کوئی ممبر خریدا نہیں جاسکا?

یاسمین طہٰ

—————
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے سیاست میں اپنے ہی ممران کو مارنے کی نئی روایت قائم کی ہے۔سندھ اسمبلی میں سینیٹ انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کے اراکین نے اپنی پارٹی کے امیدواروں کے حق میں ووٹ نہ دینے کا اعلان کرنے والے تین ممبران اسمبلی شہریار شر، اسلم ابڑو اور کریم بخش گبول پر سندھ اسمبلی آمد پرحملہ کردیا۔ان کی خوب پٹائی کی۔ یہی نہیں حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے ایک دوسرے کی خلاف نازیبا الفاظ استعمال کا بھی ریکارڈ قائم کیا۔جس کی باعث اسپیکر ڈائس کے شیشے ٹوٹ گئے، اور ڈپٹی اسپیکر کو ملتوی کرنا پڑا۔اجلاس کے بعد اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں سے الجھ پڑے جس کی وجہ سے پریس کانفرنس ختم کرنا پڑی۔ انھوں نے صحافیوں پر بھتہ خوری، اور لفافے لینے کا الزام بھی عائد کیا۔جس پر صحافیوں کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔اتحادی جماعت جی ڈی اے کے صدرالدین راشدی سینٹ الیکشن ہارنے کے بعد حکومت سے شدید ناراض ہیں۔اور ان کی ناراضگی بجا ہے کیوں کہ ان کی پارٹی نے سینٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو ووٹ دئے جب کہ سندھ میں پی ٹی آئی کے سات ممبران نے انھیں ووٹ دینا تھا لیکن ان کے ساتھ دھوکا ہوا اور انھیں پاکستان تحریک انصاف کا صرف ایک ہی ووٹ مل سکا اس مسئلے پر منعقدہ پریس کانفرنس میں جی ڈی اے کے رہنماؤں نے وزیر اعظم سے انکوائری کا مطالبہ کیا ہے،ان کا کہنا تھا کہ ہماری مدد سے سندھ میں اپوزیشن نے نشستیں حاصل کیں اس لئے ان چھ احسان فراموش ممبران کے نام سامنے آنے چاہئے جنھوں نے ووٹ نہیں دئے ۔ان کا کہنا تھا کہ جی ڈی اے کے چودہ ممران کی وجہ سے متحدہ اور تحریک انصاف کے امیدوار فاتح قرار پائے،ہمارا کوئی ممبر خریدا نہیں جاسکا جبکہ پی ٹی آئی کے ممبر ضمیر فروش ثابت ہوئے واضع رہے کہ صدرالدین راشدی کو 21 ووٹ ملنا تھے لیکن 15 ووٹ ہی مل سکے جس میں سے 14 ووٹ ان کی اپنی پارٹی کے ممبران کے تھے۔متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے مرکز بہادر آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد نے ناصر حسین شاہ کی سربراہی میں ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کے سینئر ڈپٹی کنوینر عامر خان سے ملاقات میں چیئر مین سینیٹ کے الیکشن کیلئے تعاون کی اپیل کی ہے۔پاک سر زمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان جب بھی بات کرتے ہیں قوم کو مایوس ہی کرتے ہیں، وزیر اعظم اسمبلی میں موجود اپوزیشن کو چور ڈاکو کے القابات سے تو نوازتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ان چور ڈاکووں کو پکڑے کی زمہ داری بھی وزیراعظم پر ہی عائد ہوتی ہے۔ جن کو وزیر اعظم چور اور ڈاکو کہہ رہے ہیں انکو بھی عوام نے ووٹ دیکر اسمبلیوں میں پہنچایا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے احتساب عدالت کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ پاک سر زمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال نے کہا کہ ہمیں علم ہے کہ وزیراعظم کی انا بہت بڑی ہے لیکن ریفارمز لانے کے لیے اسی اپوزیشن سے بات کرنی پڑے گی، وزیراعظم اپنے لئے نا سہی عوام کے لئے اپوزیشن سے بات کریں، میں وزیر اعظم سے گزارش کرتا ہوں کہ اس قوم کے ساتھ دھوکہ نہ کریں، پارلیمنٹ عوامی مسائل کے لئے تب کام کرسکے گی جب وزیراعظم اپوزیشن سے بات کریں گے۔حکومت اور اپوزیشن کو لڑتے لڑتے ڈھائی سال گذر گئے، کیا وزیراعظم باقی ماندہ وقت بھی ایسے ہی گذرنا چاہتے ہیں؟ مفاہمت کی پہلی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے،۔ ایم کیو ایم پاکستان 18 مارچ کو کس یوم تاسیس کی بات کررہی ہے؟ 18 مارچ تو الطاف حسین کی ایم کیو ایم کا یوم تاسیس ہے جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کا یوم تاسیس23 اگست ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم کیو ایم کے پاس اس شہر کی 7 سیٹیں موجود ہیں، چونکہ سینٹ کے انتخابات میں وزیر اعظم کو ایم کیو ایم کی ضرورت تھی، ان کے پاس موقع تھا کہ وہ سینٹ کے الیکشن میں اپنی بات منوانے کے لیے، مردم شماری کے مسئلہ کو حل کرنے پر زور دیتے۔یہ خبر عام تھی کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی اپنی نو منتخب خاتون سینیٹر خالدہ اطیب کی حلف برداری اور چیئرمین سینیٹ کے لیے ووٹ کی خاطر خالدہ اطیب کی ایک ماہ قبل ہی عدت ختم کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ایسے مولوی کی تلاش میں ہیں جو ان کی پسند کا فتویٰ دے کر خالدہ اطیب کو عدت توڑنے اور اسلام آباد جاکر حلف لینے کی اجازت دے دیں ۔اور غالباً انھین مطلوبہ فتوی مل گیا جس کے بعد ایم کیوایم کی نومنتخب سینیٹر خالدہ اطیب بھی حلف برداری اور سینیٹ ووٹنگ کے لیے اسلام آباد میں موجود تھیں ،اس حوالے سے کشور زہرہ کا کہنا تھا کہ خالدہ اطیب نے فیصلہ علمائے کرام کے مشورے کی روشنی میں کیا ہے اور عدت مکمل کرنے کے بعد سینیٹ کے سیشن میں حصہ لیں گی۔جب کہ جامعہ بنوریہ نے اپنے فتوے مین واضع طور پر کہا ہے کہ ووٹ ایسی شرعی مجبوری نہیں جس کے لئے عدت سے نکلنے کی گنجائش دی جاسکے۔ اب یہ تو متحدہ کو ہی معلوم ہے کہ کون سے شرعی تقاضوں کے ساتھ خالدہ اطیب نے سینٹ چئرمین کے انتخاب مین حصہ لیا۔متحدہ کے ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ فتویٰ کس طرح حاصل کیا گیا ہوگا۔