فخر پاکستان سعدیہ نواز عزیزی اپنی مثال آپ زندگی کے نشیب و فراز بھی اِن کا بلند عزائم کے راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔۔

فخر پاکستان سعدیہ نواز عزیزی اپنی مثال آپ زندگی کے نشیب و فراز بھی اِن کا بلند عزائم کے راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔۔
۱۹۹۵ میں تعلیم مکمل کی آٹھویں جماعت میں تھی والد دنیا فانی سے کوچ کر گئے والدہ کا ساتھ بھی دوران تعلیم چھوٹ گیا ۔۔سعدیہ نے جیوے پاکستان سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مزید بتایا کہ انہوں نے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد تدریس کے شعبے کو باقاعدہ اپنایا ۔ سعدیہ کا شمار ان با اعتماد اور بلد حوصلہ اشخاص میں ہوتا ہے جو آگے بڑھنے کی جستجو اور اپنی قوم کے لئے کچھ کر جانے کا عزم رکھتے ہیں ۔انہوں نے تعلیم جاری رکھی بے ایڈ مکمل کر کے بچوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ۔
سعدیہ شہر کراچی کے کافی مشہور درس گاہوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہی ۔جابجا مختلف اداروں میں انُکو لیکچرز کے لئے مدعو کیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ کہا نی گھر کے نام سے سوشل میڈیا پر ایک پیج بنایا جو کہ خصوصی طور پر نو نہالوں کے لئے ایک بہترین ادارے کی مانند کام کر رہا ہے۔ دو سال پہلے جب کرونا وبا کی ابتدا تھی ان دنوں میں تعلیمی درس گاہیں بند تھی اور مستقبل کے معمار گھروں میں محصور تھے اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کو زندہ رکھنا اور ان کو علم کی روشنی سی محروم نا ہونے دینےکا سہرا بھی کہانی گھر کی بانی محترمہ سعدیہ کو جاتا ہے ۔ سعدیہ نے نا صرف عام بچوں کے لئے کام کیا بلکہ خصوصی بچوں کو بھی اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور ان کے لئے بھی ورک شاپس ،قصہ گوئی اور دیگر سرگرمیاں کرواتی رہی ہیں ۔
ایک استاد، اطالیق ہونے کے ساتھ ساتھ وہ باقاعدہ تربیت یافتہ NLP کوچ بھی ہیں اور ایک بین الاقوامی سطح پر متحرک این جی او سے منسلک ہیں جیوے پاکستان سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سعدیہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ معاشرتی برائیوں سے اگر بچوں کو بچانا ہے تو والدین کو تربیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ معاشرے کے منفی عناصر سے ان کے حفاظت کر سکیں بچوں کو ہر چیز کے اچھے اور برے پہلوں سے روشناس کرا کے ہی ہم اُن کی ایک مضبوط شخصیت بنا سکتے ہیں اور انکو معاشرے کی برائیوں سے محفوظ کر سکتے ہیں ۔ایک عورت کے لئےبغیر مرد کے سہارے بہترین معاشرے کی تکمیل ممکن ہے ؟ کے سوال کی جواب میں محترمہ سعدیہ کا کہنا تھا کہ یہ ایک معاشرتی کمزوری ہے جس پر کام کرنا ضروری ہے۔کیونکہ ہمارے معاشرے میں کچھ فرسودہ روایات ابھی تک زندہ ہیں جس کی وجہ سے ایک مضبوط کردار کی تعلیمی یافتہ عورت اپنے گھر کی حد تک تو اپنے اصلاحات متعارف کرا سکتی ہے لیکن مجموعی اور معاشرتی طور پر اُس کی مضبوطی کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور یہ ایک المیہ ہے۔
محترمہ سعدیہ مستقبل کے معماروں کے لئے جس طرح پر عزم ہیں اور ان کے مستقبل کو روشن بنانے میں مصروف ہیں یہ عملُ یقینا قابل ستائش ہے۔بچوں اور بڑوں پر یکساں طور پر خود اعتمادی پیدا کرنے اور ان کی صلاحیتوں کو ابھارنے کا جو بیڑہ انہوں نے اٹھایا ہے دعا ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہوں امین
لینا خان