شام کے 3 بج کر چالیس منٹ ہوئے ہیں

مارچ 13, 1940 یہ لندن ہے
شام کے 3 بج کر چالیس منٹ ہوئے ہیں
ایسٹ انڈیا ایسوسی ایشن کی کیکسٹن ہال میں میٹنگ جاری ہے
میٹنگ میں لیفٹیننٹ گورنر پنجاب مائیکل اوڈائر (Michael O’Dwyer)، بھی شریک ہے اسی میٹنگ میں ادھم سنگھ بھی شریک ہے۔ ایک آگ ہے جو ادھم سنگھ کے سینے میں گزشتہ 21 سال سے جل رہی ہے
اپنے لوگوں کی موت کے انتقام کی آگ
برسوں اس دن کا انتظار کیا گیا تھا
ہزاروں میل کا فاصلہ طے کیا گیا تھا
پنجاب کے بیٹے کو اپنے دھرتی پر بہائے گئے خون کا بدلہ لینے کا موقع ملا تھا

لیفٹیننٹ گورنر پنجاب مائیکل اوڈائر (Michael O’Dwyer)، سانحہ امرتسر کے وقت پنجاب کا گورنر تھا۔ پنجاب کے بیٹے نے بالآخر 21 سال بعد اپنا قرض چکا دیا تھا

جلیانوالہ باغ قتل عام کا بدلہ لینے والے ادھم سنگھ نے عدالت میں اپنا نام رام محمد سنگھ آزاد اور مذہب ہندوستان بتایا اور کہا حلف ہیر وارث شاہ پر اٹھاؤں گا.
ادھم سنگھ کا پیدائشی نام شیر سنگھ کمبوہ تھا۔

شیر سنگھ 26 دسمبر 1899ء کو پٹیالہ کی ریاست ‘سونم’ میں پیدا ہوا، اس کا باپ طہال سنگھ ریلوے کراسنگ پر واچ مین کی نوکری کرتا تھا، 7 سال کی عمر سے پہلے اس کے والدین وفات پاگئے اور 24 اکتوبر 1907ء کو شیر سنگھ اپنے بھائی مکتا سنگھ کے ساتھ سینٹرل خالصا یتیم گھر امرتسر میں رہنے لگا، جہاں انہیں نئے نام ملے شیر سنگھ کو ‘ادھم سنگھ’ اور مکتا سنگھ ‘سادھو سنگھ’۔ 1917ء میں ادھم سنگھ کا بھائی فوت ہوگیا جس کے بعد وہ دنیا میں اکیلا رہ گیا، 1918ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد ادھم سنگھ نے یتیم خانہ چھوڑ دیا۔

اپریل کی 10 تاریخ 1919ء کو 2 قومی لیڈروں ‘ڈاکٹر سیف الدین’ اور ‘ڈاکٹر ستیا پال’ کو پنجاب سے گرفتار کرلیا گیا، 13 اپریل 1919ء کو جلانوالہ باغ میں لوگ احتجاج کیلئے اکھٹے ہوئے جس میں مرد، عورتیں اور بچے شامل تھے، پُرامن احتجاج جاری تھا جب جنرل ڈائر کے حکم پر بغیر خبردار کئے گولیاں چلنے سے 1 ہزار سے زائد افراد مارے گئے، اس دن ادھم سنگھ وہاں موجود تھا، اس دردناک اور غمناک واقعے نے اودھم سنگھ کو انقلاب کے راستے پر ڈال دیا، ادھم سنگھ، بھگت سنگھ سے بہت متاثر تھا، اسے اپنا گرو مانتا تھا، رام پرساد بسمل جو کہ انقلابیوں کا شاعر تھا اس کا بھی ادھم سنگھ شوقین تھا۔

جلد ہی اس نے انڈیا چھوڑ دیا اور امریکا چلا گیا، وہاں سے واپسی پر چھپا کر کچھ ریوالور لاتے ہوئے پکڑا گیا اور اسے 4 سال کی قید ہوئی، 1931ء کو جب وہ آزاد ہوا تو سونم واپس چلا گیا، جہاں مقامی پولیس کے اسے ہراساں کرنے پر وہ ایک بار پھر امرتسر واپس آگیا اور ایک سائن بورڈ پینٹر کے طور پر دوکان کھول لی، ایک بار پھر اس نے انڈیا چھوڑا لیکن اب کی بار اس کا انڈیا چھوڑنے کا مقصد جلانوالہ باغ کا بدلہ لینا تھا اور انگلینڈ چلا گیا، وہاں وہ اس موقع کی تلاش میں رہا۔ اُدھم سنگھ کو اپنا عزم پورا کرنے کاموقع جلیانوالہ باغ واردات کے 21 سال بعد ملا جبکہ 13 مارچ 1940 کو لندن میں 4:30 بجے ایسٹ انڈیا ایسوسی ایشن کی کیکسٹن ہال میں میٹنگ ہورہی تھی جس میں لیفٹیننٹ گورنر پنجاب مائیکل اوڈائر (Michael O’Dwyer)، سانحہ امرتسر کے وقت پنجاب کا گورنر ان کے سامنے تھا۔۔مائیکل اوڈائر اگلی صف میں بڑے اطمینان اور سکون سے براجمان تھا۔ اس کو معلو م نہیں تھا کہ اُدھم سنگھ کے روپ میں اس ہال میں کچھ فاصلے پر موجود ہے۔جونہی تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا اور کچھ وقفہ کے بعد مائیکل اوڈائر کا نام نشر ہونے پر وہ اسٹیج پر تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوا۔ تقریب کی جگہ پستول کی گولیوں سے گونج اُٹھی اورجلیا نوالہ باغ کا ماسٹر مائنڈ جنرل ڈائڑ اسٹیج پر ڈھیر ہو گیا۔اسے دو گولیاں لگی تھیں جنہوں نے اس کے دل کو چیر دیا تھا۔

حاضرین کی صفوں میں اودھم سنگھ پستول ہاتھ میں لیے کھڑا تھا اس کے چہرے پر اطمینان کی ایک جھلک تھی اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے اقبال جرم کرتے ہوئے کہاکہ وہ جلیانوالہ باغ میں مارے گئے نہتوں کا انتقام لینے کے لیے ہندوستان سے آیا تھا اور اس نے جوکچھ کیا ہے اس پر اسے فخر ہے۔

01 اپریل 1940 کو ادھم سنگھ پہ فرد جرم عائد کی گئی اور 04 جون 1940 کو عدالت نے اسے سزائے موت سنا دی گئی۔

04 جون 1940ء کو سینٹرل کریمینل کورٹ ‘اولڈ بیلی’ میں جسٹس ایٹکنسن کے سامنے اس کا ٹرائل ہوا، جس نے اسے موت کی سزا دی، ایک اپیل بھی اس کی طرف سے فائل کی گئی جو کہ 15 جولائی 1940ء کو خارج کردی گئی اور 31 جولائی 1940ء کو ادھم سنگھ کو ‘پینٹن وائل’ جیل لندن میں پھانسی دے دی گئی، جسے اس نے بخوشی قبول کرلیا۔

ٹرائل کے دوران جج اور اودھم سنگھ کے درمیان یہ مکالمہ ہوا۔

انگریز جج نے پوچھا: تیرا نام کیا ہے؟
اودم سنگھ بولا : رام محمد سنگھ۔
انگریز جج: یہ کیسا نام ہے؟، تیرا مذھب کیا ہے؟
بولا: ہندوستان۔
انگریز جج نے پوچھا : حلف کس پر اٹھائے گا؟
بولا : ہیر وارث شاہ۔

ادھم سنگھ نے کہا میں نے یہ اس لئے کیا کیونکہ مجھے جنرل ڈائر پر غصہ تھا اور وہ اسی کا مستحق تھا، وہ اصل مجرم تھا، وہ میرے لوگوں کا حوصلہ ختم کرنا چاہتا تھا، سو میں نے اسے ختم کر دیا، 21 سال سے میں بدلہ لینے کی کوشش میں تھا اور میں خوش ہوں کہ میں نے اپنا کام پورا کردیا۔ میں موت سے ڈرتا نہیں ہوں، میں اپنے وطن کیلئے مررہا ہوں، برٹش حکومت کے اندر میں نے اپنے لوگوں کو بھوک سے مرتے دیکھا ہے، میں اس کیخلاف احتجاج کرتا ہوں اور یہ میرا فرض ہے، اس سے زیادہ کرم مجھ پر کیا ہوسکتا ہے کہ اپنے وطن اور اپنے لوگوں کی خاطر جان دے دوں۔

31 جولائی 1940ء کو ادھم سنگھ کو ‘پینٹن وائل’ جیل لندن میں پھانسی دے کر جیل کے احاطے میں دفنا دیا گیا.
یاد رہے کہ ادھم سنگھ کے پاسپورٹ پر اس کا نام آزاد سنگھ لکھا ہوا تھا.

شیر سنگھ، اُدھم سنگھ، آزاد سنگھ اور رام محمد سنگھ آزاد کی پھانسی دراصل ایک نئے آدمی کاجنم تھا۔کئی سال تک ان کا جسد خاکی وطن واپس لانے کی تحریک چلتی رہی، بالآخر کامیابی ہوئی اور جولائی 1975 میں پھانسی کے ٹھیک 35 سال بعد ان کا جسد خاکی بھارت لایا گیا جو بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی، شنکر دیال شرما اور گیانی ذیل سنگھ نے وصول کیا. پھر اسے جلیانوالہ باغ لایا گیا، جیسے اس باغ میں مرنے والوں سے صرف یہ کہنے کیلئے آئے ہوں کہ تمہارا بدلہ لے کر آگیا ہوں، پھر وہاں سے سنام گاؤں لے جایا گیا۔

ادھم سنگھ کی آخری رسومات تینوں قوموں پر ایک فرض تھا جو ایک پنڈت، ایک مولوی اور ایک سکھ گرنتھی نے پنجاب کے وزیراعلیٰ گیانی ذیل سنگھ کی قیادت میں مل کے ادا کیں۔