ادویات سازی کے لئے خام مال کی درآمد پر عائد کیے گئے 17 فیصد اضافی قابل ریفنڈ سیلز ٹیکس کے اثرات پر پاکستان فارما سوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے نائب چیئرمین عاطف اقبال کی جیوے پاکستان کے لیے محمد وحید جنگ سے خصوصی گفتگو ۔

حکومت کی مالی مشکلات اور آئی ایم ایف کی شرائط کے ساتھ آنے والے دنوں میں پاکستان کے مختلف سیکٹرز پر جو اضافی بوجھ پڑنے والا ہے اس کے بارے میں سبھی لوگ فکرمند ہیں پاکستان فارما سوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن بھی اس حوالے سے صورت حال کا بغور جائزہ لے رہی ہے اور 17 فیصد اضافی قابل ری فنڈ سیلز ٹیکس عائد کئے جانے کے فیصلے کو ایک غیر حقیقت پسندانہ فیصلہ سمجھا جارہا ہے اور اس کی مخالفت کی جارہی ہے

پاکستان فارما سوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین عاطف اقبال کی پاکستان میں ادویات سازی کے معاملات پر گہری نظر ہے -وہ پاکستان میں فارما سیکٹر کے بارے میں وسیع تجربہ اور معلومات رکھتے ہیں

اس حوالے سے پی پی ایم اے کے وائس چیئرمین عاطف اقبال نے جیوے پاکستان کے لیے محمد وحید جنگ سے خصوصی گفتگو کی اور اس پورے مسئلے کا جائزہ لیتے ہوئے مسائل کی نشاندہی بھی کر دیں اور اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بظاہر آئی ایم ایف کی شرائط اور دباؤ کی وجہ سے حکومت فارما سیکٹر پر بھی اضافی بوجھ عائد کر رہی ہے جس کی ضرورت نہیں تھی فارمیسی ڈاکٹر کو کہا گیا ہے کہ آپ اپنی ادویات سازی کے لئے باہر سے جو را مٹیریل منگواتے ہیں اس پر 17 فیصد اضافی سیلز ٹیکس جمع کروا دیں اور ہمیں حساب دیں کہ کتنی پروڈکشن ہوئی ہے اور کتنی سیلز ہوئی ہے جب آپ حساب دے دیں گے تو جتنی سیل ہوگی اتنا سیلز ٹیکس آپ کو ریفنڈڈ کر دیا جائے گا سال کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن فارما سیکٹر اچھی طرح سمجھتا ہے کہ پاکستان میں ریفنڈ کلیم کرنا کتنا بڑا مشکل مرحلہ ہے اور اتنا عرصہ 17 فیصد کے مساوی بڑی رقم بلاک ہو جائے گی جس کی واپسی بھی آسان نہیں ہوگی کرپشن کا ایک نیا گیٹ کھل جائے گا ۔حکومت کو تجویز دی گئی تھی کہ اگر آئی ایم ایف کا بہت زیادہ دباؤ ہے تو پانچ فیصد اضافی سیلز ٹیکس لگا لیں اور سارے کا سارا اینڈ یوزر پر شفٹ کر دیں لیکن حکومت 17فیصد پر بضد رہی اب بھی ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ 17فیصد آپ مکمل طور پر اینڈ یوزر پر لے جائیں اور وصول کرلیں لیکن حکومت مخمصے کا شکار ہے بظاہر وہ عوام پر ذاتی وہ ڈالنے سے گریزاں ہے اور یہ نہیں سوچ رہی تھی کہ باہر سے خام مال منگوانے والی کمپنیاں چلانے والے بھی پاکستانی عوام ہیں دیگر شعبوں پر سترہ فیصد سیلز ٹیکس لگا رہے ہیں تو ادویات پر بھی اتنا ہی کیوں لگا رہے ہیں ؟ اس بارے میں حکومتی لوگوں کا کہنا ہے کہ یکساں پالیسی رکھنی ہے آئی ایم ایف کا کہنا ہے ۔لیکن ادویات سازی تو جان بچانے کی ادویات سے جڑا ہوا معاملہ ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ جس کی جیب جتنی اجازت دیتی ہے وہ اتنی مہنگی دوائی خریدے ۔مریض کوئی بھی ہو اسے دوائی ملنی چاہیے ۔ پاکستان جیسے ملک میں جس کے لیے پہلے ہی بھارت سے ادویات منگوانے پر پابندی لگ چکی ہے اگر خام مال منگوانے کے کام کو بھی مہنگے سے مہنگا کر دیا جائے گا تو پھر یہ ادویات متاثر ہوگی جس کے معیشت پر اور صحت پر اثرات آئیں گے اگر خام مال مہنگا ہوگا تو پھر باہر سے دوائی منگوانے پڑے گی جو بعد میں اور بھی مہنگی پڑے گی ۔ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں پہلے ادویات کے لیے سیلز ٹیکس کا سسٹم نہیں تھا البتہ ان کا ایک سے لیکر مینوفیکچرنگ پر جتنا ٹیکس اور ڈیوٹی تھی وہ مل رہی تھی اب آئی ایم ایف کے دباؤ پر انہوں نے مختلف شعبوں پر اضافی سیلز ٹیکس لگایا اور ادویات پر بھی لگا دیا لیکن پاکستان میں دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں ادویات کی قیمت نہیں بڑھ سکتی کیوں کہ ادویات کی قیمتوں کا تعین کرنے کے لئے ایک الگ ادارہ ڈریپ موجود ہے ادویہ سازی کی فیکٹری لگانے سے لے کر نہیں ادویات کی منظوری لینے تک اور پھر ادویات کی لاگت کا تخمینہ لگانے سے ان کی قیمت کا تعین کرانے تک ایک بہت لمبا چوڑا طریقہ کار ہے جس میں کافی وقت صرف ہوتا ہے کافی پلاننگ کرنے کے بعد جب کوئی سرمایہ کاری کرتا ہے اور اپنی لاگت اور قیمت کا تعین کرتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ چھ مہینے یا سال بعد جو اندازے لگائے گئے ہوتے ہیں وہ مارکیٹ کے مطابق نہیں رہتے کیوں کہ یہاں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر یکدم گر جاتی ہے ایسے میں کوئی چھ مہینے یا سال پہلے کسی شے کی قیمت کا تعین بالکل درست درست کیسے کر سکتا ہے ایک اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے اور وہ اکثر غلط ثابت ہو جاتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح بجلی چوری کی قیمت بھی بجلی کا بل ادا کرنے والوں سے وصول کی جا رہی ہے یہی معاملہ اب پاکستان میں رجسٹرڈ ادویات ساز کمپنیوں کے ساتھ ہو رہا ہے ان پر مزید اضافی سیلز ٹیکس کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے اور لفظ مافیا سب نے سیکھ لیا ہے ہر کوئی مافیا مافیا کی رٹ لگائے بیٹھا ہے حالانکہ معافی تو وہ ہے جو بغیر رجسٹر کمپنیاں ادارہ چلا رہے ہیں اور نقلی مال بیچ رہے ہیں ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں اور ان سے جو نقصان ہورہا ہے وہ نقصان بھی ٹیکس جمع کرنے والے ادارے ہم سے وصول کرنا چاہتے ہیں اب ادویات سازی میں رجسٹرڈ کمپنیوں کہا جا رہا ہے کہ اپنے ڈسٹری بیوٹر سے بھی ٹیکس دلائیں حالانکہ ایف بی آر نے ڈریپ سے تمام ڈسٹری بیوٹرز کی تفصیلات حاصل کر رکھی ہے پھر ان کے معاملات ایف بی آر خود ہینڈل کرے اس میں کسی اور کو پریشان کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔
ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ آئندہ اجلاس میں ہم اس بات پر غور کریں گے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر حکومت کیا توقع رکھتی ہے کہ وہ 17فیصد اضافی سیلز ٹیکس لگا کر ہمارے سیکٹر سے مزید کتنا پیسہ جمع کرنا چاہتی ہے اور حکومت کے لوگوں کا اس حوالے سے کیا انداز ہ ہے۔

آخر میں انہوں نے بتایا ہے کہ حکومت سیلز ٹیکس کے حوالے سے کہہ رہی ہے کہ فارما فاسٹ کے نام سے ایک ہفتے کے اندر نئے رولز بنائے جائیں گے جبکہ ایسوسی ایشن Associationکی جانب سے ہمارا یہ کہنا ہے کہ نئے رولز بنانے سےپہلےمشاورت کرلی جائے اور مشاورت بامعنی اور بامقصد ہونی چاہیے صرف ملاقات کا نام مشاورت نہیں ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر ہم سے جن ڈسٹریبیوٹرز کی تفصیلات مانگ رہی ہے ان کا ریکارڈ پہلے ہی ڈریپ کے پاس موجود ہے اور تمام ڈسٹری بیوٹرز رجسٹر ڈ ہیں اور ان کا ریکارڈ ایف بی آر کو بھی مل چکا ہے اب اس کے علاوہ جو بھی تفصیل اور جو بھی ریکارڈ چاہیے اس کے لیے زبانی باتیں نہ کی جائیں بلکہ تحریری طور پر آگاہ کیا جائے غیر ضروری اور غیر تحریری شرائط اور فرمائشیں آ رہی ہیں ان کا کوئی فائدہ نہیں ۔ عوام کو اصل حقائق اور اصل بات معلوم ہونی چاہیے کہ اضافی ٹیکس لگانے سے کسی دوائی کی قیمت میں کمی نہیں آنے والی ۔ عوام کو صاف بات بتانی چاہیے گمراہ نہیں کرنا چاہیے ۔ ادویات سازی پر پہلی مرتبہ سیلز ٹیکس لگانے والوں کو پہلے اس کا تجربہ نہیں ہے اس لئے وہ خود بھی واضح نہیں کر پا رہے کہ وہ کتنا پیسہ جمع کرنا چاہتے ہیں اور کس طرح کریں گے ۔ آئندہ منگل کے روز ہم اپنی میٹنگ میں ان سب باتوں پر بات کریں گے ۔ وہاں یہ فیصلہ ہوگا کہ اس سیلز ٹیکس کو ادویات پر واپس لیا جائے اگر بہت ضروری ہے تو پھر اسے اینڈ یوزر پر اپلائی کیا جائے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ایک ادارہ نہیں ہے جس سے بات کی جائے ٹیکس لگانے والا ادارہ کوئی اور ہے قیمت بڑھانے والا ادارہ کوئی اور ہے ریفنڈ کرنے والا ادارہ کوئی اور ہے ۔اگر ایک جگہ سب باتیں ہو رہی ہوں تو مسائل آسانی سے حل ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ڈریپ ادویات ساز کمپنیوں سے آر اینڈ ڈی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے نام پر ایک فیصد رقم لیتی ہے اس میں اربوں روپے جمع ہوچکے ہیں وہ پیسے کہاں خرچ ہوتے ہیں اس کے بارے میں بھی تفصیلی طور پر اور تحریری طور پر ہمیں بتانا چاہیے ورنہ ہم کہتے ہیں کہ اس پیسے سے کوئی سرکاری ہسپتال ہی بنا دیں تاکہ عوام کا بھلا ہو ۔