لالچ یا اصول ۔۔ طاقتور کرپٹ سسٹم یا غرور ۔۔۔۔۔آصف میمن اور ان کی اہلیہ کو کس بات کی سزا ملی ؟

حکومت سندھ نے آصف علی میمن اور ان کی اہلیہ روبینہ آصف کو اچانک ان کے عہدوں سے ہٹا دیا اور دونوں کو کوئی نئی پوسٹنگ نہیں دی گئی بلکہ محکمہ سروسز میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے کئی سالوں میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ یک جنبش قلم سے صوبائی حکومت نے کسی میاں بیوی کو ایک ساتھ ان کے عہدوں سے فارغ کر دیا ۔ایسا کیوں ہوا ؟ حالات اس نہج تک کیوں پہنچے ؟ اس حکم نامے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ کیا قصور وار خود آصف میمن اور ان کی اہلیہ ہیں ؟ کیا انہوں نے خود کوئی غلط راستہ چنا ۔۔۔۔ یا انہوں نے خود حالات ایسے پیدا کر دیئے ان کے ساتھ ایسا ہو ۔آخر ان میاں بیوی کو کس بات کی سزا مل رہی ہے ؟ اس پر سرکاری اور سیاسی حلقوں میں بحث جاری ہے ۔
سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کیا یہ لالچ کی سزا ملی ہے یا اصول پسندی کی ؟ کیا یہ کرپٹ سسٹم جو انتہائی طاقتور کرداروں پر مشتمل ہے اس کے ساتھ ٹکر لینے کا نتیجہ ہے یا غرور اور تکبر کی وجہ سے قدرت کی پکڑ ہے ؟


آصف میمن اور ان کی اہلیہ کے حوالے سے سرکاری حلقوں میں متضاد آراء سامنے آرہی ہیں ایک رائے تو یہ ہے کے صوبائی حکومت کے فیصلے کے خلاف عدالت جانے کا مطلب آ بیل مجھے مار ہے اور آصف میمن کے ساتھ یہی ہوا ہے جب صوبائی حکومت نے ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے کے عہدے پر انہیں فائز رکھا تھا اور محمد علی شاہ کو وہاں الگ ذمہ داریاں دے کر بھیجا گیا تو اسی وقت لڑائی بڑھ گئی تھی اور آصف میمن نے عدالت سے جا کر سٹے آرڈر لیا جس کے بعد صوبائی حکومت اور طاقت ور لوگ ویسے انہوں نے کھلی ٹکر لے لی

۔سرکاری افسران کا کہنا ہے کہ عدالتی سٹے آرڈر لانے کے بعد یہ بات واضح ہے کہ صوبائی حکومت ان کے خلاف ایکشن ضرور لے گی ۔جمعرات 21 اکتوبر کو جس طریقے سے آصف میمن اور ان کی اہلیہ کو عہدوں سے فارغ کیا گیا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جو کچھ ہوا وہ دیوار پر لکھا ہوا تھا اسے کوئی بھی شخص بآسانی پڑھ رہا تھا سب کو معلوم تھا اب یہی ہوگا آخر آصف میمن نے یہ احمقانہ حرکت کی کیوں ؟ بار بار تبادلہ تو بہت سے افسران کا ہوتا ہے عدالتی فیصلوں کی نظیر اپنی جگہ لیکن سندھ حکومت میں کام کرنے کا الگ ماحول ہے آصف میمن جیسا افسر اس سسٹم کو نہیں سمجھتا تو پھر کون سمجھے گا حیرت اس بات پر ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی انہوں نے عدالت جانے کا فیصلہ کیا اور سسٹم سے ٹکر لی اب اس کی سزا تو ملنی تھی ۔
کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ آصف میمن بہت تیز رفتار سے سفر کرنے کے عادی ہیں ان کے کیریئر میں ان کی گاڑی ٹاپ گیئر میں چلتی رہی ہے انہیں اپنی اسپیڈ سلو کرنے کی عادت نہیں یا ایسا کرنا پسند نہیں ۔ کم وقت میں زیادہ فاصلہ طے کرنا اور منزل کے حصول کے لیے تیز دوڑنا ان کے لیے نقصان دے ثابت ہو رہا ہے بظاہر وہ اس بات کو نہیں مانتے لیکن ان کی کارکردگی نتائج صلاحیت اور جارحانہ مزاج کی وجہ سے سندھ حکومت میں ان کی ایک مخالف لوبی بھی تیار ہوچکی ہے جہاں ان کے دوستوں کی اچھی معقول تعداد ہے وہاں ان کے مخالفین کی بہت بڑی تعداد ہے ان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ آصف میمن کا کوئی قصور نہیں اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی تھی اس لئے عدالت جانا اس کا حق تھا اور عدالت سے انصاف لیا تو

کیا برا کیا ۔صوبائی حکومت کا اقدام غصے اور انتقام پر مبنی نظر آتا ہے جس کے خلاف کورٹ بھی جایا جا سکتا ہے اگلے ہفتے سپریم کورٹ خود بھی کراچی آ رہی ہے کوئی بعید نہیں کہ یہ معاملات کراچی کی موجودہ صورت حال کی وجہ سے عدالت میں زیر بحث آ جائیں ۔دوسری طرف آصف میمن کے اچانک تبادلے پر خوشی کا اظہار کرنے والے افسران کا کہنا ہے کہ یہ تو ہونا ہی تھا آصف میمن پر پہلے تو بہت زیادہ مہربانی کی گئی ایک کے بعد ایک پرائم پوسٹنگ دی گئی ۔پھر اضافی چارج دے دیا گیا ۔کے ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل کی پوسٹنگ بغیر ایجنڈے کے نہیں تھی بلکہ سوچ سمجھ کر اس پوزیشن کو آصف میمن کے حوالے کیا گیا اور کچھ اہداف اور نتائج کا حصول ایجنڈے میں شامل تھا ۔ کے ڈی اے میں دو طاقتور لابی اور ملک اور بیرون ملک بیٹھے بااثر کردار اپنا کھیل کھیلتے ہیں ۔آصف میمن پہلے بھی کے ڈی اے میں ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں اس لیے ان کو یہاں کے حالات اور معاملات کا اچھی طرح علم تھا دوسری طرف محمد علی شاہ بھی ایک طاقتور لابی کی حمایت کے ساتھ سرکاری عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور ان کی تازہ پوسٹنگ بھی اس کی عکاسی کرتی ہے ۔سرکاری ملازمین اس بات پر ہوں زیادہ ہیں کہ ماضی میں کی ٹی آئی میں فائرنگ اور افسران کی لڑائی کے واقعات ہو چکے ہیں بات جانی نقصان تک جا پہنچی تھی اب ایک مرتبہ پھر شدید لڑائی ہو رہی ہے اور افسران اور ان کی پشت پناہی کرنے والے کھل کر رہے ہیں یہ صورتحال کے ڈی اے اور صوبائی حکومت کے لیے کسی طور پر بھی اچھی نہیں ہے سوال یہ ہے کہ سرکاری کرسی کے لئے افسران لڑ۔۔۔۔کیوں رہے ہیں؟ اگر ایک سرکاری عہدہ نہیں ملے گا تو کیا باقی سارے سرکاری عہدے ختم ہو گئے ہیں اگر ایک جگہ سے ٹرانسفر ہو جاتا ہے تو کیا کسی اور جگہ پوسٹ نہیں مل سکتی پھر اتنا جھگڑا اور اتنا تنازعہ کیوں ؟ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا کی ڈی اے کی پوسٹنگ حاصل کرنے کے لئے انویسٹمنٹ کرنی پڑتی ہے یا کرسی پر بیٹھ کر مسلسل نذرانے پیش کرنے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے ؟ آخر ڈی جی کے ڈی اے کی کرسی میں ایسا کیا ہے جو اتنی لڑائی ہو رہی ہے اور صوبائی حکومت کو فوری ایکشن لینا پڑا ؟ ذرائع کا کہنا ہے کہ کے ڈی اے میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی شکایات ہیں سرکاری زمینوں کو ٹھکانے لگانے کے لئے کروڑوں اربوں روپے کا کھیل جاری ہے اور اس کے پیچھے بہت طاقتور کردار اپنا کھیل کھیل رہے ہیں ان میں سے کچھ ملک میں اور کچھ بیرون ملک ہیں ۔ سرکاری افسران کے مطابق آصف میمن اور ان کی اہلیہ کا معاملہ اب دیگر سرکاری افسران کے لیے ایک وارننگ ہے ۔باقی افسران خود سمجھدار ہیں ۔

واضح رہے کہ آصف میمن گریڈ 20 کے افسران ہیں اور ان کو اسپیشل سیکرٹری ایجوکیشن کے عہدے سے تبادلہ کرکے محکمہ سروسز میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور ان کی اہلیہ روبینہ آصف بھی گریڈ 20 کی افسران کو مینجنگ ڈائریکٹر سندھ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے عہدے سے تبادلہ کرکے محکمہ سروسز میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی ہے ۔

اس سے قبل آصف میمن کا ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے کے اضافی چارج ختم کر دیا گیا تھا جس کے خلاف وہ عدالت چلے گئے تھے اور اس وقت عجیب صورتحال پیدا ہوگئی تھی جب کے ڈی اے کے دفتر میں دو افسران ڈائریکٹر جنرل ہونے کے دعوے دار تھے محمد علی شاہ کو صوبائی حکومت نے ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ سونپا تھا۔ بظاہر اس لڑائی میں محمد علی شاہ کا پلڑا بھاری ثابت ہوا ہے اور آصف میمن جو کچھ دن پہلے تک صوبائی حکومت کی آنکھوں کا تارا تھے اب زیر عتاب ہیں ۔ اب ان کی حکمت عملی کیا ہوگی اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں ان کا ایکشن دیکھ کرلگایا جا سکے گا ۔ فی الحال ان میاں بیوی افسران اور ان کی پشت پناہی کرنے والی لابی کو کافی بڑا دھچکا لگا ہے جبکہ محمد علی شاہ کے کیمپ میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔