کراچی پر سیاست نہیں،،،، کچھ کرو۔۔۔(2)


محاسبہ
————
ناصر جمال
——————-

یہ شہر سمندر کے کنارے پہ ہے آباد
اس شہر میں رہنا بھی تو اوقات میں رہنا
(سلیم کوثر)
جس حکمران کا جب جی چاہتا ہے، وہ کراچی سرکلر ریلوے اور بھاشا ڈیم کا افتتاح کردیتا ہے۔ شنید ہے کہ ہمارے محبوب وزیراعظم عمران خان، اس منصوبے کا گیارہویں بار افتتاح کرنے والے خوش نصیب بن گئے ہیں۔ جیسے بھاشا ڈیم کا افتتاح ، پرویز مشرف، گیلانی، نواز شریف، عمران خان، اور پتا نہیں کس، کس نے کیا ہے۔
بے نظیربھٹو کی دوسری حکومت سے لیکر اب تک کراچی پر کھربوں روپے کے پیکج کے اعلانات ہوئے ہیں۔ مگر شہر ہے کہ لاقانونیت، بد امنی اور پسماندگی کی ابتر تصویر بنتا جارہا ہے۔ ایک بارش میں ہر حکومت کے دعوے گجر نالے میں بہہ جاتے ہیں۔ ملیر ندی کی طغیانی، حکمرانوں کے منہ چڑچڑاتی ہے۔ محمود آباد نالہ بپھر جاتا ہے۔ شہر اور انتظامیہ کے ’’امیج‘‘کو پانی پانی کر دیتا ہے۔لیاری جو کراچی کی جان تھی اُسے ’’وبال‘‘کس نے بنایا۔ بدترین فسادات میں بھی، یہ پُر امن اور کُھلا رہتا ہے۔ حالات بہتر ہوئے تو یہاں ، بدامنی نے اپنے پنجے گاڑ دیئے۔ محبت کی جگہ، نفرتوں کی دیوار چین بنانے والے کون تھے۔ نادر شاہ عادل جیسے شریف النفس انسان، کمال صحافی، اپنے لیاری کوروتے ہوئے، چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوئے۔ ان کے بھائی سید امداد علی شاہ اور وہ تو، لیاری کی توسیع کے بانی تھے۔ جنہوں نےاپنے پاس کچھ بھی نہیں رکھا۔لیاری، کھارا در، گارڈن، کراچی صدر، کراچی کے اندرون لاہور ہیں۔ ان کا کرب کوئی اندرون لاہور والا ہی سمجھ سکتا ہے۔ فٹ بال اور باکسنگ کے دلدادہ ان لوگوں کے ہاتھ میں ہتھیار اور نشہ کس نے دیا۔ ہے کوئی، جو اپنے گریبان میں جھانکے۔ آج ہم اولمپک کے ایک کانسی کے تمغے کو ترس رہے ہیں۔ کیا لیارس نے اولمپک میں اس ملک کا مان نہیں رکھا۔پھر کون تھا جس نے جہاں پر باکسنگ اور فٹبال کو لیاری سے چھین لیا۔
جس شہر نے جون ایلیا دیا۔ سلیم کوثر، صابر ظفر، پیرزادہ قاسم جیسے لوگوں کی آبیاری کی۔ حمایت علی شاعر، فاطمہ ثریا بجیا، انور مسعود، صادقین، گل جی، جمیل نقش، مسعود۔ اے۔ خان کو دیا۔ ایک طویل فہرست ہے۔ کس، کس کا نام لکھوں۔ معین اختر، کمال رضوی، وحید مراد، ندیم، احمد رشدی، سجاد علی، سائنس دان زمان صدیقی، ڈاکٹر ادیب رضوی، ایدھی، کونسا شعبہ ہے۔ جس کا لیجنڈ پیدا نہیں کیا یا اُسے بام عروج تک نہیں پہنچایا۔ ناصرہ زبیری جیسی خاتون، جو پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جس نے چیف نیوز کنٹرولر اور دو نئے ٹی۔ وی۔ نیوز چینلزکھڑا کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ محمود شام، ادریس بختیار، سید صفدر علی، طاہر نور، جی ایم جمالی، ، یوسف خان، آغا خالد، جاوید چوہدری جیسے صحافی دیئے۔ ہزاروں پروفیشنلز کی ایک فہرست ہے۔ سرداررحیم، عزیزبھائی، سردار قیوم، سردار حنیف نے باربی۔ کیو ٹونائٹ جیسا کمال ریسٹورنٹ اور اس کی بین الاقوامی چین بنائی۔ جو آج ایک برانڈ اور پہچان ہے۔ کئی ہزار لوگوں کو روزگار دیا۔
بڑے، بڑے بزنس مین پیدا کئے۔ بلڈرز دیئے۔ ولی حبیب ، عارف حبیب،ایس ۔ایم۔ منیر، میجر ریٹائرڈ مستجاب، عقیل کریم ڈھڈی، رفیق اور اشرف بھائی گریس والے، حاجی رفیق پردیسی، ابوبکر شیخانی، سراج قاسم تیلی (گل احمد لون والے)،سیلانی جیسا نیٹ ورک چلانے والے چامڑیا برادران، علماء، مشائخ، کامریڈ، بیورو کریٹ، تاجر، شعبے کا نام لیں ، شخصیات ہی شخصیات ہیں۔
کراچی کا پریس کلب اور نیشنل کونسل آف آرٹس باقاعدہ ادارے ہیں۔ جہاں روایت، جدت اور پروفیشنل ازم زندہ نظر آئے گا۔ جس شہر نے کروڑوں گھروںکا چولہا روشن کیا۔ جہاں لوگ اپنے اور اپنے بچوں کو خوابوں کی تعبیر دینے کیلئے ، آتے ہیں۔ آج وہی بےیارو مددگار کیوں ہے۔
تجارت اور ماہی گیری، اس شہر کے قدیم ترین روزگار ہیں۔ آج یہ شعبے برباد کیوں ہیں۔ گھروں کی تعمیر کے ماہر اور مزدور بھی اتنے ہی پرانے ہیں۔ آج یہ برباد کیوں ہیں۔ کسی امریکی محقق نے کتاب لکھی ہے کہ امریکہ نے 74سال پہلے ہی طے کر لیا تھا کہ پاکستان کو روکنا ہے۔ ترقی نہیں کرنےدینی اور اسے امت مسلمہ کا لیڈر نہیں بننے دینا۔ اسے کنٹرولڈ حالات میں زندہ بھی رکھنا ہے۔
اس کی ابتداء، لوکل، مہاجر، کلیم، لسانیت، قوم پرستی اور فرقہ واریت سے شروع کی گئی۔ کراچی سے اسلام آباد دارالخلافہ کی منتقلی اور اس سے قبل قیام پاکستان کے ساتھ ہی، انتظامی اور سیاسی افراتفری کو بتدریج تناور درخت بنایا گیا۔ پاکستانیوں کو زبان قومیت اور علاقائی حوالوں سے لڑا دیا گیا۔ مارشلاء، کمزور جمہوریتیں، خاندانی سیاست دانوں کی تذلیل، اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔ میں آج کے ہائبرڈ سیاستدانوں کی اکثریت، بلکہ غالب ترین اکثریت کی بات نہیں کررہا۔ یہ تو ’’نرسریوں‘‘ کی کنٹرولیڈ پیداوار ہیں۔
قارئین!!! بات کراچی کی ہورہی تھی۔ آج اسٹیل مل سے لیکر ٹول فیکٹری، نیشنل شپنگ کارپوریشن، پی۔ آئی۔ اے، فشریز، کس، کس کا نام لکھوں۔ یہ بربادی کیوں ہوئی۔ سیاسی اور ذاتی ایجنڈوں نے بربادی اور تباہی کے نئے باب رقم کئے ہیں۔ اس شہر کو ’’کاسمیٹک‘‘ اقدامات کے ذریعے مطمئن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ’’لاڑکانہ‘‘ جس پر کئی کھرب روپے خرچہ ہوچکے ہیں۔ وہ موہنجوداڑو کا منظر پیش کرررہا ہے۔ باقی آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ حیدر آباد اور سکھر کے کیا حالات ہوںگے۔
اعجاز چوہدری چیف سیکرٹری سندھ تھے۔ کوئی ان سے سفارش کروا کر منظور کا کا کے پاس سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی چلا گیا۔ منظور کا کا نے کہا کہ سائیں آپ سے پہلے پانچ لاکھ مانگے تھے۔ اب کیوں کہ سی۔ ایس نے سفارش کی ہے تو یہ کام ، پندرہ لاکھ میں ہوگا۔ یہ آنکھوں دیکھا واقعہ ہے۔
کراچی شہر کو سریئے اور سیمنٹ کا جنگل بنا دیا گیا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ سندھ سیکرٹریٹ کے اکثریتی دفاتر، آثار قدیمہ کا منظر پیش کررہے ہیں۔ فائلیں، ریڈ ٹیپ کے فیتوں سے بندھی ہیں۔ ’’پہیے‘‘ لگتے ہی دوڑنے لگتی ہیں۔ خوف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ آج کراچی شہر میں تعمیری کام کرنے والے بلڈر پریشان ہیںجبکہ بحریہ ٹائون کو کھلی آزاد ی ہے ۔کیوںٖ؟ ۔ڈی۔ ایچ۔ اے کو کوئی ہاتھ نہیں لگاسکتا۔کیوںٖ؟ ۔ جن شہری اداروں نے این ۔ او۔ سی ۔ دیئے وہ معصوم ہیں جبکہ نسلہ ٹاور کے بلڈر ظالم ہیں۔ یہ امتیازی سلوک اس شہر میں کنسٹریکشن کے شعبے کو برباد کردے گا۔ آپ ٹاور کو گرانا چاہتے ہیں تو گرائیں لیکن اس کے مکینوں کو وصولی سندھ گورنمنٹ اور سندھی مسلم سوسائٹی سے کروا کر دیں۔ اس کے اصل گناہ گار تو وہ ہیں۔ بلڈر تو انوسٹر کا مرہون منت ہوتا ہے۔ انوسٹر اپنا مال بیچ کر نکل گئے۔ اب بلڈر کو کیوں زندہ دفن کیاجارہا ہے۔یہ میں نہیں آباد والے بھی یہی کہتے ہیں۔
آج یہ شہر پانی سے لیکر سیکیورٹی، روزگار سے لیکر تعلیم سب کچھ خرید رہا ہے۔’’ بھتے کے جن‘‘ نے اس شہر کی گردن کو دبوچا ہوا ہے۔ بھتہ اگر سیاسی ہے تو ،تمیز سے لیا جاتا ہے۔ بھتہ غیر سیاسی ہے تو ڈنکے کی چُوٹ پر وصول کیا جاتا ہے۔ صرف تجاوزات کا بھتہ اربوں کا ہے۔ مگر ایک خوبصورتی ہے اگر آپ کے پاس پیسے ہیں تو ہر قسم کے کاغذات گھر پہنچ جاتا ہے۔
ایک روز گریڈ 22کے ایک سندھی دوست کہنے لگے۔ ایک ’’صاحب‘‘ کہتے تھے کہ ’’سائیں، میرے دستخطوں سے یہ کروڑوں روپے کماتے ہیں۔ اگر میں دستخط نہ کروں تو پھر، اس لئے میرے دستخط کرتے ہی، ان کا مال میں میرا حصہ تو ’’قانونی‘‘ ہوگیا۔
قارئین!!!
شہر کراچی کو وفاق ہو کہ صوبہ، حتیٰ کہ لوکل ایڈمنسٹریشن اور شہری اداروں نے ، ’’ڈس اون‘‘ کردیا ہے۔ جبکہ سیاستدان بے خوف ہوکر ’’اپنے کام‘‘ پر لگے ہوئے ہیں۔ ایسے میں کچھ ایسے اداروں کے وہ واقعات سننے کو ملتے ہیں جنھیں روکنے کیلئے انھیں بنایا گیا تھا۔ وہ بھی خرچی کھپے پر ایمان لے آئے۔
کراچی، پاکستان کامعاشی حب ہے۔ چائنیز نے 2013ء میں پاکستان کو کہا کہ کراچی کو ’’کُول‘‘ کرو۔ ہم شنگھائی میں ایک منٹ کی بدامنی برداشت نہیں کرسکتے۔ اُس کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور چوہدری نثار علی خان نے ایک منصوبہ ترتیب دیا۔ جدید طرز کا آپریشن شروع کیا گیا۔ زیرو عسکریت پسندی کا سخت پیغام، سب کو دیا گیا۔ ٹارگیٹڈ آپریشن میں جن کو پکڑ سکتے تھے۔ پکڑا۔ باقی کو دوڑنے کاموقع دیا گیا۔ شہر کو قابو کیا گیا۔ جو بھاگ گئے تھے، بعد ازاں ان پر کام کیا گیا۔ شہر میں ’’فساد کی جڑوں‘‘ کو کاٹا گیا۔ تحفظ کا احساس ، شہریوں میں اجاگر کیا گیا۔
اس کے بعد دوسرا فیز تھا۔ بحالی کا، جس کے نتائج مایوس کُن ہیں۔8 سال گزرنے کے بعد بھی، یہ عمل ’’کینچوے‘‘ کی طرح رینگ رہا ہے۔ لوگوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے مصطفٰے کمال نے الزام عائد کیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے مسلسل اقتدار میں ڈھائی لاکھ سرکاری نوکریاں دی گئیں ہیں۔ ان میں سے ، ایک بھی اُردو بولنے والے کو نہیں ملی۔ اگر یہ صورتحال ہے تو بہت ’’الارمنگ‘‘ ہے۔
شہری اور رورل سندھ میں فاصلہ اتنا زیادہ ہوچکا ہے کہ اُسے گزرتے وقت کے ساتھ پاٹنا، بہت مشکل ہوجائے گا۔ ریاست سوچے، اس سے قبل کہ یہ ناممکن ہوجائے۔
کراچی پڑھے لکھے لوگوں کا مشترکہ شہر ہے۔ اسے کسی اور تناظر میں دیکھنا ہوگا۔
یہ معاشی شہ رگ ہے۔ یہاں بے چینی، غصہ، نفرت بڑھ رہی ہے۔ ریاست توجہ دے۔ حکومتیں تو ناکام ہوچکی ہیں۔ صرف کراچی نہیں، اب تو دیگر صوبوں میں بھی یہی حالات ہیں۔ سپریم کورٹ کی آبزرویشن دیکھ لیں۔ کراچی اور پاکستان پر رحم کریں۔ سیاست نہیں، کام کریں۔ اعلان نہیں، عملی ثبوت دیں۔
کیا ایسے کم سُخن سے کوئی گفتگو کرے
جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے