شمالی سندھ یا شمالی وزیرستان ؟

تحریر۔ عاجز جمالی


شمالی سندھ کے سات اضلاع ہمیشہ کشت و خون میں ڈوبے ملیں گے۔ دریائے سندھ کے دونوں اطراف موجود کچے ( جنگلات ) میں ہمیشہ اسلحے کے انبار لگتے ہیں۔ اسلحے کا کاروبار اتنا کہ روس چین امریکہ برانڈ اسلحہ بھی یہاں پر دستیاب ہے۔ انٹی کرافٹ گن ہو یا چھوٹے راکٹ میزائل۔ کلاشنکوف ہو یا تھری ایم ایم۔ سیون ایم ایم۔ جی تھری۔ یا کسی بھی قسم کا سرکاری غیر سرکاری بندوقیں۔ بم بارود یہاں پر دستیاب ہوتے ہیں۔ پہلا سوال تو یہ بنتا ہے کہ جنگلات میں اتنا اسلحہ کون لاتا ہے ؟ کوئی حکومت۔ کوئی ریاست۔ کوئی پولیس یا کوئی سرکاری مشینری بھی ان اضلاع میں رہتی ہوگی ؟ اگر ہاں تو پھر کیا وہ آفیون پی کر سوئی ہوئی یا پھر پورے کاروبار میں کوئی شراکت داری ہے۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ جیکب آباد۔ کشمور۔ شکارپور۔ سکھر۔ لاڑکانہ۔ خیرپور۔ اور گھوٹکی کے اضلاع میں ڈاکووں اور مفرور افراد کو اسلحے کی فراہمی سے لے کر اغوا برائے تاوان کے کاروبار اور قبائلی تنازعات میں ان اضلاع کے قبائلی سرداروں۔ وڈیروں۔ نوابوں۔ نواب زادوں۔ رئیسوں اور خانوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ انہی اضلاع سے منتخب ارکان اس پورے کھیل میں گذشتہ کئی دہائیوں سے شریک ہیں۔ وہ چاہے کسی بھی پارٹی سے ہوں یا حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سیاسی کرسی۔ حکومت۔ اسمبلی۔ سب ہی بلواسطہ یا بلا واسطہ اس کھیل میں شامل ہوتے ہیں یا پھر کبھی کبھار انسانوں کو مُرغوں۔ ریچھ کُتوں یا پھر جانوروں کی طرح لڑواکر خاموش تماشائی بن جاتے ہیں۔ قبائلی سردار اپنے اپنے قبیلے کے معصوم لوگوں کو مرغا بنوا کر میدان میں اتارتے ہیں۔ قتل کرواتے ہیں اور پھر ان کے جرگے کرواتے ہیں۔ جرگوں میں چھوٹی بچیوں کو خون بہا ہا پھر سنڱ چٹی( عوضِ جرمانہ ) کے طور پر دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سندھ میں جرگوں پر پابندی عائد کی تھی۔ مگر برسوں سے جرگے جاری ہیں۔ تنازعات کا قبائلی طریقے سے تضفیہ ریاست۔ حکومتی وزراۂ اور پولیس کی موجودگی میں ہوتے ہیں۔ جن میں کروڑوں روپے کے جرمانے۔ معاوضے۔ طلاق۔ خون بہا کے فیصلے ہوتے ہیں جو کہ سراسر ماورائے عدالت ماورائے قانون ہوتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ جرگے یا فیصلے ڈھکے چھپے نہیں ہوتے باقاعدہ میڈیا میں رپورٹ ہوتے ہیں گویا ریاستی قانون قبائلی سرداروں اور نوابوں کے گھر کی لونڈی کے برابر ہے۔ پولیس کے افسران بھی غلاموں کی فوج ظفر موج ہوتے ہیں۔ کبھی کسی اچھے پولیس افسر نے پنگا لیا ہوگا تو وہ زیادہ عرصہ نہیں رہ سکا ہوگا۔ جب سے ہوش سنبھالا یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے ریاست کی آنکھیں بند۔ حکومت گونگی بہری۔ سیاست پناہ گاہ۔ پارلمنٹ اور اسمبلی قانون سے عاری۔ پولیس گھر کی لونڈیا۔
گذشتہ روز ضلع کشمور کے ضلعی ہیڈکوارٹر کندھ کوٹ کے کچے کے علاقے میں جاگیر انی اور سبزوئی قبیلے کے مسلح افراد نے مل کر چاچڑ قبیلے کے دس افراد کو قتل کردیا۔ کئی گھنٹوں تک دونوں گروپ مورچہ بند تھے۔ فائرنگ جاری رہی نا کوئی پولیس تھی نہ حکومت ! حسب روایت گھنٹوں کی تاخیر سے جب پولیس پہنچی تو چراغ گُلُ ہو چکے تھے۔ مسلح افراد فرار ہوچکے تھے یا پھر ان کو فرار کرنے کے موقعہ فراہم کیا گیا تھا ؟ اس واقعے سے قبل فریقین میں کشیدگی تھی۔ سرداروں کے جلتی پر تیل کا کام دکھانے والے بیانات جاری ہو رہے تھے۔ بلا آخر عید کے دوسرے روز نتیجہ بر آمد ہوگیا۔ دس بے گناہوں کی اجتماعی نماز جنازہ کی صورت میں۔ چار پائیوں پر اجرکوں کے نیچے ایک ہی باپ کے چار جوان بیٹے ابدی نیند سو گئے گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ بندوقوں کے سائے تلے نماز جنازہ پڑھی گئی نماز میں شریک بارہ سالہ بچہ بندوق تھامے گردن میں گولیوں کا پٹہ ڈالے کہہ رہا ہے کہ پلاند کروں گا ( بدلہ لوں گا ) اور میڈیا رپورٹس کے مطابق علاقے میں کشمکش جاری ہے۔ اجتماعی جنازے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے اجتماعی طور پر ڈوب مرنے کا مقام ہے کیونکہ یہ وہ سندھ تو نہیں جو شاہ لطیف کا سندھ ہے جو سچل سرمست کا سندھ ہے۔ یہ تو شمالی سندھ آج شمالی وزیرستان بن چکا ہے۔ سندھ کو شمالی وزیرستان بنانے پر سب ہی خاموش ہیں یا پھر سب ہی شریک ہیں۔ یہ اجتماعی جنازے اجتماعی ڈوب مرنے کا پیغام ہے۔ آئیں مل کر ڈوب مریں۔ کیونکہ حاکموں کی حکومت نہیں ڈوب سکتی ان کے ڈوبنے کے لئے چِلو بھر پانی اور غیرت کا ذرہ چاہئے۔