غیر پھرتا ہے لئے یوں ترے خط کو کہ اگر کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے

وزیراعظم تقریر کی میں بند خط اور کھلا پیغام
منگل 29 مارچ 2022ء کویت (طارق اقبال ) یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان اگر اپنے آپ کو آزاد اور خود مختار رکھے تو اس کے جوہر جلا پاتے ہیں آپ کسی پر انحصار کریں گے تو اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں سے غافل ہو جائیں گے۔میں بات کو ثقیل نہیں بنانا چاہتے۔ بس اشارہ کافی ہے۔مندرجہ بالا اشعار کے ساتھ ایک اور شعر شامل کروں گا کہ موضوع کے ساتھ مناسبت پیدا ہو جائے ان خطوں کو کہیں دریا میں بہایا ہوتا۔اس طرح خود کو جلانے کی ضرورت کیا تھی بات یہ ہے کہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں جو خط لہرایا اس پر دوستوں نے اشعار بھیجنے شروع کر دیے۔کراچی سے عقیل عباس جعفری کو غالب یاد آئے: غیر پھرتا ہے لئے یوں ترے خط کو کہ اگر۔کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے بہرحال پھر سے ایک خط دیر تک زیر موضوع رہے گا۔ظاہر ہے اس واقعہ کی مطابقت ذوالفقار علی بھٹو سے تو بنتی ہے۔فرق ظاہر ہے کہ انہوں نے واشگاف الفاظ میں بتا بھی دیا تھا ۔ہم مگر اس پر کچھ نہیں کہیں گے کہ ہمیں تو قطری خط بھی یاد آیا کہ اسے بھی بہت رگیدا گیا تھا اور پھر ایک اور خط بھی تھا جسے لکھوانے کے لئے ایک چیف جسٹس نے کیا کیا جتن نہ کئے تھے۔میمو گیٹ سکینڈل بھی آپ کے ذہن میں ہو گا۔مجھے تو جواز جعفری کی کتاب خطوں میں دفنایا ہوا جیون۔بھی یاد آئی۔غالب نے تو ایک اور جگہ مزے کا شعر کہا کہ: خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے دل کہتا کہ سرپرائز کچھ اور تھی جو دی نہ جا سکی۔وگرنہ خط تو ایک سربستہ راز ہی ہے۔یہ بات تو زبانی ہو سکتی تھی۔ عوام پر تو انحصار کسی نے بھی نہیں کیا۔ایسا وقت آتے آتے رہ جاتا ہے ہاں مگر ایک بات ضرور ہے کہ جس کا پورے فسانے میں ذکر ہی نہیں ہے۔ اس جانب ارشاد احمد عارف صاحب دلیل بنا کر اشارہ کیا کہ یک بیک ن لیگ اور پیپلز پارٹی باہم شیر و شکر ہو جانا ہے۔ سب تو نہیں۔ہاں وزیراعظم نے قاتل و مقتول کےا ایک ہونے کی بات کی اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حکومت کی خارجہ پالیسی بہتر رہی مگر سی پیک کے معاملے میں جھجکتے رہے اور پھر دوسرے بلاک میں جانے کی ایک کوشش بھی ضرور کی۔ یہی وزیراعظم کا اصلی جرم ہے مسئلہ تو سارا داخلی سازش کا ہے عوام کو ریلیف نہ ملا یہ تو بس بہانہ ہے۔ عوام کے لئے تو سب سراب ہی ہے: جاگتی آنکھ سے کتنے خواب دیکھتے دشت پار کر گئے ہم سراب دیکھتے آپ نے تو کبھی غور ہی نہیں کیا کہ جو چراغ آپ کو تھمایا گیا تھا اس کا تیل ان کے پاس نہیں تھا۔چلیے یہ تو سوچ لیتے کہ پرائے لوگوں کے سہارے آپ اپنا مشن کیسے پورا کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ اپوزیشن والے اگر پامال اور کہنہ طریقہ کار کو اختیار نہ کرتے اور کچھ روز ٹھہر جاتے تو نظریاتاپوزیشن کو بہت بلند کر دیتے۔ آپ اکثریت لے کر آتے۔ بوڑھا بڑی مچھلی پکڑنے میں کامیاب ٹھہرتا ہے۔اسے اپنی کشتی کے ساتھ باندھ کر کھینچتا ہے مگر ساحل تک پہنچتے پہنچتے چھوٹی چھوٹی مچلیاں بڑی مچھلی کو سمندر ہی میں کھا لیتی ہیں محاورہ تو یہی ہے کہ بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہیں مگر بڑی مچھلی مر جائے تو چھوٹی مچھلیاں بھی منہ کھولتی ہیں ایسے ہی ایک شعر یاد آ گیا: نظرانداز کیا میں نے بھی اس دنیا کو اور دنیا نے بھی پھر قرض اتارے سارے جو بھی ہومشکل میں ہیں ۔لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ وزیراعظم کو تقویت دینے کے لئے ہر نسخہ آزمایا گیا مگر وہ معیشت کو نہیں سنبھال سکے۔یہ وقت بھی کورونا کے سہارے نکل گیا اسد عمر اسی کی لہریں گنتے رہے۔ ایک بات تو آپ کو ماننا پڑے گی کہ وزیراعظم نے اپوزیشن کے اندازوں اور امیدوں پر پانی پھیر دیا وزیراعظم سمجھداری کا مظاہرہ کر گئے اور معاملے کو خط تک ہی رہنے دیا ویسے تو یہ خط کا زمانہ بھی نہیں۔سب کچھ ہاٹ لائن پر ہو جاتا ہے مگر یہ ہاٹ لائن بھی تو ٹھنڈی پڑی ہے جو لوگ آنکھیں رکھتے ہیں وہ سب کی کارکردگی بھی دیکھتے ہیں۔ کارکردگی چھپتی ہی نہیں۔میں اکثر پرویز الٰہی صاحب کی مثال دیتا ہوں’ اگر خان صاحب پرویز الٰہی پر ہی اعتماد کر لیتے تو ان کی نیک نامی میں اضافہ ہوتا۔ کم از کم سرائیکی صوبہ ہی بنا جاتے سب کو آخری وقت میں صوبہ نہ جانے کیوں یاد آتا ہے بات دہرانے سے بھی کیا ملے گا خط پر ایک اور شعر یاد آ گیا: میں نے خط لکھ کے ان کو بلایا کہ آ کے قاصد نے دکھڑا سنایا ان کے پائوں پر مہندی لگی ہے آنے جانے کے قابل نہیں ہے
===============================================