
پاکستان کے تین مقبول سیاسی رہنما: عمران خان، نواز شریف، اور آصف زرداری کی کامیابیاں، چیلنجز، اور اگلی نسل کی سیاست
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تین اہم شخصیات نے ملک کی سیاست کو گہرے طور پر متاثر کیا ہے۔ عمران خان، نواز شریف، اور آصف علی زرداری نے اپنے اپنے دور میں کئی اہم کامیابیاں حاصل کیں، لیکن انہیں بے شمار چیلنجز کا بھی سامنا رہا۔
عمران خان
عمران خان، جو کھیلوں کی دنیا سے سیاست میں آئے، نے 2018 کے عام انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کی اور پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ ان کی حکومت نے صحت کے شعبے میں “سیہٹہ کارڈ” جیسے منصوبے متعارف کرائے، جس سے لاکھوں غریب خاندانوں کو مفت علاج کی سہولت میسر آئی۔ انہوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے بھی کئی اقدامات اٹھائے، جیسے “ریمٹنس ہومز” کا قیام۔ تاہم، معیشت کو مستحکم کرنے اور کرپشن کے خلاف جنگ میں انہیں کئی چیلنجز کا سامنا رہا۔
نواز شریف
نواز شریف، جو تین بار پاکستان کے وزیراعظم رہے، نے انفراسٹرکچر کے شعبے میں بڑے منصوبے شروع کیے۔ لاہور-اسلام آباد موٹر وے، اورینٹل پاور پلانٹس، اور میٹرو بس سروس جیسے منصوبے ان کی حکومتوں کی پہچان بنے۔ تاہم، انہیں بھی کرپشن کے الزامات اور سیاسی بحرانوں کا سامنا رہا۔
آصف علی زرداری
آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں پاکستان کو 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری دی، جسے ان کی بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی اور میڈیا کی آزادی کو فروغ دیا۔ تاہم، ان کے دور میں بجلی کے بحران اور معاشی مسائل نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔
اگلی نسل کی سیاست: بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف
پاکستان کی سیاست اب نئی نسل کی طرف بڑھ رہی ہے، جس میں بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف نمایاں ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری
بلاول بھٹو زرداری نے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ ان کا مقصد نوجوانوں کو تعلیم، روزگار، اور صحت کے شعبوں میں بہتر مواقع فراہم کرنا ہے۔ وہ اپنی تقریروں میں امن، رواداری، اور ترقی کی بات کرتے ہیں، جو نوجوانوں کو متاثر کرتی ہے۔
مریم نواز شریف
مریم نواز شریف نے بھی سوشل میڈیا کو اپنی سیاست کا اہم ذریعہ بنایا ہے۔ وہ خواتین کے حقوق اور نوجوانوں کے مسائل پر توجہ دیتی ہیں۔ ان کا مقصد نوجوانوں کو بااختیار بنانا اور انہیں ملک کی ترقی میں شامل کرنا ہے۔
نوجوانوں کو متوجہ کرنے کی حکمت عملی
دونوں رہنما نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں۔ وہ نوجوانوں کے مسائل کو اجاگر کرتے ہیں اور انہیں حل کرنے کے لیے پالیسیاں پیش کرتے ہیں۔ ان کا انداز سیاست روایتی سے ہٹ کر جدید اور نوجوانوں کے قریب ہے۔
آخری بات
پاکستان کی سیاست اب نئی نسل کی طرف بڑھ رہی ہے، جس میں ٹیکنالوجی اور نوجوانوں کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف جیسے نئے رہنما نوجوانوں کو متحرک کرنے اور ملک کی ترقی میں انہیں شامل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ آنے والے وقت میں یہ نئی نسل پاکستان کی سیاست کو نئی جہتیں دے سکتی ہے۔
یہ کہانی پاکستان کی سیاسی تبدیلی اور نئی نسل کے عزم کی عکاس ہے، جو ملک کو ترقی کی نئی راہ پر گامزن کرنے کے لیے پرامید ہے۔
سیاسی تنازعات، موجودہ حکومت کی کارکردگی، اور مستقبل کے چیلنجز
پی ٹی آئی، پی ایم ایل این، اور پی پی پی کے تنازعات
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، پاکستان مسلم لیگ (ن) (پی ایم ایل این)، اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اپنے اپنے ادوار میں کئی تنازعات کا سامنا کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں الیکشن دھاندلی کے الزامات، احتساب کے عمل پر تنقید، اور معاشی پالیسیوں پر اختلافات نمایاں رہے۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی نے اپنے کارکنوں پر پابندیوں اور گرفتاریوں کو اپنے خلاف سیاسی مہم قرار دیا۔
پی ایم ایل این کے دور میں پاناما لیکس کیس، نواز شریف کی نااہلی، اور احتساب عدالتوں کے فیصلوں نے پارٹی کو مشکلات میں ڈالا۔ پی پی پی نے بھی کرپشن کے الزامات، بلوچستان اور سندھ میں انتظامی کمزوریوں، اور صوبائی خودمختاری کے مسائل کا سامنا کیا۔
شہباز شریف کی موجودہ حکومت کی کارکردگی
شہباز شریف کی دوسری مدت حکومت میں پی ایم ایل این اور پی پی پی کے درمیان اتحاد نے ملک کو سیاسی استحکام فراہم کیا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو بحال کیا، جس سے معیشت کو کچھ سہارا ملا۔ تاہم، مہنگائی، بجلی کے بحران، اور بیرونی قرضوں کے بوجھ نے حکومت کو مشکلات میں ڈالا ہے۔ شہباز شریف کی حکومت نے ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دی ہے، لیکن عوامی سطح پر مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل نے ان کی مقبولیت کو متاثر کیا ہے۔
صوبائی سطح پر کارکردگی
سندھ میں پی پی پی کی حکومت نے صحت اور تعلیم کے شعبوں میں کچھ پیش رفت کی ہے، لیکن کراچی کے بنیادی ڈھانچے اور پانی کے مسائل پر تنقید جاری ہے۔ پنجاب میں پی ایم ایل این نے ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دی ہے، لیکن مہنگائی اور بجلی کے بحران نے صوبائی حکومت کو مشکلات میں ڈالا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سیاسی عدم استحکام اور انتظامی کمزوریاں نمایاں ہیں۔
مستقبل کے چیلنجز
اگلے 2 سے 5 سالوں میں پاکستانی سیاستدان کو کئی چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ معیشت کو مستحکم کرنا، بیرونی قرضوں کے بوجھ کو کم کرنا، اور مہنگائی پر قابو پانا سب سے بڑے مسائل ہوں گے۔ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتری لانا، اور توانائی کے بحران کو حل کرنا بھی اہم ہوگا۔
سیاسی جماعتوں کو اپنے اندرونی اختلافات کو کم کرنا ہوگا اور ملکی مفاد کو ترجیح دینا ہوگی۔ ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے نوجوانوں کو سیاست میں شامل کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
آخری بات
پاکستان کی سیاست میں تبدیلی اور بہتری کے لیے سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ عوام کے مسائل کو حل کرنے، شفافیت کو فروغ دینے، اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے سیاسی رہنماوں کو اپنے اختلافات کو پیچھے چھوڑ کر قومی مفاد کو ترجیح دینا ہوگا۔ آنے والے سالوں میں پاکستان کی سیاست کو نئی جہتیں مل سکتی ہیں، اگر سیاسی رہنما عوام کے اعتماد کو بحال کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

شہباز شریف حکومت کی فوجی قیادت اور دوست ممالک کے ساتھ تعاون
شہباز شریف کی موجودہ حکومت نے ملکی استحکام اور معیشت کو بہتر بنانے کے لیے فوجی قیادت (اسٹیبلشمنٹ) کے ساتھ قریبی تعاون برقرار رکھا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے حکومت نے سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیوں کو جاری رکھا، جس سے حکومت کو اندرونی طور پر استحکام ملا۔ فوجی قیادت نے بھی معاشی بحران سے نمٹنے اور بیرونی تعلقات کو بہتر بنانے میں حکومت کی حمایت کی ہے۔ دونوں اداروں کے درمیان ہم آہنگی نے ملک کو سیاسی عدم استحکام سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
آئی ایم ایف اور معیشت کو بہتر بنانے کی کوششیں
شہباز شریف حکومت نے معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح دی۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبات پر عملدرآمد کرتے ہوئے سبسڈیز میں کمی، ٹیکس نظام میں اصلاحات، اور بجٹ خسارے کو کم کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ تاہم، ان اقدامات کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ ہوا، جس نے عوامی سطح پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے نے ملک کو مالیاتی بحران سے بچانے میں مدد دی، لیکن معیشت کو طویل المدتی بنیادوں پر مستحکم کرنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

دوست ممالک کے ساتھ تعلقات
شہباز شریف حکومت نے سعودی عرب (کے ایس اے)، متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، چین، اور ترکی جیسے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوششیں کی ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو مالیاتی امداد اور تیل کی ادائیگیوں میں آسانیاں فراہم کی ہیں، جس سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا ملا ہے۔ چین کے ساتھ سی پیک منصوبوں کو آگے بڑھانے اور تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ ترکی کے ساتھ تعلقات کو بھی فروغ دیا گیا ہے، خاص طور پر دفاعی اور تجارتی شعبوں میں۔ ان ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے سے پاکستان کو معاشی اور سیاسی طور پر فائدہ ہوا ہے، لیکن مستقبل میں ان تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے مستحکم پالیسیوں کی ضرورت ہوگی۔
آخری بات
شہباز شریف حکومت نے ملکی استحکام اور معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کئی اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ فوجی قیادت کے ساتھ تعاون، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات، اور دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے سے حکومت کو کچھ کامیابیاں ملی ہیں۔ تاہم، مہنگائی، بے روزگاری، اور توانائی کے بحران جیسے مسائل اب بھی موجود ہیں، جن پر قابو پانا حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ آنے والے سالوں میں حکومت کو ان مسائل کو حل کرنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے جامع پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہوگی۔

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کردار اور سیاست
مولانا فضل الرحمان، جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ، پاکستان کی سیاست میں ایک اہم اور متنازعہ شخصیت ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں کئی حکومتوں کے ساتھ تعاون کیا ہے اور کئی بار ان کے خلاف بھی تحریکیں چلائی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے شہباز شریف کی موجودہ حکومت کو حمایت فراہم کی ہے، لیکن وہ کئی مواقع پر حکومتی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں۔ ان کا سیاسی انداز مذاکرات اور دباؤ کے درمیان ایک توازن قائم کرنے کا ہے۔ وہ مذہبی اور قدامت پسند طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں اور اکثر اپنے موقف کو مضبوطی سے پیش کرتے ہیں۔ تاہم، ان کی سیاست کو کبھی کبھار مفاہمت اور مفاد پرستی سے جوڑ کر بھی دیکھا جاتا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت اور جمہوریت کی حمایت
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، جو کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں اپنی مضبوط بنیاد رکھتی ہے، نے شہباز شریف کی موجودہ حکومت کو حمایت فراہم کی ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت نے جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے، لیکن وہ کراچی کے مسائل، خاص طور پر پانی، صفائی، اور بنیادی ڈھانچے کے معاملات پر حکومت سے مطالبہ کرتی رہی ہے۔ ایم کیو ایم نے وفاقی حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے صوبائی خودمختاری اور شہری حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ ان کا سیاسی انداز نوجوانوں اور شہری آبادی کو متحرک کرنے پر مرکوز ہے، لیکن وہ اکثر اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے دباؤ کی سیاست کا استعمال بھی کرتے ہیں۔
جمہوریت کو مضبوط بنانے میں کردار
مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم دونوں نے پاکستان میں جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے مختلف ادوار میں سیاسی اتحاد بنانے اور حکومتوں کو گرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی سیاسی چالاکی نے انہیں ہر حکومت کے ساتھ تعاون کرنے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مدد دی ہے۔ دوسری طرف، ایم کیو ایم نے شہری حقوق اور صوبائی خودمختاری کے لیے آواز اٹھا کر جمہوری نظام کو فروغ دیا ہے۔ انہوں نے وفاقی اور صوبائی سطح پر اپنے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے کراچی اور سندھ کے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔
مستقبل کے چیلنجز اور مواقع
مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم دونوں کو مستقبل میں کئی چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ مولانا فضل الرحمان کو اپنی پارٹی کے اندر نئی قیادت تیار کرنے اور نوجوانوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ایم کیو ایم کو کراچی کے مسائل کو حل کرنے اور اپنی سیاسی مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لیے موثر پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہوگی۔ دونوں جماعتوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کے لیے تعمیری کردار ادا کریں اور عوامی مسائل کو حل کرنے پر توجہ دیں۔ آنے والے سالوں میں ان کی کارکردگی پاکستان کی سیاست کو نئی جہتیں دے سکتی ہے، اگر وہ عوامی مفاد کو ترجیح دیں۔
تحریر
سالک مجید ایڈیٹر جیوے پاکستان ڈاٹ کام کراچی























