ملیر ایکسپریس وے – ملیر کے خاتمے کا منصوبہ – یہاں کے ارکانِ صوبائی و قومی اسمبلی کی مجرمانہ خاموشی پر سخت تشویش کا اظہار کیا


بلوچ متحدہ محاز کے سربراہ یوسف مستی خان نے کہا ہے کہ ملیر ایکسپریس وے ترقی کا نہیں بلکہ بلڈرز مافیاز کی جانب سے سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ ہے، سندھ حکومت اگر مقامی لوگوں کو ترقی دینا چاہتی ہے تو یہاں کے لوگوں پر برائے راست سرمایہ کاری کرے اسکول، اسپتال ،کالج یونیورسٹیز اور دیگر عوامی منصوبوں پر کام کرنے سے ہی مقامی لوگوں کی ترقی ہوگی ۔ملیر ندی کراچی کے لئے آکسیجن حب ہے یہاں کنٹریکٹ کا جنگل پھیلانے سے ماحولیات کو بھی سخت نقصان ہوگا اور اگر ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر انتہائی ضروری ہے تو اس منصوبے کے روٹ کو تبدیل کیا جائے ۔ان خیالات کا اظہار یوسف مستی خان نے بلوچ متحدہ محاذ کی آرگنائزنگ کمیٹی کے اجلاس خطاب کرتے ہوئے کیا۔تفصیلات کے مطابق سربراہ بلوچ متحدہ محاز یوسف مستی خان کی صدارت میں بی ایم ایم کی آرگنائزنگ کمیٹی کے اجلاس میں ملیر ایکسپریس وے کو سندھ حکومت کی ملیر کے خاتمے کا منصوبہ قرار دیتے ہوئے یہاں کے ارکانِ صوبائی و قومی اسمبلی کی مجرمانہ خاموشی پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور منصوبے کے روٹ کو تبدیل نہ کرنے کے خلاف بھرپور انداز میں احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں متفقہ طور پر ملیر ایکسپریس وے منصوبے کے روٹ کو تبدیل نہ کرنے اور مقامی لوگوں کو جبرا بے دخل کرنے کے خلاف 31 اکتوبر 2021 کو ملیر 15 سے سلمان ٹاور تک مین نیشنل ہائے وے پر ریلی نکالنے اور احتجاجی مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔احتجاجی مظاہرے میں تمام متاثرین کی شرکت اور مختلف سماجی تنظیموں کو مدعو کرنے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ۔اس موقع پر یوسف مستی خان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے پی ایس 88 کا ضمنی انتخاب جیتنے کے لئے ملیر ایکسپریس وے منصوبے کا روٹ تبدیل کرنے کا اعلان کرکے پیپلزپارٹی نے ملیر کے عوام کو دھوکہ دیا پرانے روٹ پر منصوبے کی تعمیر کا آغاز کرنا سندھ حکومت کی بدنیتی کی واضع مثال ہیاس سنگین قومی جرم میں ملیر کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی برابر کے شریک ہیں یہاں کے لوگ اس مجرمانہ فعل میں شریک تمام زمہ داروں کو کھبی معاف نہیں کریں گیان کا مزید کہنا تھا کہ ملیر کا وجود خطرے میں ہے اس صورتحال میں مقامی لوگ زیادہ سے زیادہ متحرک انداز میں اس منصوبے کے خلاف ایک ہی صف میں کھڑے ہوں ۔

https://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/karachi/2021-10-21/page-2/detail-19