آبادی کی ناقص منصوبہ بندی۔ پاکستان کے لیے خطرہ “ کے عنوان پر اجلاس کا انعقاد

رپورٹ – اشرف بھٹی

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی کے تیسرے روز” آبادی کی ناقص منصوبہ بندی۔ پاکستان کے لیے خطرہ “ کے عنوان پر اجلاس کا انعقاد

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی کے تیسرے روز” آبادی کی ناقص منصوبہ بندی۔ پاکستان کے لیے خطرہ “ کے عنوان پر اجلاس کا انعقاد جون ایلیا لان میں کیا گیا، جس میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کالج کی پروفیسر اور گائنا کالوجسٹ نگہت شاہ اور آئی بی اے کی ڈائریکٹر آف اکنامکس لبنیٰ ناز نے گفتگو کی جب کہ نظامت کے فرائض سید خاور مہدی نے انجام دیے۔اجلاس کے دوران بڑھتی آبادی کو روکنے کے لیے منصوبہ بندی، مذہبی اسکالرز اور مفتی حضرات کا اہم کردار اور حکومت کی ذمہ داری پر روشنی ڈالی گئی۔ اس موقع پر خاور مہدی نے کہا کہ 1971 میں جب بنگلہ دیش بنا تو اس کی آبادی 69 ملین تھی اور پاکستان کی آبادی 65 ملین تھی جب کہ آج پاکستان کی آبادی بنگلہ دیش سے کئی آگے پہنچ کر 340 ملین ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آبادی ایسی بڑھی کہ آج پاکستان کی 240 ملین آبادی جس میں سے ہر بچہ اور پیدا ہونے والا ہر بچہ بغیر کسی قصور کے چار لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ لہٰذا آبادی کی یہ تعداد آگے پچاس سالوں میں بڑھ کر 710 ملین ہونے کا خطرہ ہے جو کہ سرکار کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ پاکستان کے پڑوسی ملک ایران جو کہ خود ایک مسلم ملک ہے وہاں بھی آبادی کو روکنے کے پلان پر یعنی contraceptive rate پر کام کیا گیا ہے۔ ایران نے اس اہم مسئلے میں میڈیا سمیت مذہبی اسکالرز اور عالم دین کی مدد لی اور قرآن و حدیث کی روشنی سے بڑھتی آبادی پر قابو پانے پرکام کیا۔ ڈاکٹر نگہت شاہ نے کہا کہ وہ پاکستان میں 20 سال سے گائناکولوجی کے شعبہ سے منسلک ہیں مگر اس مسئلے کے حل میں ذرّہ برابر بھی فرق نہیں آیا۔ آبادی کا بڑھنا صحت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک سماجی مسئلہ ہے جس کو سوشل فورمز پر زیر بحث لانا بہت ضروری ہے، انہوں نے کہا کہ ویسے تو سندھ اسمبلی میں 18 سال سے کم عمر بچیوں کی شادی پر بل پاس ہوچکا ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پھر بھی کچھ بدل نہیں رہا۔ ایسے میں حکومت کو اس کی مکمل ذمہ داری لینا پڑے گی کیونکہ اب آبادی کا بم پھٹ چکا ہے اور آنے والے وقت میں ہر پیدا ہونے والا بچہ کسی دروازے پر ہوگا۔ لبنیٰ ناز نے بھی ایک اہم نقطہ اٹھایا کہ ملک میں فیملی پلاننگ ناکام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کوئی پالیسی ٹھیک سے وضع نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ بھارت اور بنگلہ دیش ہم سے آگے ہیں کیونکہ وہاں اربن ڈیولپمنٹ پلاننگ اور خاندانی منصوبہ بندی پر نہ صرف باقاعدہ کام ہوا بلکہ عمل بھی کیا گیا ،پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوا، آخر میں مقررین نے کہا کہ حکومت پاکستان مذہبی اسکالرز اور علمائے دین کے ساتھ مل کر آبادی کو روکنے اور خاندانی منصوبہ بندی پر کام کرے اور علمائے دین بھی اسے قومی جہاد سمجھیں اور قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، سب نے مل کر الیکٹورل سسٹم پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اس کا شفاف نہ ہونا بھی خاندانی منصوبہ بندی کی ناکامی ہے۔ ہم اب تک یہاں اس لیے کھڑے ہیں کیونکہ سیاسی سسٹم کوئی نہیں ہے لہٰذا تبدیلی کے لیے حکومت شدت پسندی کو ختم کرے۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔جشن کراچی کے تیسرے روز ” اُردو تنقید“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز ” اردو تنقید“ کے عنوان سے منعقد کیے گئے سیشن میں معروف ادیبوں اور تنقید نگاروں کے درمیان ’ اردو ادب کی تنقید میں کراچی کا حصہ‘ زیر بحث رہا جس میں معروف تنقید نگار فاطمہ حسن، حمید شاہد ، ضیا الحسن ضیا نے گفتگو کی ، شاداب احسانی نے مجلس کی صدارت جبکہ رخسانہ صبا نے نظامت کے فرائض انجام دیے ، شرکائے گفتگو نے ادبی تنقید میں کراچی کا حصہ بیان کرتے ہوئے یہاں سے تعلق رکھنے والے نامور ادیبوں اور تنقید نگاروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے لکھاریوں نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے، نئے ادیبوں نے ان کی کتب پڑھ کر استفادہ حاصل کیا، شرکا نے کہا کہ کراچی کے بیشتر ناقدین نے ہجرت کرکے یہاں سکونت اختیار کی جن کے علم کی روشنی سے ساری ادبی دنیا منور ہوئی، معروف شاعرہ فاطمہ حسن نے کراچی سے تعلق رکھنے والا تنقید نگار پروفیسر ممتاز حسین کے کام پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیالات میں وجودی فکر کو محسوس کیا جاسکتا ہے جبکہ جدید تنقید اور اس کے سفر کو سمجھنے کے لیے ہمیں ضمیر علی بدایونی کی تحاریر پڑھنی چاہیے ، انہوں نے کہا کہ قمر جمیل کی توجہ بطور نقاد عصر حاضر پر مرکوز رہی ، ان کی تصانیف میں جدید ثقافت کا تعارف نمایاں دکھائی دیتا ہے، ضیا الحسن نے کراچی کے نقاد محمد حسن عسکری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا کراچی کی تقلیدی اور تخلیقی دنیا میں نمایاں کردار رہا ہے، انہوں نے اقبال اور غالب سمیت کئی پائے کے شعراءپر بھی تنقید نگاری کی، انہوں نے کہا کہ جمیل جالبی کی تنقید کا موضوع تہذیب رہا ، ممتاز شیریں نے منٹو کی افسانہ نگاری پر تنقید لکھی جبکہ سلیم احمد بھی کراچی کے اہم تنقید نگاروں کی صف میں شامل رہے، صدر مجلس شاداب احسانی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کو دبستان بنانے میں ہجرت کرکے آئے تخلیق کاروں کا حصہ نمایاں ہے، انہوں نے کہا کہ دنیا کی قومیں اپنے تشخص کی طرف اپنے لٹریچر کے ذریعہ آئیں ، ادب اور زبان قوموں کو جوڑتی ہے، باہر سے مستعار لیا گیا ادب یا تو مقامی کلچر سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے یا وقت کے ساتھ متروک ہو جاتا ہے ، اردو زبان نے بھی منی پاکستان کو کچھ ایسا جوڑا کہ کراچی دبستان بن گیا۔

==========================

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی کے تیسرے روز ”اسلوبِ غزل“ کے عنوان پر سیشن کا انعقاد

کراچی ( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس- جشن کراچی کے تیسرے روز پہلا سیشن ممتاز شاعر افتخار عارف کی زیر صدارت ”اسلوب غزل“ کے موضوع پر آڈیٹوریم Iمیں منعقد ہوا، نظامت کے فرائض خالد معین نے انجام دیئے جبکہ شرکائے گفتگو میں اشفاق حسین، فراست رضوی، ضیاءالحسن، جاوید صبا، احمد مبارک اور عنبرین حسیب عنبر شامل تھے، افتخار عارف نے خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے کہا کہ غزل سمیت ادب کی کوئی بھی صنف جغرافیائی حد کی پابند نہیں ہے، غزل میں ایک ہی موضوع کو شاعر کا انداز اسلوب مختلف بنا دیتا ہے، اردو غزل کی سب سے مستحکم روایت وہی ہے جو مسلسل رہی ہے آزادی کے بعد کراچی میں الگ لہجہ اور انداز رکھنے والے بعض بڑے شعراءکے دبستان آباد ہوئے جن میں سلیم احمد، عزیز حامد مدنی، قمر جلالوی، محشر بدایونی، رسا چغتائی، سراج الدین ظفر، آل رضا، محبوب خزاں اور رئیس فروغ کے نام قابل ذکر ہیں، کم یا زیادہ لکھنا اہمیت نہیں رکھتا اصل بات یہ ہے کہ کیا لکھا گیا ہے، صاحب اسلوب شاعر کا شعر خود بتا دیتا ہے کہ یہ شعر کس کا ہے، کراچی میں بہت اچھی غزل لکھی گئی ہے، نوجوان شاعروں نے بھی حیرت انگیز غزلیں کہی ہیں مگر ہمارے ہاں روایت رہی کہ ہر 20-25 سال بعد غزل کے خلاف محاذ بنا لیا گیا، میں یہ کہتا ہوں کہ ہر شاعر اپنے طور پر غزل کے ذریعے اپنے تاثرات اور احساسات کا اظہار کرتا رہے، عنبرین حسیب عنبر نے کہا کہ ہجرت کے بعد کراچی کے شعراءکے لیے شناخت کا مسئلہ پیدا ہوا جس کا اظہار ان کی غزلوں میں جا بجا ملتا ہے، یہی دکھ ناصر کاظمی کے ہاں نمایاں رہا، کراچی میں غزل کے اسالیب میں بڑا نام جون ایلیا کی شاعری ان کے اندرونی کرب اور اضطراب کا اظہار ہے جسے مٹتی ہوئی تہذیب کا نوحہ کہنا چاہیے، کراچی کے شعراءنے اسی شناخت اور زبان کو بچانے کے لیے غزل کے ذریعے شعوری کوششیں کیں، احمد مبارک نے کہا کہ دبستانِ کراچی کی اپنی منفرد روایت ہے، اسلوب بذاتِ خود شاعر ہے اور یہ اسلوب شاعر کے ماحول مطالعے او مشاہدات سے وجود میں آتا ہے، کراچی کے شاعر کی یہ خاصیت رہی کہ وہ اپنا سکھ بیچ کر اداسی خرید لیتا ہے، رسا چغتائی کی مثال ہمارے سامنے ہے، کراچی کی شاعری میں اداسی اور رومانویت نمایاں رہی ہے، جاوید صبا نے کہا کہ غزل کے اسلوب کی بات کریں تو کراچی سے دو بڑے نام لیے جا سکتے ہیں پہلا مصطفیٰ اور دوسرا جون ایلیا، یہ دونوں شاعر کراچی میں غزل ک مجموعی فضا میں مختلف نظر آتے ہیں، ڈاکٹر ضیاءالحسن نے کہا کہ شاعری دراصل ہمارے وجود کے تخلیقی حصے کا اظہار ہے، اس حوالے سے کراچی میں غزل میں سلیم احمد بڑا نام ہے جو دیگر شعراءکے لیے استاد کا درجہ رکھتے تھے، اچھے شاعر کی یہ خوبی ہے کہ وہ الفاظ کے نئے معنی سے ہمیں روشناس کراتا ہے، فراست رضوی نے کہا کہ کراچی میں ابتدائی دور کی شاعری میر تقی میر سے متاثر رہی کیونکہ میر کاعہد کراچی میں ہجرت کے بعد کے حالات سے مماثلت رکھتا ہے، کراچی کی شاعری پر فارسی اسلوب کا بھی اثر رہا ہے۔
=========

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس2024ءکے تیسرے روز 13کتابوں کی رونمائی

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سترھویں عالمی اردو کانفرنس جشن کراچی، کے تیسرے روز ”کتابوں کی رونمائی“ میں مجموعی طور پر 13کتابوں کی رونمائی کی گئی جس میں ”پنجابی ادب و ثقافت“کے سیشن میں توقیر چغتائی کی کتاب ” حبیب جالب بحیثیت پنجابی شاعر“ بھی شامل تھی۔ نظامت کے فرائض محبوب ظفر اور غضنفر ہاشمی نے انجام دیے۔ سیشن کا آغاز صنوبر ناظر کی کتاب ”خیالوں کی آرٹ گیلری“ سے کیا گیا جوکہ کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ صنوبر ناظر کی کتاب پر حارث خلیق نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ان کو کہانیوں کے طور پر نہیں پڑھا بلکہ اس کتاب میں سماج کی آب بیتی ہے، صنوبر ناظر نے اپنی تحریر کے ذریعے سماج کے مسائل سے نہ صرف پردہ اٹھایا بلکہ مختصر حل کا تذکرہ بھی کیا ہے جبکہ صنوبر ناظر کا اپنی کتاب سے متعلق کہنا تھا کہ میری کتاب میں تمام کہانیاں سچی ہیں بس ساتھ میں فکشن کا تڑکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میری کوشش تھی کہ کالم میں بھی کہانیوں کا عنصر ہو۔ سیشن میں عابد رشید کے نعتیہ مجموعے ”خیرالانعام“ کی بھی رونمائی کی گئی ، عابد رشید کی کتاب پر شاداب احسانی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عابد رشید شکاگو میں بیٹھ کر نعت کی شمع جلائے ہوئے ہیں، کتاب میں 50 نعتیں ، سلام اور حمد و ثنا موجود ہیں۔ اس کتاب کو نعتیہ کتاب کہنا درست ہوگا جس میں رسول مقبول کی تعلیمات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اپنی کتاب سے متعلق عابد رشید کا کہنا تھا کہ امریکہ میں تنظیمیں تو بہت ہیں مگر وہ میلادکے لیے ہیں۔ اللہ کی توفیق سے نعتیہ کی تنظیم ہم نے شکاگو میں بنائی اور رواں سال اپریل میں ہم نے نعت کانفرنس کی جس میں دنیا بھر سے نعت اسکالرز نے شرکت کی۔ سیشن میں نعیم سمیر کی کتاب “ردھم” بھی رونمائی کا حصہ بنی جوکہ شعری کا مجموعہ ہے۔ کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے حمیدہ شاہین کا کہنا تھا کہ نعیم سمیر کو زبان سے متعلق بہت آگاہی اور شعور ہے جس کے باعث ان کے اشعار کا مجموعہ بہترین ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ کتاب ”ردھم“ میں عشقیاءموضوعات شامل ہیں جبکہ نعیم سمیر نے اپنے شعری مجموعے کے چند اشعار پیش کیے جس پر حاضرین نے خوب داد دی۔ کتابوں کی رونمائی تقریب میں ناصرہ زبیری کی کتاب ”بے موسمی خواہشیں“ بھی حصہ بنی جس پر کاشف رضا نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ناصرہ زبیری نے اپنی غزل میں پنجابی، ہندی اور انگریزی الفاظ کا بخوبی استعمال کیا ہے، اس کتاب میں آزاد اور نثری نظمیں بھی شامل ہیں۔ ناصرہ زبیرہ نے اپنی کتاب کے چند اشعار بھی حاضرین کو سنائے اور داد وصول کی۔ سیشن میں صابر ظفر کے شعری مجموعے “میں ایک سوال کا خلا ہوں” کو بھی رونمائی کا حصہ بنایا گیا۔ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے ضیاءالحسن کا کہنا تھا کہ یہ کتاب ’میں‘ اور ’تو‘ یعنی دنیا اور آخرت کا مجموعہ ہے، جس میں ‘میں’ کو ملال ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ صابر ظفر نے اپنی کتاب میں مرنے سے پہلے مرنے کے احساس کو نمایاں کیا ہے۔ قبل ازیں رفاقت حیات کا ناول ” رولاک“ پر اقبال خورشید، اقبال خورشید کا ”فکشن سے مکاملہ“پر عرفان جاوید، علی حسن ساجد کی کتاب”کراچی کی تاریخی عمارات“پر شکیل خان، جاوید صبا کی ”ابھی تنہائی نامکمل ہے“پر توقیر چغتائی، شفقت نغمی کا ناول ”سات جنم“پر عباس تابش نے گفتگو کی ۔
===================================


خبر نمبر۔6

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی کے تیسرے روز ”یادِرفتگاں“ پر اجلاس کا انعقاد

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی کے تیسرے روز ”یادرفتگاں“ پر اجلاس کا انعقاد جون ایلیا لان میں کیاگیا ، اجلاس میں ڈاکٹر رخشندہ حسین ، امجد شاہ، اختر وقار عظیم، عشرت معین سیما، ڈاکٹر ضیاالحسن اور حسین تقی بطور مہمان شریک ہوئے جبکہ نظامت کے فرائض رضوان زیدی نے انجام کی ۔ ڈاکٹر رخشندہ حسین نے طلعت حسین سے متعلق گفتگو میں کہا کہ طلعت حسین کا آرٹس کونسل سے بہت گہرا تعلق رہا ہے کیونکہ انہیں نظم ، نثر مصوری اور لکھائی سے ہمیشہ لگاﺅ تھا، میں چاہتی ہوں کہ طلعت حسین کے قلم اور دیگر اشیاءکو قائد اعظم کی طرح سنبھال کر رکھوں، اختر وقار عظیم نے اپنے بھائی اطہر وقار عظیم کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اطہر وقار عظیم کو بولنے کا بہت شوق تھا، بچپن میں کھیل کود میں بہت دلچسپی رکھتے تھے ان کی استادوں سے بھی بہت دوستی تھی ، اطہر وقار نے ”نگار“ کے نام سے اپنا پہلا پروگرام پی ٹی وی پر کیا۔ انھوں نے کرکٹ کوریج سے متعلق جو انداز اپنایا تھا وہ عوام میں بے حد پسند کیا گیا۔ ڈاکٹر ضیاالحسن نے مشہور شاعر اجمل سراج سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اجمل سراج آخری شاعر ہیں جنہوں نے اپنی شاعری میں ہمیشہ روایت کو قائم رکھا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جن کے پاس زندگی کی گہرائی ہو اور جو اپنے وجود کو جانتے ہیں، ان کی شاعری کا انداز الگ ہوتا ہے، اجمل سراج ایک غیر معمولی شاعر تھے ان کی شاعری میں بہت گہرائی ہے، ان کی شاعری کا بنیادی احساس ملال تھا، سیشن میں مشہور ساز نگار اختر اللہ دتہ سے متعلق بھی گفتگو کی گئی جس پر امجد شاہ نے کہا کہ اختر اللہ دتہ ایک بڑے میوزک کمپوزر تھے ، ان کا مشہور کمپوزنگ آئٹم ڈرامہ اے زندگی کا گانا تھا امجد شاہ نے کہاکہ اختر اللہ دتہ نے وقت کے ساتھ خود کو تبدیل کیا اور بہت سے جینگل کی بھی کمپوزنگ کی۔ جرمنی میں اردو کی پذیرائی میں اہم کردار ادا کرنے والے عارف نقوی کو بھی محفل میں یاد کیا گیا۔ عشرت معین سیما نے عارف نقوی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مشرقی جرمنی میں عارف نقوی اردو اور ہندی کے پہلے استاد تھے، عارف نقوی کے ساتھ جرمنی میں اردو انجمن برلن کا آغاز کیا عارف نقوی نے جرمن طلباءکو اردو کی جانب راغب کیا۔ سیشن میں سینئر صحافی حسین تقی نے راحت سعید کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ میں اور راحت سعید نے کراچی کو اس کی پہچان دلوانے کے لیے زندگی کا بڑا حصہ وفد کیا ہے ، انہوں نے پی آئی اے یونین سمیت دیگر یونین میں اداروں کی بہتری کے لیے اہم قردار ادا کیا۔ راحت سعید کی ہر تحریک کا مقصد تعلیم کی بہتری کے لیے کاوش تھا۔
===============================

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی کے تیسرے روز’’ اردو کی نئی بستیاں‘‘ کے عنوان پر اجلاس کا انعقاد

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی کے تیسرے روز’’ اردو کی نئی بستیاں‘‘ کے عنوان پر اجلاس کا انعقاد جون ایلیا لان میں کیا گیا۔ اجلاس کی صدارت حمیرا رحمان اور اشفاق حسین نے کی۔ شرکاء میں شامل امریکا سے سعید نقوی، برطانیہ سے نجمہ عثمانی، جرمنی سے عشرت معین سیما، امریکا سے وکیل انصاری، امریکا سے عابد رشید، اسکاٹ لینڈ سے راحت زاہد، آسٹریلیا سے تہمینہ راؤ، امریکا سے احمد مبارک، شامل تھے۔ جبکہ اس کی نظامت باسط جلیلی نے کی۔ اجلاس میں اردو زبان بیرونی ممالک میں کس طرح زندہ ہے اور وہاں کے پاکستانی لوگ اپنی ثقافت کو کیسے فروغ دے رہے ہیں اس پر گفتگو کی گئی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ اردو زبان ہمیشہ زندہ رہے گی اور ان کی جہدوجہد باہر کے ممالک میں اسے مرنے نہیں دے گی۔ اشفاق حسین نے کہا کہ بھلے ادب کم ہوگیا ہے لیکن اُردو اور ثقافت آج بھی جاری ہے، ادب پر بھی لوگ کام کر رہے ہیں لیکن اس کی جڑیں پاکستان میں ہیں، انہوں نے کہاکہ ٹیکنالوجی نے بھی کام آسان کردیا ہے پہلے کہ بچے صرف ماں باپ سے اردو کے الفاظ سیکھتے تھے مگر اب فلموں، کارٹون ڈراموں سے بھی سیکھ لیتے ہیں۔ لہٰذا ٹیکنالوجی نے بڑی مدد کی ہے اس لیے لکھ نہیں سکتے تو سن سکتے بول سکتے ہیں تو اتنا مایوس ہونے کی ضرورت ہے۔ نیویارک سے آئے ہوئے مصنف سعید نقوی نے کہا کہ وہ اردو زبان کے لیے نیویارک میں کام کر رہے ہیں، ہر ہفتے دو سیشن کرواتے ہیں ایک آن لائن دوسری مل کر بیٹھک ہوتی ہے جس میں نظم، نثر ادب پر بحث کی جاتی ہے تاکہ اردو کے لیے کارروائیاں جاری رہیں۔ برطانیہ سے آئی ہوئی مصنفہ نجمہ عثمان نے کہا کہ اردو کی نئی بستیاں باہر ممالک میں ان لوگوں نے آباد کی جو پاکستان سے باہر گئے اور یہ وہ لوگ ہیں جو ثقافت اور اپنی تہذیب اپنے ساتھ لے کر گئے۔ انہوں نے کہا کہ اب تو برطانیہ میں نثر، نظم، مشاعرہ، بیت بازی جیسے پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ مصنفہ عشرت معین نے بھی جرمنی میں اردو زبان کو فروغ دینے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جرمنی میں اردو زبان زندہ ہے، وہاں اردو زبان کے بچے باقاعدہ اردو بولتے ہیں جب کہ دیگر ممالک میں ایسا نہیں ہے۔ اس پر مصنفہ نے اپنی اردو تنظیم کی ٹیم کو داد بھی دی۔ وکیل انصاری جنہوں نے شمالی امریکا میں اردو کی پانچ بڑی کانفرنسز کا کامیابی سے منعقد کروا چکے ہیں انہوں نے کہا کہ آج نیویارک میں مختلف انجمن ہیں جو اردو زبان کے لیے بہت اچھا کام کر رہی ہیں جس میں وہاں کی حکومت کا تعاون قابل تشکر ہے۔امریکا میں اب عربی، پشتو اور اردو زبان سیکھائی جارہی ہے یہاں تک کہ سفارتکار بھی اْردو زبان کو سیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ تاہم یہ ثبوت ہے کہ اردو مرنے والی چیز نہیں ہے بھلے ہم چلے بھی جائیں۔ اسی بات پر سب نے مل کو پرجوش انداز میں ’’اردو زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا۔ اسی طرح دیگر شرکاء نے بھی اردو زبان کے لیے اپنی اپنی جہدوجہد کو نمایاں کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کے خون میں ان کی ثقافت، تہذیب اور اْردو زبان دوڑتی ہے لہٰذا وہ اس کو کسی بھی صورت میں نئی نسل میں منتقل کرنے کے لیے کوشاں رہیں گے۔
==============================


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سترھویں عالمی اردو کانفرنس ۔جشن کراچی کے تیسرے روز ”بلوچی ثقافت و ادب“ پر سیشن کا انعقاد

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سترھویں عالمی اردو کانفرنس ۔جشن کراچی کے تیسرے روز ”بلوچی ثقافت و ادب“ پر سیشن کا انعقاد آڈیٹوریم II میں کیا گیا، سیشن کی نظامت وحید نور نے کی جبکہ جاوید صبا، فاضل جمیلی، اسحاق خاموش، قادر بخش کلمتی اور ناصر کریم نے موضوع سے متعلق گفتگو کی۔ سیشن کے آغاز میں وحید نور نے کہا کہ کراچی کی مادری زبان بلوچی ہے اور آج کا سیشن حال میں بچھڑ جانے والے بلوچی ادیبوں کے نام کیا گیا ہے۔ جس کے بعد جاوید صبا نے مشہور صحافی نادر شاہ عادل سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نادر شاہ اپنے ورکرز کے ساتھ بہترین رویہ رکھتے تھے، نادر شاہ عادل کی مادری زبان اردو نہیں تھی مگر اردو ادب پر بھی گہری نظر رکھتے تھے انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ نادر شاہ سے لیاری ملاقات کے لیے گیا تو کہنے لگے لیاری کے حالات خراب ہیں جن بچوں کے سر پر ہاتھ رکھتے تھے آج وہ آنکھیں دکھاتے ہیں۔ لیاری ٹاﺅن کے ناظم ناصر کریم نے علی محمد شاہین سے متعلق گفتگو میں بتایا کہ علی محمد شاہین کا بلوچستان اور وہاں کے لوگوں سے متعلق معلومات اور علاقے سے لگاو بہت بہترین تھا، ناصر کریم کا کہنا تھا کہ آج شرمندگی ہوتی ہے کہ معاشرے نے علی محمد شاہین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، علی محمد شاہین سات زبانیں جانتے تھے وہ بھی روانی کے ساتھ۔ وہ بغیر تذلیل کے بہترین انداز میں انسان کو سمجھاتے تھے۔ مشہور شاعر فاضل جمیلی کا اختر بلوچ سے متعلق گفتگو میں کہنا تھا کہ اختر بلوچ پہلے صحافی تھا پھر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے لگا، اختر بلوچ کچھ عرصے کے لیے لاپتہ بھی ہوا لیکن ماضی کی اچھی بات یہ تھی کہ لوگ کچھ عرصے کے لیے غائب ہوتے تھے پھر واپس آجاتے تھے، اختر بلوچ کتابیں پڑھ کر سچائی کی کھوج میں نکلتا تھا، انہوں نے خواجہ سراﺅں سے متعلق تیسری جنس کے نام سے کتاب لکھی۔ کراچی والا اور تیسری جنس کتاب کے لیے اختر بلوچ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اختر بلوچ نے بلوچ، پارسی، یہودی سب پر ہی کھوج کی اور ان سے متعلق لکھا۔ سیشن میں شریک قادر بخش کلمتی نے گل حسن کلمتی سے متعلق گفتگو میں کہا کہ گل حسن کلمتی وطن پرست اور تحقیق دان تھے، ان کی مشہور کتابوں میں سندھی ماروی، برف جو دوزخ، ایک تصویر ایک کہانی شامل ہیں۔ قادر بخش کلمتی نے اپیل کی کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں کسی لائبریری کو گل حسن کلمتی کے نام سے منسوب کیا جائے، سیشن میں شاعر اسحاق خاموش نے مراد ساحر کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ مراد ساحر نہ صرف شاعر بلکہ افسانہ نگار بھی تھے۔ مراد ساحر لوگوں کی آواز بنے۔ انھوں نے ضمیر فروشی کے علاوہ ہر کام کیا ہے، وہ بین الاقوامی فٹبالر بھی تھے، وہ اپنے اصولوں کا کبھی سودا نہیں کرتے تھے۔ اسحاق خاموش نے کہاکہ ہم مراد ساحر کو پڑھ کر بلوچی ادب کی جانب راغب ہوئے۔ مراد ساحر کو نجی نشریاتی ادارے نے ایوارڈ کے لیے بلایا مگر ایوارڈ نہیں دیا جس پر مراد ساحر دل برداشتہ ہوکر دنیا سے چلے گئے جس کی ہم آج بھی مذمت کرتے ہیں،سیشن کے اختتام پر وحید نور نے کہاکہ کراچی کی تعمیر و ترقی میں بلوچوں کا اہم قردار ہے جس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

================================

سترھویں عالمی اردو کانفرنس ۔جشن کراچی میں ”پاکستان اور ترکیہ کے ثقافتی و تجارتی رشتے“ پر خصوصی نشست کا اہتمام

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز ”پاکستان اور ترکیہ کے ثقافتی و تجارتی رشتے“ کے عنوان پر خصوصی نشست کا انعقاد کیاگیاجس کی نظامت معروف صحافی اور اینکر عظمیٰ الکریم نے کی، جبکہ مہمان خصوصی ترکیہ کے قونصل جنرل جمال سانگو اور پروفیسر خلیل طوقار نے شرکت کی۔ قونصل جنرل جمال سانگو نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان آنے اور اردو ادب کی عالمی کانفرنس میں شرکت کرنے پر خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات 1947 سے نہیں بلکہ صدیوں پرانے ہیں۔ دونوں ممالک کا تعلق دل اور روح کے رشتے کی مانند ہے۔ جمال سانگو نے پاکستان اور ترکیہ کو ”دو ملک مگر ایک قوم“ قرار دیا اور کہا کہ یہ دوستی سمندر سے گہری اور پہاڑوں سے بلند ہے۔ پروفیسر خلیل طوقار، جو استنبول یونیورسٹی میں گزشتہ 35 برس سے اردو پڑھا رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ترکیہ کی تین یونیورسٹیوں میں اردو ڈیپارٹمنٹ موجود ہیں۔ اردو زبان سے اپنی محبت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ وابستگی ان کہانیوں کا نتیجہ ہے جو ان کی والدہ نے ترکیہ کی جنگ آزادی اور پاکستان کی ترکی کی مدد اور حمایت کے بارے میں سنائی تھیں۔ تقریب کے دوران قونصل جنرل نے دفاعی تعلقات، کھیلوں میں اشتراک اور 2022 کے سیلاب کے دوران ترکیہ کی جانب سے فراہم کی گئی مدد کو اجاگر کیا۔ تقریب کا اختتام قونصل جنرل جمال سانگو کی جانب سے ”جیوے جیوے پاکستان“ پر ہوا جس نے حاضرین کو جوش و جذبے سے سرشار کردیا۔
=====================================

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی 2024ءکے تیسرے روز ”کراچی کے نامور مصور“ کے نام سے سیشن کا انعقاد

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی 2024ءکے تیسرے روز ”کراچی کے نامور مصور“ کے نام سے سیشن کا انعقاد جون ایلیاءلان میں ہوا۔ سیشن میں نظامت کے فرائض شاہد رسام نے انجام دیے، معروف آرٹسٹ مسعود اے خان، فرخ شہاب، مہر افروز اور تنویر فاروقی نے شرکت کی۔ مسعود اے خان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ”آرٹسٹ چاہے قلم کاہو، رنگوں کا ہو یا آوازوں کا وہ دنیا کو نیا موڑ دیتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو معاشرے کو نفرت کے بجائے محبت کا پیغام دیتے ہیں۔” مہر افروز نے کہا کہ ”بنگالی آرٹسٹ بہت باصلاحیت ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک حکومتی سطح پر کام نہیں ہوگا، ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے صادقین کے کام سراہتے ہوئے کہاکہ صادقین کا کام لازوال ہے، بشیر مرزا پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بشیر مرزا نے کراچی کے آرٹ کو ایک الگ پہچان دی ہے اور ان کی کاوشوں سے کراچی کا آرٹ دنیا بھر میں معروف ہوا ہے۔فرخ شہاب نے کہاکہ میں اقبال مہدی کا شاگرد ہوں اور آرٹس کونسل کے آرٹ اسکول میں تمام نامور مصوروں نے ہمیں تعلیم دی ہے۔جس آرٹ کی ہم بات کر رہے ہیں، وہ راہی منصور، علی امام اور صادقین جیسے نامور فنکاروں کا بویا ہوا بیج ہے۔ تنویر فاروقی نے کہا کہ آج جن مصوروں پر ہم بات کر رہے ہیں وہ ہم میں نہیں لیکن ان کے کام کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ہوتی ہے۔
=================================

سترھویں عالمی اردو کانفرنس- جشن کراچی کے تیسرے روز ”میں ہوں کراچی“میں فلم انڈسٹری کے عظیم فنکار مصطفی قریشی، منور سعید اور جاوید شیخ کی شرکت

کراچی (رپورٹ اشرف بھٹی)آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس- جشن کراچی کے تیسرے روز آڈیٹوریمI میں “میں ہوں کراچیA Session with Legends “ منعقد ہوا جس کی میزبانی کے فرائض معروف اداکار احسن خان نے انجام دیے جبکہ شرکائے گفتگو میں اداکار مصطفی قریشی، منور سعید اور جاوید شیخ شامل تھے، سیشن کی ابتداءکرتے ہوئے میزبان اداکار احسن خان نے کہا کہ کراچی ایسا شہر ہے جو سب کو اپنے اندر سمو لیتا ہے یہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا، یہ شہر محبتیں بکھیرتا اور ہر طرف دوستی اور امن کا پیغام دیتا ہے، کراچی سے ابھرنے والے آرٹسٹ دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بنے، گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے مصطفی قریشی نے کہا کہ سندھی ان کی مادری زبان ہے، اردو انہوں نے کراچی سے اپنا فلمی کیریئر شروع کرنے کے بعد سیکھی، انہوں نے کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری کو حکومتوں نے اتنی اہمیت نہیں دی جتنی احمد شاہ نے آرٹس کونسل میں دی ہے، انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستانی فلم انڈسٹری زوال سے دوچار ہوئی اور وفاقی اور سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ فلمی صنعت کی از سر نو بحالی کے لیے کچھ کریں اور ہمارے باصلاحیت نوجوانوں کو ٹیلنٹ کے اظہار کے لیے مواقع فراہم کیے جائیں، جاوید شیخ نے کہا کہ میں آج جو بھی ہوں یہ سب مجھے کراچی نے دیا ہے، میں راولپنڈی میں پیدا ہوا اور اداکاری کا شوق مجھے کراچی کھینچ لایا، کراچی صرف سب کو اپنے اندر سموتا ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کو پالتا بھی ہے، جاوید شیخ نے کراچی میں فلموں میں اپنے کیریئر کے آغاز کی دلچسپ روداد بھی سنائی اور نوجوانوں سے کہا کہ آپ کسی بھی شعبے میں جائیں کامیابی کے لئے تین شرائط یاد رکھیں، شوق، عشق اور شخصیت، سینئر اداکار منور سعید نے کراچی سے اپنے فلمی کیریئر کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ان کا تعلق امروہہ سے ہے اور انہوں نے علیگڑھ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، 1960 میں ان کا خاندان پاکستان ہجرت کر کے پی آئی بی کالونی کو اپنا مسکن بنایا، انہوں نے بتایا کہ بھارتی فلم ساز کمال امروہوی ان کے چچا تھے جبکہ نامور مصور اور خطاط صادقین امروہہ میں ان کے ڈرائنگ ٹیچر تھے، کراچی آ کر انجینئرنگ ڈگری لی اور اسی کالج میں ملازمت شروع کر دی ساتھ ہی اداکاری کا سلسلہ بھی جاری رہا. انہوں نے اداکاری کا شوق رکھنے والے نوجوانوں سے کہا کہ کامیابی کے لیے جنون و دیوانگی ہونی چاہیے، اور وہ محبت سے پیدا ہوتی ہے لہذا اپنے ملک اپنی زبان اور سب سے محبت کریں اور خوب محنت کر کے اپنے جنون کو کامیاب بنائیں۔

et خبرنمبر۔17

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری چار روزہ ”سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔جشن کراچی“ کے تیسرے روز ”تھیٹر،ریڈیو،ٹی وی اور فلم کہانی“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد

کراچی( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔جشن کراچی کے تیسرے روز ”تھیٹر،ریڈیو،ٹی وی اور فلم کہانی“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں افتخار عارف،منورسعید،خوش بخت شجاعت، اختر وقار عظیم، امجد شاہ نے گفتگو کی۔ نظامت کے فرائض ہما میر نے انجام دیے ۔افتخار عارف نے کہا کہ ریڈیو پاکستان کا آغاز لاہور سے ہوا بعد میں کراچی منتقل کردیا گیا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے تلاوت سے آغاز کیا ریڈیو پاکستان بڑے آرٹسٹوں کا گہوارہ تھا ، ریڈیو پاکستان نے بڑے بڑے نام ٹی وی کو دیے اسکرپٹ کے بغیر کوئی ڈرامہ کامیاب نہیں ہوتا، سب سے پہلے ناول کو ڈراموں میں پی ٹی وی نے پیش کیا جس میں سب سے پہلا ڈرامہ ”خدا کی بستی“ فاطمہ ثریا بجیا نے لکھا ۔پی ٹی وی کے شروع کے پندرہ برس بہترین تھے۔ اختر وقار عظیم نے کہاکہ شہر میں ادیب بہت ہیں ریڈیو پاکستان کو دانشوروں کا گڑھ کہا جاتا تھا، خوش بخت شجاعت کا پہلا ڈرامہ فیروزاں تھا جس میں نئے شاعروں کو متعارف کرایا جاتا تھا۔ پروین شاکر بھی وہیں سے متعارف ہوئیں، پہلے جو بھی کام ہوتا تھا ٹیم ورک کے ذریعے ہوتا تھا، خوش گفتار لوگ تھے، باتوں سے بھی کام کرا لیتے تھے ۔خوش بخت شجاعت نے کہاکہ ریڈیو ایک درخشاں تھا، ریڈ یو میں طلبہ، خواتین کے الگ ڈرامے ہوتے تھے ۔ریڈیو کا ذکر ہو اور یاور مہدی کا ذکر نہ ہو ایسا ممکن نہیں ۔جب ٹی وی میں آئیں تو عہد افتخار میں آنکھ کھولی ۔افتخار عارف عبیداللہ عدیم سے بہت کچھ سیکھا ۔پہلے کے ریڈیو اور ٹی وی میں تہذیب اور کلچر کو اہمیت دی جاتی تھی۔ ریڈیو ،ٹی وی کا کلچر ادبی معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ منورسعید نے کہا کہ گنڈاسا اور اکھاڑا سے ڈرامے شروع کیے ان ڈراموں کو دیکھ کر فلم کی آفر ہوئی اورپھر لاہور منتقل ہوگیا۔ ضیاءالحق کے آنے سے ڈراموں پر بہت فرق پڑا۔ خواجہ معین الدین تھیٹر کا بہت بڑا نام تھا۔ امجد شاہ نے کہا کہ بڑے نام ریڈیو سے ٹی وی پر آئے جن میں مہدی ظہیر ،قاضی واجد، منورسعید، اطہر علی خان سارے اداکار ریڈیو سے ٹی وی پر آئے۔ تھیٹر، ریڈیو، ٹی وی اور فلم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
================================
خبر نمبر ۔ 18

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ چار روزہ عالمی اردو کانفرنس۔جشن کراچی میں ”پاکستان میں میڈیا کی تاریخ “ پر گفتگو

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی کے تیسرے روز ” پاکستان میں میڈیا کی تاریخ“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک کے نامور صحافیوں نے شرکت کی ، شرکا میں شامل سہیل وڑائچ ، مظہر عباس ، عاصمہ شیرازی اور وسعت اللہ خان نے ملک کی حالیہ اور ماضی میں کی گئی صحافت اور صحافیوں کے حالات پر خیالات کا اظہار کیا ، ابصا کومل نے سیشن کی نظامت کے فرائض انجام دیے ۔ اپنی گفتگو میں سینئر صحافی مظہر عباس نے کہا کہ پہلے انفارمیشن کا زمانہ تھا ، اب ڈس انفارمیشن کا زمانہ ہے ، اس ملک میں ہر طرح کی فسطائیت ہمیشہ سے رہی ہے ، انہوں نے منسٹری آف انفارمیشن کو منسٹری آف ڈس انفارمیشن قرار دیتے ہوئے اسے بند کرنے کا مطالبہ کیا، انہوں نے کہا کہ آج ورکنگ جرنلسٹ جان دے رہا ہے اور درباری صحافی مزے میں ہے ، وسعت اللہ خان نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اسی کی دھائی تک زندہ رہنے والے صحافی کیونکہ تقسیم کے وقت مزاحمت کا دور دیکھ چکے تھے اس لیے وہ بھی مزاحمت پر یقین رکھتے تھے ، اب صحافیوں کے بہت سے گروپس بن چکے ہیں ، انہوں نے ازراہ مزاق کہا کہ مجھے خود پتا نہیں کہ میں کون سے گروپ میں ہوں ، انہوں نے کہا کہ پہلے مالکان خاندانی تھے اب میڈیا مالکان اپنے دیگر کاروبار کی ڈھال کے طور پر چینلز کھول لیتے ہیں ، عاصمہ شیرازی نے کہا کہ پہلے صحافت کو آمریت کا سامنا تھا اب فسطائیت کا سامنا ہے، ہمارے سامنے بڑا چیلنج فیک نیوز کا ہے ، ہم پاپولر جرنلزم کا شکار ہو چکے ہیں ، صحافت آج کے دور میں کمپرومائز کا نام ہے ، انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ اور وی پی این کی بندش سے سچ روکنا ممکن نہیں ، معروف صحافی سہیل وڑائچ نے پینل میں موجود دیگر صحافیوں کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے آج کی صحافت کو ماضی کی صحافت سے بہتر قرار دیا، انہوں نے کہا کہ آج ملک جس حال میں ہے اس میں سب سے بڑے مجرم ہم صحافی ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہر جگہ ایک ہی خبر چلتی تھی مگر آج میڈیا پر ورائٹی موجود ہے ، ہر صحافی اپنے موقف کا اظہار کرتا ہے تاہم لوگوں تک سچ کسی نا کسی طرح پہنچ ہی جاتا ہے ، وسعت اللہ خان کا کہنا تھا کہ آج ہماری رکاوٹوں میں اضافہ ہوگیا ہے ، پہلے فائر وال، پھر اے آئی اور اب ڈیپ فیک کا سامنا ہے ، گفتگو سمیٹتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ آزادی ملتی نہیں بلکہ چھینی پڑتی ہے جو معاشرے اپنے حقوق کی حفاظت نہیں کرتے ان کا یہی حشر ہوتا ہے جو آج ہم دیکھ رہے ہیں ، معاشرہ جب تک سچائی کا ساتھ نہیں دے گا بہتری نہیں آسکتی۔

==================================

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام جاری چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔جشن کراچی میں معروف شاعرہ محترمہ زہرا نگاہ کے ساتھ نشست

کراچی (رپورٹ اشرف بھٹی) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔جشن کراچی کے تیسرے روز معروف شاعرہ محترمہ زہرا نگاہ کے ساتھ نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی میزبانی صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کی ، محمد احمد شاہ کے برجستہ جملوں اور دلچسپ چٹکلوں نے محفل کو کشتِ زعفران زار بنا رکھا تو دوسری جانب محترمہ زہرا نگاہ کی پڑھی گئی نظموں پر حاظرین نے دل کھول کر داد دی ، زہرہ نگاہ نے اپنے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ میرا تعلق ادبی گھرانے سے ہے ، والد بدایوں سے تعلق رکھتے تھے اور شاعری کے شوقین تھے ، تاہم میری سب سے زیادہ حوصلہ افزائی میری والدہ نے کی ، انہوں نے بتایا کہ بچپن میں ہم سب بہن بھائی بیت بازی کی محافل سجاتے تھے جس سے ہماری شعری اصلاح بھی ہوجاتی تھی، ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان جن مراحل سے گزر رہا ہے اس میں بچوں کا نہیں بڑوں کا قصور ہے ، بچوں کو جو ہم سکھائیں گے وہ وہی سیکھیں گے ، ہماری تربیت میں ہمارے بزرگوں کی تربیت کا اثر ہے ، محترمہ زہرا نگاہ نے مشاعروں کے دوران پیش آنے والے دلچسپ واقعات بھی حاضرین کی نذر کیے ، پنڈی کے ایک مشاعرے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ شعراءکے بائیکاٹ کے بعد حبیب جالب اور انہوں نے مل کر مشاعرے کو سنبھالا ، انہوں نے ماضی میں پابندیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے خواتین کا مشاعروں میں شرکت کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا تاہم انہیں ہمیشہ اپنے خاوند اور گھر والوں کا تعاون حاصل رہا ، اولین دنوں میں گھر والوں نے انہیں مشاعروں میں شرکت کے لیے سفید لباس سلوا کر دیا، زہرا نگاہ نے سوات کی بچی سے متعلق اپنی نظم اور غزہ کی حالیہ صورتحال پر اپنی تازہ نظم سنائی جس پر حاضرین کی جانب سے انہیں خوب داد ملی ، زہرا نگاہ نے اپنی گفتگو میں ملک کے لیے اپنی قابلیت استعمال کرنے والے نوجوانوں کو سراہا ، سیشن کے اختتام پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے محترمہ زہرا نگاہ کو پھولوں کا گلدستہ پیش کیا۔

=================================================


خبر نمبر۔20

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس ۔ جشن کراچی 2024 ءکے تیسرے روز ”سلمان گیلانی کے ساتھ “ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی 2024 ءکے تیسرے روز“ سلمان گیلانی کے ساتھ “ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد کیا گیا، جس میں میزبانی کے فرائض شکیل خان نے انجام دیے ، مہمان خصوصی سلمان گیلانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عالمی اردو کانفرنس میں آ کر بہت اچھا لگتا ہے ، کراچی والے مہمان نواز اور پیار کرنے والے لوگ ہیں۔ مزاح سے بھرپور شعر و شاعری نے شرکاءکو محظوظ کیا۔ شرکاءنے تالیاں بجا کر داد دی۔ شکیل خان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شروع شروع میں گھر والے ناراض ہو جاتے تھے۔ اب گھر میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ جس طرح شعر کہنا فن ہے اسی طرح شعر کو سمجھنا بھی فن ہے جو بھی شعر ،نظم کہتا ہوں اس میں کوئی سبق ضرور ہوتا ہے۔ آخر میں شرکاءکی فرمائش پر اپنی مشہور نظم سنائی۔ جس پر ہال میں موجود لوگوں نے خوب تالیاں بجائیں ۔
=======================================

خبر نمبر۔21

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی میں شاہد آفریدی کی انٹری

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی کے تیسرے روز ” میں ہوں کراچی“ میں کرکٹ کے معروف کھلاڑی شاہد آفریدی نے دلچسپ گفتگو سے جون ایلیا لان میں موجود نوجوان نسل کے دل جیت لیے، اس موقع پر ہوپ ناٹ آﺅٹ کے سی ای او ظفر ملک بھی موجود تھے نظامت کے فرائض عبداللہ سلطان نے انجام دیے ، کرکٹ کا شوق کیسے ہوا کراچی شہر سے تعلق کیسا ہے؟ سوال پر شاہد آفریدی نے جواب دیا کہ کراچی سے تعلق بہت مضبوط ہے میرا یہی شہر ہے، مجھے بچپن سے ہی کرکٹ کا شوق تھا کراچی کی گلیوں اور سڑکوں پر کرکٹ کھیلا کرتا تھا جس وقت شہر کے حالات خراب اور ہر طرف لسانی فسادات پھیلے ہوئے تھے اس وقت بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ وقت بھی گزر گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مشکل حالات میں اللہ پر بھروسہ تھا تو سب کام آسان ہو گئے، انہوں نے بتایا کہ انڈر 14 سے کرکٹ کھیلنا شروع کی اس میں اچھی پرفارمنس رہی پھر انڈر 19 میں سلیکشن ہوئی اور پھر قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنا، شاہد آفریدی کو ٹیم کا ہٹر قرار دیا جاتا تھا اور یہی وجہ تھی کے جب بھی وہ پچ پر آتے سنگل ڈبل کے بجائے چھکے چوکے مارتے اور گراو¿نڈ میں بوم بوم آفریدی کے نعرے لگتے، شاہد آفریدی نے ٹیم میں ہونے والی سیاست اور بد نظمی پر کہا کہ بہت سارے لوگوں نے ان کے ساتھ اچھا نہیں کیا مگر جب وہ خود کپتان بنے تو انہوں نے اپنا دل بڑا کیا اور ناانصافی کرنے والوں کو بھی ٹیم میں موقع دیا، علاوہ ازیں انہوں نے اپنے فلاحی کاموں اور اس کے لیے بنائی گئی تنظیم ہوپ ناٹ آو¿ٹ کی تشکیل پر بھی بات کی اور وہ کیا کیا کام کرتی ہے اس حوالے سے ڈاکیومنٹری بھی دکھائی گئی۔ شاہد آفریدی نے بتایا کہ انہوں یہ کام اپنے والد کے نام کی خاطر شروع کیا۔ اس کی شروعات ایک گاو¿ں میں کلینک سے ہوئی جہاں خواتین علاج کے لیے سینکڑوں میل دور کا سفر کرتی تھیں۔ تاہم اس کلینک میں انہیں یہ سہولت ملی کہ اب انہیں کہیں دور نہیں جانا پڑتا اور وہ معیاری طبی سہولیات سمیت اپنے گاو¿ں میں علاج کرواتی ہیں۔
ان کی تنظیم کے سی ای او ظفر ملک نے بتایا کہ آفریدی کو لوگ ویسے تو بہت غصے والا کھلاڑی کے طور پر جانتے ہیں مگر ان کا دوسرا رخ نہیں دیکھا۔ شاہد آفریدی فاو¿نڈیشن آج پورے ملک کے دور دراز گاو¿ں میں 12 موبائل اسپتال کی سروس دے رہا ہے۔ جن گاو¿ں میں پانی نہیں تھا وہاں پانی کی سہولت فراہم کی، بچوں کی تعلیم خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر کام کیا جارہا ہے۔اس پر شاہد آفریدی نے سب سے درخواست کی کہ بچوں کی تربیت پر ضرور توجہ دیں ان کو ٹک ٹاک کی دنیا کے بجائے اصلی زندگی سے آشنا کرائیں، حالیہ کرکٹ پر بات کرتے ہوئے آفریدی نے کہا کہ وہ شاہین آفریدی کے کپتان ہونے کے حق پر نہیں تھے مگر اعتراض یہ تھا کہ اگر بنایا گیا ہے تو جیسے بابر کو موقع دیا منوانے کا تو اسی طرح دوسرے کو بھی دیا جاتا کم از کم چھ ماہ یا سال آزمایا جاتا یہ نہیں کہ فوراً ہٹا دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ محمد رضوان کے کپتان بننے پر مطمئن ہیں کیونکہ بابر کے بعد انہیں ہی کپتان بننا چاہیے، انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ نہیں ہے ٹیلنٹ بہت بھرا ہے مگر کرکٹ اکیڈمیز نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کراچی میں حکاموں سے اکیڈمیز کا مطالبہ کرتے رہے مگر کان نہیں دھرے گئے اب وہ خود اس کو بنانے کی جدو جہد کر رہے ہیں، آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ اچھا کھلاڑی صرف پچ پر پرفارم کرنے سے نہیں ہوتا بلکہ وہ پچ کے پیچھے کتنی محنت لگن سے اپنی فٹنس اور کارکردگی پر کام کر رہا ہے اس سے بنتا ہے۔ آخر میں انہوں نے احمد شاہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس شہر کی رونق ان ایونٹس سے ہمیشہ قائم رہنی چاہیے