اٹلی کے تاریخی شہر پومپئی میں صدیوں سے بکھرے اور ملبے تلے دبے رومی فریسکو دوبارہ اپنی شکل پانے کے قریب ہیں، جہاں ایک جدید روبوٹک نظام ماہرین کی وہ مشکل ترین ذمہ داری سنبھال رہا ہے جس میں ٹوٹے ہوئے قدیم فن پاروں کے ٹکڑے جوڑنا شامل ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پومپئی میں دریافت ہونے والے قدیم رومی فریسکو، جو صدیوں پہلے تباہ ہو کر ملبے میں دفن ہو گئے تھے، اب ایک نئی زندگی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ تبدیلی ایک جدید روبوٹک سسٹم کی بدولت ممکن ہو رہی ہے جو ماہرینِ آثار قدیمہ کو ان کے سب سے باریک اور وقت طلب کام میں مدد دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے، یعنی ٹوٹے ہوئے فن پاروں کو دوبارہ جوڑنے کا عمل۔
یہ ٹیکنالوجی یورپی یونین کے فنڈ سے چلنے والے منصوبے ’ریپیئر ‘کے تحت تیار کی گئی ہے، جس میں جدید امیج ریکگنیشن، مصنوعی ذہانت پر مبنی پزل حل کرنے کا نظام، اور انتہائی باریک کام کرنے والے روبوٹک ہاتھ شامل ہیں۔ اس منصوبے کا آغاز 2021 میں ہوا، جس کی قیادت اٹلی کی وینس یونیورسٹی کا فوسکاری نے کی۔
پروجیکٹ کے ڈائریکٹر گیبریل ذخٹریگل کے مطابق اس تجرباتی کام کی شروعات دوسری جنگِ عظیم میں تباہ ہونے والے فریسکو کو دوبارہ جوڑنے کی حقیقی ضرورت سے ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ پومپئی کی قدیم دیواریں اس منصوبے کا بہترین تجربہ گاہ ثابت ہوئیں۔
روبوٹ کے دونوں بازوؤں میں ایسے لچکدار ہاتھ لگائے گئے ہیں جو نازک ٹکڑوں کو بغیر نقصان پہنچائے اٹھانے اور جگہ پر لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان ہاتھوں کے ساتھ وژن سینسرز بھی نصب ہیں جو ہر ٹکڑے کی شناخت، اس کی درست جگہ اور زاویہ طے کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
پومپئی اور اس کے اردگرد کے علاقے 79 عیسوی میں ماؤنٹ ویسویئس کے آتش فشاں پھٹنے کے بعد راکھ میں دفن ہو گئے تھے۔ اس مقام پر محفوظ کیے گئے کئی فریسکو پہلے ہی جزوی صورت میں تھے، جب کہ کچھ دوسری جنگِ عظیم کی بمباری اور 2010 میں ’ہاؤس آف دی گلیڈی ایٹرز‘ کی چھت گرنے سے مزید تباہ ہوئے۔
اصل فن پاروں کو نقصان سے بچانے کے لیے پہلے مرحلے میں ان کے نقل نما ماڈل تیار کیے گئے، جن پر روبوٹک نظام کی آزمائش کی گئی۔
اس دوران مصنوعی ذہانت کے ماہرین نے ایسے الگورتھم تیار کیے جو رنگوں، ڈیزائن اور نشانات کا وہ باریک فرق بھی پہچان لیتے ہیں جو انسانی آنکھ سے اکثر پوشیدہ رہ جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ کام ایک دیو ہیکل جِگ سا پزل حل کرنے جیسا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ کئی ٹکڑے گم ہیں اور اصل تصویر بھی معلوم نہیں۔
منصوبے کے کوآرڈینیٹر مارسیلو پلیلو کے مطابق ’یہ ایسا ہے جیسے آپ چار یا پانچ جِگ سا پزل کے ڈبے خریدیں، پھر سارے ٹکڑے آپس میں ملا دیں، ڈبے پھینک دیں، اور ایک ساتھ پانچ پزل حل کرنے بیٹھ جائیں۔‘
محققین کا ماننا ہے کہ کامیاب تجربات کے بعد یہ ٹیکنالوجی دنیا بھر میں بحالیِ آثار کے طریقۂ کار کو بدل سکتی ہے، اور قدیم تاریخ کے کئی گمشدہ ٹکڑوں کو دوبارہ جوڑنے کا راستہ ہموار کر سکتی ہے۔























