رسول پور اور جبی سیداں ، ہر گاوں ایسا ہو سکتا ہے ؟

سچ تو یہ ہے ۔

بشیر سدوزئی،
————————
ترقی یافتہ دنیا میں بڑے بڑے رئیس و نواب گاوں میں رہنا پسند کرتے ہیں ۔جہاں تمام جدید سہولتوں کے ساتھ شہروں کے مقابلے میں ماحول شفاف اور زندگی زیادہ پرسکون و آسائیشوں پر مبنی ہوتی ہے۔ تاہم پاکستان سمیت ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں گاوں کی زندگی کے بارے میں یہ تصور آتا ہے کہ وہاں غربت جہالت، گندگی اور پسماندگی بے روزگاری ہے اس لیے لوگ شہروں کی طرف ہجرت کرتے ہیں ۔ لیکن پاکستان اور آزاد کشمیر کے مبینہ دو گاوں ایسے ہیں جو مثالی ہیں۔ اگر پاکستان کا ہر گاوں ایسا ہو جائے تو ہم ترقی میں یورپ سے بہت آگئیں چلے جائیں ۔ ان گاوں کی تعلیم اور ترقی پاکستان کے بڑے شہروں لاہور اور کراچی سے بھی بہت زیادہ اور مثالی معاشرہ ، مضبوط اخلاقی بنیادوں پر قائم ہے ۔ یہ مضبوط اخلاقی بنیادیں تعلیم نے پختہ کی۔ جہاں کسی بھی قسم کے جرائم نہیں ہوتے، جہاں کوئی منشیات حتی کے دوکانوں پر سیگریٹ کی خریدوفروخت بھی منع ہے۔ اگر کوئی دوکان دار سگرٹ فروخت کرتے پکڑا گیا یا اس کی شکایت ہوئی ، تو اس کا سماجی بائی کاٹ اور دوکان بند کرا دی جاتی ہے۔ اس گاوں میں چائے کا کوئی ہوٹل بھی نہیں کھول سکتا۔ لوگ ہوٹل پر بیٹھیں گے اورفضول کی محفل جمے گی۔اس میں دوسرے گاوں کے لوگ بھی آ کر بیٹھیں گے جو گاوں کا ماحول خراب کریں گے ۔ جہاں کی گلیاں، مساجد اور اسکول بھر پور آباد ، اسپتال اور تھانے غیر آباد ہیں، تعلیم یافتہ ہونے کے باعث لوگ قبل از بیماری صحت کا خیال رکھتے ہیں اور جرائم سے اجتناب کرتے ہیں ۔ یہ گاوں” رسول پور” ضلع راجن پور کے نواح میں واقع ہے جہاں کی آبادی لگ بھگ تین ہزار ہے ۔ بلوچ آبادی پر مشتمل اس گاوں کی شرح خواندگی 100 فیصد ہے۔ خواندگی کا مقصد صرف دستخط کرنا نہیں بلکہ میٹرک پاس کو خواندہ مانا جاتا ہے ۔ جو میٹرک پاس نہیں اس کو جہل تصور کیا جاتا ہے ۔شرمندگی سے بچنے کے لیے ہر فرد میٹرک پاس ، اور اکثریت پوسٹ گریجویٹ ہے۔ یہ 10، 20 سال کا قصہ نہیں 100 سال پہلے کی نسل نے اس کا آغاز کیا تھا۔ 1924 میں خواتین پرائمری پاس تھیں تاہم گاوں میں مدرسہ نہ ہونے کے باعث بچوں کو دور جانا پڑتا۔ 1933 میں گاوں کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے دو پرائمری اسکول قائم کئے ۔ 1933 سے آج تک یہاں کے کسی فرد پر ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ۔ ۔ آپس میں محلہ داری یا گھریلو جھگڑے بھی نہیں ہوتے، حتی کہ ساس بہو کے جھگڑوں کی داستان بھی منظر عام پر نہیں آتی۔ ہر فرد کا تعلیم یافتہ ہے ۔ایک گھر میں چار بہو اور دو بیٹیاں ہیں ان میں سے ایک پی ایچ ڈی، ایک ایم فل اور چار ایم اے ہیں ۔وہاں کیا جھگڑا ہو گا ۔اگر کوئی تنازعہ اور رائے کا اختلاف ہوا بھی تو تعلیم نے تحمل اور برداشت بھی ساتھ سیکھایا۔ تنازعے اور سوچنے کے اختلاف کو انا کا مسئلہ نہیں مذاکرات اور دلائل کی روشنی میں صحیح اور غلط کا تعین کر کے حل کیا جاتا ہے ۔ جس گھر میں ساس ایم اے یا ایم ایس سی ، بہو پی ایچ ڈی، نند ڈاکٹر اور جٹھانی پروفیسر ہو اس گھر میں جھگڑا کس بات کا۔ سب کو ایک دوسرے کے حقوق ،ان کا احترام اور آپنی ذمہ داری کا معلوم ہے۔ جھگڑا وہاں ہوتا ہے جہاں اپنے سب حقوق تو یاد ہوں دوسرے کے حقوق اور اپنی ذمہ داریوں کا پتہ ہی نہ ہو ۔تعلیم نے سارے جھگڑے ختم کر دئے۔اس گاوں کی خاص بات یہ ہے کہ باہر سے کوئی آ گر زمین نہیں خرید سکتا نہ گاوں سے باہر کا کوئی گاوں میں آ کر کاروبار کر سکتا ہے ۔جو زمین فروخت کرنے کی بات کرے اس سے مسئلہ پوچھا جاتا ہے اور سب مل کر اس کو حل کرتے ہیں ۔ ہر بچے کا سکول جانا لازمی ہے ۔یہ گاوں صفائی کے لحاظ سے مثالی ہے اس کا انتظام یہاں کے لوگ خود کرتے ہیں ۔ ہر گلی پختہ اور مثالی سیوریج نظام ہے۔ جس کے لیے گاوں والوں نے ترقیاتی این جی او قائم کی ہوئی ہے۔ جو سڑکوں کو پختہ کرنے سمیت دیگر ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرتی ہے ۔ اس گاوں میں کوئی مسائل نہیں، تعلیم نے ہر کسی کو وافر مقدار میں وسائل دئے ہیں جو وہ گاوں کی ترقی پر فراخ دلی سے خرچ بھی کرتے ہیں۔ ہر مسجد میں بیک وقت آذان ہوتی ہے مسلک کے نام پر مولویوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اور نہ ہی کوئی اختلافی بیان دے کر گاوں کا ماحول خراب کر سکتا ہے ۔گاوں میں ایک جامع مسجد ہے جہاں پورا گاوں نماز ادا کرتا ہے ۔ دور دراز علاقے حویلی میں سرحد کے قریب واقع “جبی سیداں” آزاد کشمیر کا ایک مثالی گاوں ہے۔اس گاوں میں لگ بھگ ڈھائی سو گھر ہیں ۔آزاد کشمیر جہاں تعلیم کا تناسب بہت بلند ہے وہاں آزاد کشمیر کا یہ سب سے زیادہ ’تعلیم یافتہ‘ گاؤں ہے۔ اس گاؤں کو بھی آزاد کشمیر اور پاکستان بھر میں دو اعتبار سے منفرد مقام اور سبقت حاصل ہے۔ ایک تو یہاں کا تعلیمی تناسب 100 فیصد ہے اور دوسرا تعلیم کی بلند شرح کے ساتھ جرائم کی شرح صفر ہے۔ “جبی سیداں” کے مکینوں پر بھی عشروں سے کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ۔ گاؤں کی خواندگی میں مسجد کا مرکزی کردار ہے۔ یہاں چھ مساجد اور ایک مدرسہ موجود ہے۔ ایک جامعہ مسجد ہے جو کہ ضلع بھر کی قدیم جامعہ مسجد سمجھی جاتی ہے۔ گاوں کے سارے لوگ اسی جامع مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں ۔ دونوں گاوں میں بہت ساری قدریں مشترک ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کسی مسجد کے مولوی کا دوسری مسجد کے مولوی سے کوئی اختلاف نہیں اور نہ ہی کوئی مولوی مسلک کی بنیاد پر کسی دوسرے فرقے کے بارے میں کچھ کہہ سکتا ہے ۔دنیا بھر میں عام طور پر اور تیسری دنیا کے غریب ممالک میں خاص طور پر یہ بات دیکھی جا سکتی ہے کہ خواتین عموماً تعلیمی اور ملازمتوں کے میدان میں مردوں سے بہت پیچھے ہیں، لیکن  جبی سیداں اور رسول پور میں خواتین بھی تعلیمی اور ملازمتوں کے میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں اور فیصلہ سازی میں بھی ان کی رائے کو اہمت اور ترجیح دی جاتے ہے ۔ گھر گھر میں ایم اے، بی ایڈ ، ایم فل اور ایم ایس سی کے مشکل مضامین کی ڈگری ہولڈر خواتین موجود ہیں۔ مرد و خواتین کی اکثریت ملازمت پیشہ ہے اور ان ملازمین میں زیادہ تر شعبہ تعلیم سے منسلک ہیں۔جبی سیداں سے اس وقت شعبہ تعلیم میں کم و بیش 120 گزیٹڈ افسران اور 50 نان گزٹیڈ افسران ہیں جبکہ درجن بھر ڈاکٹر سمیت 100 کے لگ بھگ  افراد دیگر سرکاری محکموں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ یہاں  40 حافظ قرآن ،علما مدارس ہیں۔ خاص بات یہ کہ یہاں کے نوجوانوں نے میرٹ کی بنیاد پر پورے ضلعی انتظامیہ پر قبضہ کر لیا۔ضلع کے قیام کے بعد دو سال پہلے تک پبلک سروس کمیشن کے تحت ضلعی کوٹہ کی 42 آسامیوں میں سے 29 آسامیوں پر اس گاؤں کے نوجوانوں کی تقرریاں ہوئیں جو یہاں کے مکینوں کی اعلیٰ تعلیم اور قابلیت کا ثبوت ہے۔  آدھے سے بھی زیادہ گاؤں کو پختہ سڑک کی سہولت میسر نہیں ہے۔ اور نہ
اس گاؤں میں کوئی ہائی سکول ہے نہ ہی مڈل سکول، بوائز اور گرلز کے لیے ایک ایک پرائمری سکول ہیں لیکن عملا بند ہو چکے۔ جیسے کے دوسرے گاوں میں سرکاری اسکولوں کی حالت ہے۔
(ہائی سکول تقریباً تین کلومیٹر دور دوسرے گاؤں سولی میں ہے)۔ اس سب کے باوجود “جبی سیداں” کا بچہ بچہ زیور تعلیم سے آراستہ ہے اور ہر ایک فرد برسرِ روزگار اور آزاد کشمیر و پاکستان میں اعلیٰ سرکاری و پرائیویٹ سیکٹر میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر ایک گھر میں خوشحالی ہے۔ مرد و خواتین نے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود کھیتی باڑی کو نہیں چھوڑا۔ 19 اور 20 گریڈ کے افسران تک گھر کے کام کاج اور کھیتی باڑی خود کرتے ہیں جیسے ابو اجداد کرتے تھے۔ اسی وجہ سے گاوں میں خوشحالی کے ساتھ ہریالی بھی ہے ۔یہ دونوں گاوں پاکستان اور آزاد کشمیر کے دیگر گاوں کے لیے مثال ہیں کہ یہاں کے مکین نہ حکومت کو کوستے ہیں نہ کوئی مطالبہ کرتے ہیں نہ جلوس نکالتے ہیں نہ نعرے بازی کرتے ہیں ۔ نہ حکومت کی طرف دیکھتے نہ سیاست دان کو ادھر جلسہ کرنے دیتے ہیں نہ اس سے کوئی مطالبہ نہ اس کے وعدے پر ووٹ دیتے ہیں، پھر بھی خوش حال ہیں مطمئن ہیں اور خوش ہیں تمام سہولتوں کے ساتھ اطمینان اور پرسکون زندگی گزار رہے ہیں ۔ دوسرے گاوں ایسا کیوں نہیں ہو سکتے ۔ ہاں ہو سکتے ہیں اگر لوگ ایسے ہو جائیں جیسے یہاں کے مکین ہیں ، ہر قسم کی منشیات، سکرٹ کی دوکان اور ہوٹل بند اور بازاروں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے زمین سے دوبارہ رشتہ جوڑیں، بچوں کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ دیں ۔ روزانہ بچوں کا ہوم ورک چیک کریں۔ ان کا کھیلنے کا پڑھنے کا کھانے کا اور سونے کا وقت مقرر کریں تاکہ بچہ فضول کام پر وقت ضائع نہ کرے اور وہ آوارہ گردی کی محفل تک ہی نہ پہنچ پائے۔ جس بچے کی ماں باپ تربیت اچھی کریں گے وہ تعلیم میں بھی بہت آگئیں جائے گا ۔ بچیوں کی تعلیم و تربیت پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ماں باپ بچے پر بہت زیادہ وقت اور اس کی ہر سرگرمی کو مانیٹر کریں۔ تعلیم یافتہ ماں تعلیم یافتہ قوم کی ضامن ہے ۔ تعلیم و تربیت اچھی ہو تو دین و دنیا اچھی ہی ہو گی ۔ان گاوں کے بڑوں نے شروعات کی تھی آج یہ ملک بھر میں مثال بن گئے ۔ آج اگر گاوں کا کوئی ہمدرد یہ مہم شروع کرے تو کچھ عرصے بعد ہر گاوں مثالی معاشرہ ہو گا۔ جس سے پورے ملک کا معاشرہ مثالی ہو گا ۔مثالی گاوں کا تذکرہ اس لیے چھیڑا ہے کہ ہر گاوں کے لوگ اپنے گاوں کے بارے میں سوچیں۔ آئیں مل کر ہم بھی اپنے گاوں کو مثالی معاشرہ بنائیں ۔۔آئندہ کالم میں پاکستان کے 8 نمایاں گاوں کا تذکرہ ہو گا انتظار کیجئے گا ۔