ڈنگا ٹپاؤ سسٹم ۔۔۔۔۔۔اور شہروں کی تباھی

تحریر ۔۔۔۔شہزاد بھٹہ
===========
ٹی اینڈ ٹی آبپارہ ھاوسنگ سوسائٹی اور گرین ایکٹرز ھاوسنگ سوسائٹی کی مین دو رویہ سڑک پر دو مہینے پہلے سیوریج پائپ بچھانے کا کام شروع کیا گیا ٹھیکدار کے بندوں نے سڑکیں کھودیں دو تین فٹ کے پائپ بچھائے گئے اور پھر اوپر مٹی ڈالی، نوٹ بنائے اور تقسیم کر کے اپنے گھر کو چلے گئے اوپر بارش ھوئی زمین بیٹھ گئی بڑے بڑے گڑھے بن گئے بارشی پانی کھڑا ھونے سے رھائشیوں کو مشکلات درپیش آرھی ھیں پیدل چلنا محال ھو چکا ھے گاڑیاں گڑھوں میں پھنس رھی ھیں بنانے والے اور بنوانے والے پیسے کما کر مزے سے سو رھے ھیں اصولا تو ٹاؤن پلاننگ اصولوں کے مطابق یہ ھونا چاھیے تھا کہ جیسے ھی سیوریج پائپ بچھانے کا کام مکمل ھوا سڑک کو اسی کی اصل حالت میں لانا چاھیے تھا ایسی مثالیں آپ پورے ملک میں اپنے اردگرد دیکھ سکتے ہیں مگر سب آنکھیں بند کئے زندگی گزارنے پر ھی راضی خوشی ھیں کیونکہ کسی کو اپنے حقوق کا پتہ ھی نہیں ھے کہ یہ تو ترقیاتی منصوبوں کے نام سے ڈرامے ھورھے ھیں وہ ھمارے اپنے پیسوں سے ھی ھورھے ھیں اور ان کو چیک کرنا بھی ھم سب کی اجتماعی زمہ داری ھے ھماری بدقسمتی ھے کہ یہاں درست بندہ درست جگہ پر کام نہیں کر رھا
( write Man is not on write job)
بس ھر جگہ ڈنگا ٹپاؤ سسٹم چل رھا ھے بلکہ ھماری پوری زندگی ھی اسی سسٹم کے تحت گزر رھی ھے کہ آج گزر جائے کل دیکھی جائے گئی کوئی بھی شہر ٹاؤن دیہات وغیرہ آباد کرنے کے لیے ٹاؤن پلاننگ سائنس کے اصولوں پر عمل کرنا بہت ضروری ھے مگر بد قسمتی سے ھمارے ملک میں فیصلہ کرنے والوں کو ٹاؤن پلاننگ سائنس کی ایف بے کا بھی پتہ نہیں بس ایم اے کریں سی سی ایس کا امتحان پاس کریں پھر آپ ھر مضمون اور فیلڈ کے ماھر ھو جاتے ھیں چاھے وہ ایجوکیشن ھو صحت ھو زراعت یا ٹاؤن پلاننگ یا دنیا کا کوئی بھی مسلہ ھو ٹیکنوکریٹ کی کوئی سنوائی نہیں ھوتی بس اے سی ڈی سی کمشنر سیکریٹری صاحب ھی اول و آخر ھوتے ھیں ھر شعبے کے ماھر تصور کئے جاتے ہیں ان کا فیصلہ آخری تصور کیا جاتا ھے یہی وجہ ھے کہ سرکاری ادارے دن بدن تباھی کی طرف ھی گامزن ھیں
دنیا بھر کے ممالک میں جب بھی کوئی ٹاؤن یا شہر بسائے جاتے ہیں ٹاؤن پلاننگ کے اصولوں پر عمل کیا جاتا ھے ھر شہر، ٹاؤن یا میونسپل کونسل کی سطح پر ٹاؤن پلاننگ آفیسر کی تعیناتی ھوتی ھے اور اسی کی اجازت یا ہدایت پر کسی بھی جگہ کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع کیا جاتا ھے اس لیے مستقل بنیادوں پر کوئی کام کرنے کے لیے ٹاؤن پلاننگ سائنس کے ماھرین کی اشد ضرورت ھوتی ھے ٹاؤن پلاننگ کا مطلب ہے کہ ایک مخصوص احاطے کا بہتر استعمال کیسے کیا جائے۔ ایک ٹاؤن، ایک شہر ایک مقررہ اراضی پر بسایا جاتا ہے۔ وہ زمین کچھ مخصوص وسائل اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتی ہے، اور رہنے والوں کو اُن وسائل کا بہتر استعمال مقصود ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک پلان ضروری ہوتا ہے تاکہ کوئی بھی جب اس زمین پر رہے تو وہ تمام تر وسائل کا بہتر استعمال کرسکے۔ یہ ہم پر ہے کہ ہم کسی شہر میں کیسے آباد ہوتے ہیں۔ آیا ہم ایک پلان کے تحت، ایک سوچ کے تحت وہاں آباد ہوتے ہیں يا ہم ایسے آباد ہوتے ہیں کہ شہر ایسا منظر پیش کرے کہ جس کا جہاں دل کیا وہ وہاں آباد ہوگیا۔ کہتے ہیں جب آپ ایک پلان بنانے میں ناکام ہوجائیں تو دراصل آپ ناکام ہونے کا پلان بنا چکے ہوتے ہیں، لہٰذا پلاننگ نہایت ضروری ہے کوئی بھی شہر یا ٹاؤن یا دیہات آباد کرنے سے پہلے زیر زمین بنیادی سہولیات کی مستقل طور پر فراھمی یقینی بنانے کی ضرورت ھوتی ھے صاف پانی کی فراہمی ، بارشی و گندے پانی کی سیوریج پائپ لائن ، بجلی سڑکیں گلیاں اور اس کے ساتھ سکولز کالجز ، ہسپتال، پارک سڑکیں گلیاں مارکیٹ و مختلف اشیاء کی منڈیاں، ریلوے اسٹیشن، بس اڈے وغیرہ مسقبل کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ھوئے بنائے جاتے ھیں تاکہ آنے والے پچاس ساٹھ سالوں تک کسی تبدیلی کی ضرورت پیش نہ آئے۔
ایک بات جس کا خاص طور پر خیال رکھنے کی ضرورت ھوتی ھے کہ روزمرہ استعمال ھونے عوامی مقامات یعنی ریلوے اسٹیشن،ٹرانسپورٹ اڈے مختلف اشیاء کی منڈیاں سکولز کالجز ہسپتال اور مارکیٹ وغیرہ کسی بھی شہر یا قصبہ یا ٹاؤن میں مرکزی مقام پر ھونے چاھیے تاکہ تمام رہنے والوں کےلئے رسائی آسان ھو اور وہ باآسانی ان عوامی مقامات پر پہنچ سکیں ترقی یافتہ ممالک میں جب بھی کوئی ٹاؤن بسایا جاتا ھے تو ان اشیاء کا خصوصی طور خیال رکھا جاتا ھے اور اس مقصد کے لیے وھاں ٹاؤن پلاننگ آفیسر کو مرکزی حیثیت حاصل ھوتی ھے وھی کسی ایسے منصوبے کی اجازت دیتا ھے
ڈنگا ٹپاؤ سسٹم اور ٹاؤن پلاننگ سائنس سے لاعلمی کی وجہ سے پاکستان کے شہر خصوصاً کراچی لاھور حیدر آباد پشاور راولپنڈی ملتان فیصل آباد گوجرانولہ سیالکوٹ کوہٹہ گجرات وغیرہ آج بے شمار مشکلات و مسائل کا چکر ھیں رھائشی علاقے کمرشل علاقوں میں تبدیل ھو رھے ھیں تین تین چار کنال کی کوٹھیوں کو گرا کر بڑے بڑے ملٹی بلڈنگز / پلازے بنائے جارھے ھیں حتی کہ لینڈ مافیا نے گندے نالے پبلک پارک کو بھی نہیں چھوڑا جس سے سب شہروں میں مسائل ھی مسائل پیدا ھو چکے ھیں ذرا سی بارش ھو جائے تو گلی محلے سڑکیں ڈوب جاتی ھیں خاص طور برسات کے موسم میں تو بڑے بڑے پوش علاقے میں سیلابی صورتحال سے دوچار ھو جاتے ھیں کیونکہ جب ھمارے ایل ڈی اے / کے ڈی اے والے یا کارپوریشن کے افسران ان پلازوں کی اجازت دیتے ہیں تو اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ پہلے تو کوٹھی میں چند بندوں کے استعمال کرنے کے سیوریج بنایا گیا تھا مگر اسی جگہ پلازہ تعمیر ھونے سے اس میں ھزاروں افراد آجائیں گئے جن کے موجودہ سیوریج ناکافی ھے ھونا تو یہ چاھیے کہ پہلے پلازے بنانے کو کہا جائے کہ اپنے پلازے کے لیے بڑا سیوریج بنوائیں پھر بلڈنگ کی تعمیر شروع کریں مگر کیا کریں کہ اجازت دینے والوں نے ٹاؤن پلاننگ نامی سائنس کبھی دیکھی ھی نہیں دوسرا پلازہ بناتے وقت اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا ھے کہ جو جدید تعمیرات کی جارھی ھیں وہ ھمارے موسمی حالات سے مطابقت نہیں رکھتیں بالکل ساری نئی بلڈنگز بلکل بند رکھی جاتی ھیں اور بند عمارتوں میں ھزاروں ائیر کنڈیشنر لگائے جاتے ہیں جو تقریباً دس مہینے چلتے ہیں اور خطرناک اثرات والی گیسز خارج کرتی ھیں جو ماحول کو تباہ کرنے کے ساتھ انسانی صحت کے لیے بھی مضر اثرات مرتب کرتیں ھیں اور سردیوں میں یہی گیسز نیچے آکر سموگ کا باعث بنتی ھیں
انگریز نے جب برصغیر پاک و ہند میں نئے شہر بنائے تو ٹاؤن پلاننگ کے اصولوں کو مدنظر رکھا تمام عوامی مفاد کے مقامات کسی بھی شہر کے درمیان میں بنائے تاکہ شہر میں رہنے والے تمام لوگوں کی اپروچ میں رھیں اس کے لئے آپ کسی بھی پرانے شہر جو انگریز دور میں بنائے گئے ان کا جائزہ لے سکتے ہیں اور پھر دیسی انگریز آگئے تو عوامی مفاد کی اشیاء بس اڈے مختلف اشیاء کی منڈیاں سکولز کالجز شہروں سے باھر نکل دیئے جس سے صرف اس طرف کے رہنے والے افراد کو ھی فائدے ھوئے جہان پر مفاد عامہ کی اشیائ شفٹ کی گئی باقی پورے شہر میں رہنے والوں کے مشکلات ھی مشکلات ۔۔۔۔مثال کے طور سبزی منڈی پھل منڈی و دیگر سہولیات باھر کہیں شفٹ کر دی جس سے اشیاء کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئی جن کا بوجھ غریب عوام پر پڑتا ھے ان باتوں کے پیش نظر حکومت کو چاھیے کہ ھر شہر ھر ٹاؤن اور ھر دیہات میں ٹاؤن پلاننگ آفیسر کو بااختیار بنایا جائے اور ان کی مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی تعمیراتی کام نہ کیا جائے جو ھر قسم کے حکومتی یا سیاسی پریشر کے بغیر کام کریں اور سی ایس ایس والوں کو دیگر انتظامات دئیے جائیں نہیں ایک دن آئے گا کہ آپ کے شہر ڈوب جائیں گئے بلکہ سیلاب میں پہلے ھی ڈوب جاتے ھیں