ریلوے کسی بھی ملک کی معاشی و معاشرتی ترقی میں اھم کردار ادا کرتی ھے جبکہ پاکستان ریلویز بدحالی کا شکار

تحریر ۔۔شہزاد بھٹہ

=====================

دنیا بھر میں ذرالع امدورفت کا سب سے اھم محفوظ ارام دہ سستا اور تیز رفتار ذریعہ ریلوے تصور کیا جاتا ھے خاص طور پر سامان کی نقل و حرکت ریلوے کے ذریعے کی جاتی ھے اور یہ ریلوے کی امدن کا مین ذریعہ ھوتا ھے جب انگریز برصغیر میں ائے تو اپنے ساتھ ریلوے کا وسیع نیٹ ورک بھی لائے جو پورے ملک میں پھیلایا گیا جن سے یہاں کے مقامی افراد کو بے پناہ فوائد حاصل ھونے کے ساتھ ساتھ طویل فاصلے بھی سمیٹ گئےخاص طور پر ارمی کی نقل و حرکت بھی ریلوے کے ذریعے ھی ھوتی ھے ۔
موجودہ پاکستان میں ریلوے کا آغاز 13 مئی 1861ء میں ہوا جب کراچی سے کوٹری 169 کلومیٹر ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔ 24 اپریل 1865ء کو لاہور – ملتان ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ 6 اکتوبر 1876ء کو دریائے راوی, دریائے چناب اور دریائے جہلم پر پلوں کی تعمیر مکمل ہو گئی اور لاہور – جہلم ریلوے لائن کو کھول دیا گیا۔ 1 جولائی 1878ء کو لودهراں ، پنوعاقل 334 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔ 27 اکتوبر 1878ء کو دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر کوٹری سے سکھر براستہ دادو اور لاڑکانہ ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ رک سے سبی تک ریلوے لائن بچھانے کا کام جنوری 1880ء میں مکمل ہوا۔ اکتوبر 1880ء میں جہلم – راولپنڈی 115 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ 1 جنوری 1881ء کو راولپنڈی – اٹک کے درمیان 73 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کو کھول دیا گیا۔ 1 مئی 1882ء کو خیرآباد کنڈ – پشاور 65 کلومیٹر طویل ریلوے لائن تعمیر مکمل ہو گئی۔ 31 مئی 1883ء کو دریائے سندھ پر اٹک پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پشاور – راولپنڈی سے بذریعہ ریل منسلک ہو گیا۔
1885ء تک موجودہ پاکستان میں چار ریلوے کمپنیاں سندھ ریلوے، انڈین فلوٹیلا ریلوے، پنجاب ریلوے اور دہلی ریلوے کام کرتیں تھیں۔ 1885ء میں انڈین حکومت نے تمام ریلوے کمپنیاں خرید لیں اور 1886ء میں نارتھ ويسٹرن اسٹیٹ ریلوے کی بنیاد ڈالی جس کا نام بعد میں نارتھ ويسٹرن ریلوے کر دیا گیا۔مارچ 1887ء کو سبی – کوئٹہ ریلوے لائن کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ 25 مارچ 1889ء کو روہڑی اور سکھر کے درمیان لینس ڈاؤن پل کا افتتاح ہوا۔ اس پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد کراچی – پشاور سے بزریعہ ریل منسلک ہو گیا۔ 15 نومبر 1896ء کو روہڑی – حیدرآباد براستہ ٹنڈو آدم، نواب شاہ اور محراب پور ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔
25 مئی 1900ء کو کوٹری پل اور 8 کلومیٹر طویل کوٹری – حیدرآباد ریلوے لائن مکمل ہو گئی۔ اس سیکشن کے مکمل ہو جانے کے بعد پاکستان ریلویز کی کراچی – پشاور موجودہ مرکزی ریلوے لائن بھی مکمل ہو گئی۔
نارتھ ويسٹرن ریلوے کو فروری 1961ء میں پاکستان ويسٹرن ریلوے اور مئی 1974ء میں پاکستان ریلویزمیں تبدیل کر دیا گیا۔ وقت وقت کے ساتھ دیسی حکمرانوں اور ملازمیں نے ریلوے کا بیڑہ غرق کردیا ٹینکر مافیا نے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے ریلوے ملازمین کے مل کر کیراج تباہ و برباد کر دی اور سارا بوجھ سڑک پر ڈال دیا۔ حالانکہ ریلوے ذرائع امدروفت کا سستا اور محفوظ ذریعہ ھے
ھم نے ازادی کے بعد اپنے قومی ادارے تباہ و برباد کر رکھے ھیں دیگر اداروں کی طرح ریلوے تباہ حالی کا شکار ھو چکی ھے ریلوے کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں بڑا اھم کردار کرتی ھے انگریز سرکار نے برصغیر میں ریلوے کا ایک بڑا نیٹ ورک بچھایا تھا
ازادی کے بعد پاکستان میں کئی سال تک ریلوے منافع بخش اور کامیابی سے چلتا رھا ۔عوام دور اور نزدیک سفر کرنے کے لیے ریلوے کو ھی ترجیح دیتے تھے جبکہ کاروباری افراد بھی ریلوے کارگو کو ھی استعمال کرتے تھے ۔
دوسری طرف ہندوستان نے ازادی کے بعد اپنی ریلوے کو مزید ترقی دی اور اج انڈین ریلوے دنیا کا سب سے بڑا اور جدید نیٹ ورک ھے جس پر روزانہ لاکھوں کروڑوں افراد سفر کرتے ھیں اور کارگو کے لیے بھی سب سے زیادہ ریلوے پر انحصار کیا جاتا ھے انڈین ریلوے پورے ہندوستان میں ایک کامیاب سروس سرانجام دے رھی ھے انڈین ریلوے شملہ اتر پردیش جیسے نہایت بلند مقام تک ریلوے لائن کے ذریعے مسافروں کو سہولت فراھم کر رھا ھے جس سے اس کی سیاحت کو فروغ مل رھا ھے اور ھر سال لاکھوں ملکی و غیر ملکی سیاح اس سہولت سے فایدہ اٹھا رھے ھیں اور بھارت کو آمدن ھو رھی ھے اور اس کے مقابلے میں پاکستان کی بات کریں تو ریلوے پستیوں کی طرف گامزن ھے ھم آج تک مری تک ریلوے لائن نہیں بچھا سکے بلکہ انگریز سرکاری حولیاں تک ریلوے لائن بچھائی تھی مگر 72 سالوں میں ھم ایک انچ کا اضافہ نہ کرسکے حالانکہ یہ ریلوے لائن ایبٹ آباد تک جانی تھی
مگر وطن عزیز میں مافیا نے دیگر شعبوں کی ریلوے کو بھی تباہ و برباد کر دیا کئی گاڑیاں بند ھو گئیں ۔ریلوے اسٹیشن برباد اور سنیکڑوں ھزاروں میل لمبی ریلوے لائن چوری ھو گئیں ۔ریلوے کی لاکھوں ایکڑ زمینوں پر ناجائز قبضے ھو چکے ھیں فوج کے بعد سب سے بڑا محکمہ اپنوں کے ھاتھوں ھی تباھی کا شکار ھوچکا ھے اگر ریلوے اپنی زمینوں کو ھی استعمال لائے تو خسارے سے نکل سکتا ھے
حالانکہ دنیا بھر میں ریلوے ھی بہترین ذرائع امدورفت ھے دنیا نے تیز ترین ریلوے ٹرین بنا دیں ۔مگر پاکستان میں سڑک/ ٹرک مافیا نے ریلوے احکام کے ساتھ مل کر پاکستان ریلوے کا سیتا ناس کر دیا اور عام لوگ اور بزنس مین سڑک مافیا کے ھاتھوں ذلیل اور خوار ھو رھے ھیں
حکومت کو چاھیئے کہ سڑک پر بوجھ کم کر کے زیادہ سے زیادہ ریلوے کو ترقی دے نئی تیز ٹرینیں چلائے لائن کی مرمت کی جائے ریلوے اسٹیشن پر بہتر سہولیات فراھم کی جائیں جو ٹرین بند کر دی گئیں ھیں ان کو فوری بحال کیا جائے اگر ھو سکے تو پاکستان ریلوے کو کسی چینی کمپنی کے حوالے کیا جائے تاکہ اس کی بگڑی ھوئی حالت دوبارہ بحال ھو سکے
ھائی ویز اور موٹر ویز کی بجائے ریلوے پر انحصار کیا جائے موٹر ویز بنانے سے سونا اگلتی زمین تباہ و برباد ھو رھی ھے جس سے ملک مستقبل میں غذائی کمی کا شکار ھو سکتا ھے عام طور پر دیکھا گیا ھے کہ جہاں جہاں پر موٹر ویز بنائی گئی ھیں وھاں پر زرعی زمینیں تباہ و برباد ھو چکی ھیں اس کی تازہ ترین مثالیں لاھور سیالکوٹ موٹر اور لاھور ملتان وغیرہ ھیں جو نہایت زرخیز ترین زمینوں کے علاقوں میں بنائی گئی ھیں اس کے ساتھ ساتھ جب موٹر ویز بنتی ھیں تو اس کے اردگرد کی لاکھوں ایکٹر زمین کمرشل علاقوں میں تبدیل ھو رھی ھیں جہاں پر صنعتی یونٹ یا ھاوسنگ سوسائٹیز بن رھی ھیں ابھی بھی وقت ھے کہ ھماری حکومتیں اپنی ترجیحات تبدیل کریں اور پہلے سے موجود ریلوے ٹریک کو بہتر بنائے اور جدید ترین ریلوے ٹرین چلائے جیسے کہ پوری دنیا میں ھو رھا ھے اس کے ساتھ ساتھ سڑک و ٹینکر مافیا کی حوصلہ شکنی کی جائے اور تمام تر تیل کی ترسیل اور دیگر کارگو کے لیے ریلوے کو استعمال کیا جائے شکریہ