا۔

جاری بیان کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے بریفنگ پر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ یہ خط مذکورہ ملک کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف ہے جو ناقابل قبول ہے۔

بعدازاں دفتر خارجہ نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ہوئے فیصلے کے مطابق سفارتی ذریعے سے باضابطہ مراسلہ دے دیا اور اس حوالے سے جاری بیان میں بھی کسی ملک کا نام نہیں لیا گیا۔

البتہ قوم سے خطاب کے دوران بظاہر زبان پھسلنے کی صورت میں وزیر اعظم نے امریکا کا نام مبینہ طور پر اس مراسلے کے پسِ پردہ ملک کے طور پر لیا، لیکن پھر کہا کہ یہ کوئی اور ملک ہے امریکا نہیں۔

جس پر امریکی محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے اقدام میں امریکا کے ملوث ہونے کے دعوے محض الزامات ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں۔


تحریک عدم اعتماد مسترد
خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جس پر تاخیر کے بعد 3 اپریل کو ووٹنگ متوقع تھی۔

تاہم ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی سربراہی میں ہونے والے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہیں وقفہ سوالات میں بات کرتے ہوئے وزیر قانون فواد چوہدری کی جانب سے قرارداد پر سنگین اعتراضات اٹھائے گئے۔

فواد چوہدری نے اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کو بیرونِ ملک سے پاکستان میں حکومت تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔

جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک کو آئین و قانون کے منافی قراد دیتے ہوئے مسترد کردیا اور اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا۔

اسمبلی تحلیل
ایوانِ زیریں کا اجلاس ملتوی ہونے کے فوراً بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز بھجوانے کا اعلان کیا اور قوم کو نئے انتخابات کی تیاری کرنے کی ہدایت کی۔

وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اسپیکر نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے جو فیصلہ کیا اس کے بعد میں صدر مملکت کو تجویز بھیج دی ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کریں ہم جمہوری طریقے سے عوام میں جائیں اور عوام فیصلہ کرے کہ وہ کس کو چاہتے ہیں۔

بعدازاں صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 58 (1) اور 48 (1) کے تحت وزیراعظم کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے تجویز منظور کرلی تھی۔


ایک ہی روز کے دوران صورتحال میں تیزی سے رونما ہونے والی ڈرامائی تبدیلیوں کے بعد رات گئے صدر مملکت عارف علوی نے ایک فرمان جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ قومی اسمبلی، کابینہ کے تحلیل اور وزیر اعظم کی سبکدوشی کے بعد نگراں وزیر اعظم کے تقرر تک عمران خان اس عہدے پر کام کرتے رہیں گے۔

سپریم کورٹ از خود نوٹس
قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد بغیر ووٹنگ مسترد کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ازخود نوٹس لیا تھا۔

از خود نوٹس کے علاوہ مختلف پارٹیوں کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں جن پر سماعت کے لیے رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

انتدائی سماعت میں سپریم کورٹ نے تمام سیاسی قوتوں اور ریاستی اداروں کو آئینی حدود کے مطابق کردار ادا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم اور صدر کے تمام احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ کوئی حکومتی ادارہ غیر آئینی حرکت نہیں کرے گا، تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتی ادارے اس صورت حال سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے
https://www.dawnnews.tv/news/1180385/
===================================================

وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی قرار داد پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اسپیکر اسد قیصر کی زیرِ صدارت شروع ہونے والا اجلاس ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کا آغاز تلاوتِ قرآن مجید و ترجمے سے کیا گیا، جس کے بعد نعتِ رسول ﷺ اور قومی ترانہ پڑھا گیا۔

اجلاس کی ابتداء میں رکنِ قومی اسمبلی ڈاکٹر شازیہ کی والدہ کے انتقال پر فاتحہ خوانی کی گئی۔


تحریکِ عدم اعتماد کی قرار داد قومی اسمبلی کے آج کے 6 نکاتی ایجنڈے کے اجلاس میں چوتھے نمبر پر ہے۔

عدالتی حکم کے تابع کارروائی چلائی جائے: شہباز شریف
فاتحہ خوانی کے بعد اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیا، اس حکم کے تابع اسپیکر کارروائی چلائیں۔

انہوں نے کہا کہ ایوان آئینی و قانونی طریقے سے سلیکٹڈ کو آج شکستِ فاش دینے جا رہا ہے، عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہونے دیں گے۔

شہباز شریف کے اظہارِ خیال کے دوران حکومتی ارکان نے شور شرابہ کیا۔

اسپیکر کی بات پر شور
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ جو عدالت کا فیصلہ ہے اس پر من و عن عمل کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق ایوان چلائیں گا، عدالتی حکم پر اس کی روح کے مطابق عمل ہو گا۔


اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ حکومت ہٹانے سے متعلق غیرملکی سازش پر بھی بحث ہو گی۔

اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جانب سے بین الاقوامی سازش کے ذکر پر بھی شور شرابہ ہوا۔

اسپیکر نے شاہ محمود قریشی کو شہباز شریف کی بات کا جواب دینے کی ہدایت کی۔

شاہ محمود قریشی نے کیا کہا؟
جس کے بعد شاہ محمود قریشی نے ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ قائدِ حزبِ اختلاف نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا، تسلیم کرتا ہوں کہ عدم اعتماد کی آئین میں گنجائش موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک کو پیش کرنا اپوزیشن کا حق ہے، اس کا دفاع کرنا میرا فرض ہے، ہم آئینی جمہوری انداز سے عدم اعتماد کی تحریک کا دفاع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 12 اکتوبر کو ایک آئین شکنی ہوئی، عدلیہ کے سامنے کیس گیا تو ناصرف وضاحت تلاش کی گئی، بلکہ آئین میں ترمیم کی اجازت بھی دی گئی، مولانا فضل الرحمٰن نے بیان دیا کہ نظریۂ ضرورت کا فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ آج ہم سب نظریۂ ضرورت کا سہارا لینے کے لیے تیار نہیں، وزیرِ اعظم کہتے ہیں کہ مایوس ہوں لیکن اعلیٰ عدلیہ کا احترام کروں گا، عدلیہ نے کہا کہ ساڑھے 10 بجے اجلاس بلایا جائے گا، عدلیہ نے کہا کہ اجلاس جاری رہے گا اور ملتوی نہیں ہو گا جب تک عمل مکمل نہیں ہو جاتا۔

’’ووٹنگ کراؤ‘‘ کے نعرے
اس موقع پر اپوزیشن ارکان نے ’’ووٹنگ کراؤ، ووٹنگ کراؤ‘‘ کے نعرے لگائے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدلیہ کے فیصلے کی نظر میں آج 3 اپریل ہے، اتوار کو دفاتر کھولے گئے، اجلاس منعقد ہوا، کارروائی کا آغاز ہوا، عدالت نے فیصلے میں متفقہ طور پر رولنگ کو مسترد کیا،اپوزیشن 4 سال سے نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے۔


انہوں نے مزید کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اس بحران سے نکلنے کے لیے عوام کے پاس چلتے ہیں، عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کر لیا، عدلیہ کے پاس ہمارے دوست کیوں گئے، از خود نوٹس کیوں لیا گیا، اس کا ایک پس منظر ہے۔

شاہ محمود قریشی نے یہ بھی کہا کہ قاسم سوری نے آئینی عمل سے انکار نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ ایک نئی صورتِ حال آئی ہے، بیرونی سازش کی بات ہو رہی ہے اس لیے اجلاس کا غیر معینہ مدت تک ملتوی ہونا ضروری ہے، نیشل سیکیورٹی کا اعلیٰ ترین فورم ہے۔

شاہ محمود قریشی کے خطاب کے بعد اسپیکر اسد قیصر نے ساڑھے 12 بجے تک قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا۔

اجلاس ملتوی، اپوزیشن کا ووٹنگ کا مطالبہ
اجلاس ملتوی کیے جانے پر اپوزیشن ارکان شہباز شریف کی سربراہی میں اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے جنہوں نے اسپیکر سے تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کا مطالبہ کیا، حکومتی ارکان بھی اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے۔


51 حکومتی ارکان اسمبلی میں موجود
قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کے 51 ارکان موجود ہیں۔

اپوزیشن ارکان کی اسپیکر سے ملاقات
اجلاس سے قبل اپوزیشن ارکان اسپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر پہنچ گئے جہاں انہوں نے اسپیکر اسد قیصر سے ملاقات کی۔

اسپیکر سے مذاکرات کے لیےآنے والے اپوزیشن ارکان کے وفد میں مولانا اسعد محمود، سعد رفیق، ایازصادق، رانا ثناء اللّٰہ، محسن داوڑ، سینیٹر اعظم نذیر تارڑ ، نوید قمر اور دیگر شامل ہیں۔

اپوزیشن ارکان نے ملاقات کے دوران اسپیکر اسد قیصر سے سپریم کورٹ کے آرڈر اور اسمبلی کے قواعد پر بات کی۔

اپوزیشن کے وفد نے واضح کیا کہ عدالتی حکم اور اسمبلی قواعد کی رو سے کوئی ایجنڈا لیا نہیں جا سکتا، تحریکِ عدم اعتماد پارلیمانی، جمہوری اور آئینی اقدام ہے۔

اپوزیشن وفد نے یہ بھی کہا کہ تحریکِ عدم اعتماد سے روگردانی کر کے بچا نہیں جا سکتا، کوئی اور چیز زیرِ بحث لائی گئی تو یہ توہینِ عدالت اور آئین کے منافی ہو گا۔

عدم اعتماد کی قرار داد پر ووٹنگ، قومی اسمبلی کا اجلاس ساڑھے 12 بجے تک ملتوی

اپوزیشن کا اجلاس: شہباز، بلاول، خالد مقبول شریک
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف کی زیرِ صدارت اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی لیڈران کا اجلاس منعقد ہوا۔

اجلاس میں چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا اسعد، ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی اور دیگر نے شرکت کی۔

اپوزیشن پارٹیوں کے پارلیمانی اجلاس میں 176 ارکانِ قومی اسمبلی شریک ہوئے۔

اجلاس میں آج تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے قومی اسمبلی کے اجلاس کے بارے میں حکمتِ عملی طے کی گئی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تحریکِ عدم اعتماد آئینی و جمہوری حق ہے، اس کے لیے آج ہونے والی ووٹنگ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

حکومتی حکمتِ عملی بھی تیار
عدم اعتماد کی قرار داد سے نمٹنے کے لیے حکومت نے بھی حکمتِ عملی تیار کر لی۔

زرداری، بلاول، منحرف ارکان کی آمد
اس سے قبل سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری پارلیمنٹ پہنچ گئے۔


بلاول بھٹو زرداری اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے ملنے ان کے چیمبر میں پہنچ گئے۔

منحرف ارکانِ اسمبلی بھی پارلیمنٹ پہنچ گئے۔

آصفہ بھٹو بھی پارلیمنٹ پہنچ گئیں
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری ہمشیرہ آصفہ بھٹو زرداری بھی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئیں۔

رانا ثناء اللّٰہ نے کیا کہا؟
پارلیمنٹ پہنچنے والے مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللّٰہ کا کہنا ہے کہ آئین اور سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق آج ووٹ ہونا ہے، آج تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹ ہونا آئین کا تقاضہ ہے۔

وزیرِ اعظم کیخلاف تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کا طریقہ کار
وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کا طریقہ کار سامنے آگیا جس کے مطابق:

اسپیکر قومی اسمبلی تحریکِ عدم اعتماد کی قرار داد پڑھ کر سنائیں گے۔
قرار داد کے بعد ارکان کی آمد کے لیے 5 منٹ تک گھنٹیاں بجائی جائیں گی۔
تمام ارکان کی آمد کے بعد لابیز اور داخلی دروازوں کو بند کر دیا جائے گا۔


اسپیکر قرار داد کے حق میں ووٹ ڈالنے والے ارکان کو ٹیلر کے پاس ووٹ اندراج کرنے کا کہیں گے۔
ارکان باری باری آ کر ٹیلر کے پاس اپنا نام لکھوائیں گے۔
نام کے اندراج کے بعد ارکان لابی میں چلے جائیں گے اور انتظار کریں گے۔
تمام ارکان کے ووٹ دینے کے بعد اسپیکر ووٹنگ ختم ہونے کا اعلان کریں گے۔
سیکریٹری ڈویژن لسٹ حاصل کریں گے، گنتی کر کے اسپیکر کو دیں گے۔
دوبارہ گھنٹیاں بجائی جائیں گی اور ارکان واپس ایوان میں آ جائیں گے۔
اسپیکر تحریکِ عدم اعتماد کی قرار داد پر ووٹنگ کے نتیجے کا اعلان کریں گے۔
ووٹنگ ہر صورت آج ہو گی: قومی اسمبلی سیکریٹریٹ
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہر صورت آج ہو گی۔

قومی اسمبلی اجلاس کل صبح ساڑھے 10 بجے، ایجنڈا جاری

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ حکام کا کہنا ہے کہ خط کے معاملے پر ایوان میں بحث نہیں کی جا سکتی، اسپیکر قومی اسمبلی کوئی اور ایجنڈا نہیں لے سکتے۔

حکام کے مطابق آج ووٹنگ نہ کرانے پر اسپیکر کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

ریڈ زون مکمل سِیل، خصوصی سیکیورٹی انتظامات
تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے موقع پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق اسلام آباد کا ریڈ زون مکمل طور پر سِیل کر دیا گیا ہے، پارلیمنٹ جانے کے لیے صرف مارگلہ روڈ کا راستہ کھلا ہے۔

ریڈ زون کے اطراف کسی ریلی، احتجاج یا جشن کے لیے لوگوں کو اکٹھے ہونے کی اجازت نہیں ہے۔

جناح ایونیو پر چائنہ چوک، ایمبیسی روڈ سے راستے سِیل کر دیے گئے ہیں۔

جناح ایونیو پر چائنہ چوک، ایمبیسی روڈ سے پیدل جانے والوں کے داخلے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔

اسلام آباد پولیس و رینجرز اور پنجاب پولیس و رینجرز کی نفری ریڈ زون کے اندر اور اطراف تعینات کی گئی ہے۔

پارلیمنٹ ہاؤس، پی ایم سیکریٹریٹ اور سپریم کورٹ کے اطراف اسپیشل برانچ اور پولیس کے سادہ لباس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

سپریم کورٹ نے کیا فیصلہ دیا؟
واضح رہے کہ جمعرات 7 اپریل کو سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کو بحال کر دیا، تمام وزیر اپنے عہدوں پر بحال ہو گئے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے پانچ صفر سے متفقہ فیصلہ سنا دیا۔

سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ آئین کے خلاف قرار دے کر کالعدم کر دی، وزیرِ اعظم عمران خان کی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھی مسترد کر دی۔


سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ وزیرِ اعظم آئین کے پابند تھے، وہ صدر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس نہیں کر سکتے تھے، قومی اسمبلی بحال ہے، تمام وزیر اپنے عہدوں پر بحال ہیں، اسپیکر کا فرض ہے کہ اجلاس بلائے۔

عدالتِ عظمیٰ نے اسپیکر کو قومی اسمبلی کا اجلاس فوری بلانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ 9 اپریل کو صبح 10 بجے سے پہلے پہلے تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی جائے۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دوران کسی رکنِ قومی اسمبلی کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکا نہیں جائے، تحریکِ عدم اعتماد کا عمل مکمل ہونے تک اجلاس مؤخر نہیں کیا جا سکتا۔
https://jang.com.pk/news/1072248
================================================