اپنے گردوں کو سنبھالئے ذرا——تحریر شہناز احد


اقوام عالم میں منایا جانے والا ایک دن تو درو دیوار ہلا کے گزر گیا اب دوسرے کی آمد آمد ہے۔ ہر سال ماہ مارچ کا دوسرا جمعرات اقوام عالم “ گردوں کے عالمی دن کے حوالے “ سے مناتی ہیں۔ ان دونوں دنوں کے درمیان چند دن کے طبعی فرق کے علاوہ بڑا فرق یہ ہے کہ دوسرے عالمی دن کا تعلق بلا تخصیص ہر جنس، عمر، معاشی معاشرتی طبقے سے ہے۔
آج سے سولہ سال قبل ، امراض گردوں سے متعلق بین القوامی تنظیموں نے دنیا میں بڑھتی ہوئ مریضوں کی آبادی کو دیکھتے ہوۓ یہ فیصلہ کیا کہ عوام الناس کو آگاہی دینے کے لئے ضروری ہے ایک ایسے دن کا انعقاد کیا جاۓ جس کا مقصد لوگوں کوان تمام امراض اور بد احتاطیوں کی معلومات فراہم کرنا ہو جو خرابی گردہ کا سبب بنتی ہیں اور انسانی صحت کو اس مقام پر پہنچا دیتی ہیں کہ واپسی کا کوئ راستہ نہیں رہتا۔ اس کے بعد ایک جیتی جاگتی زندگی زندہ رہنے کے لئے ڈائلیسس یا تبدیلی گردہ کی محتاج ہو جاتی ہے۔
زندہ رہنے کے لئے ڈائلیسس اس وقت دنیا کا مہنگا ترین علاج ہے اور ہر متاثرہ فرد کا تبدیلی گردہ ممکن نہیں کہ دنیا میں اتنے گردے مہیا نہیں۔ ان ہی مسائل کے پیش نظر عا لمی تنظیموں نے فیصلہ کیا کہ گردوں کی تباہی کا سبب بننے والی وہ بیماریاں جیسے ذیا بیطیس ، بلند فشار خون ، مورثی بیماریاں اور پتھر یاں وغیرہ کے بارے میں لوگوں کو بار بار متنبی کیا جاۓ اور ان امراض سے بچاؤ کی معلومات فراہم کی جائیں۔ آج دنیا کی آبادی کا پندرہ (۱۵) فیصد خرابی گردہ کے امراض می مبتلا ہے اور دنیا میں HIV اور AIDS کے بعد مرنے کا تیسرا بڑا سبب ہے۔ ۲۰۱۰ میں امراض گردہ سے مرنے والوں کا تناسب اٹھارویں نمبر پر تھا مگر غور طلب بات یہ ہے کہ محض آٹھ سال کے عرصے میں موت کا یہ سبب تیسرے نمبر پر آگیا۔

گردے ہمارے جسم کا وہ اہم عضو ہیں جو نہ صرف جسم کے فالتو مائع کو کو پیشاب کی شکل میں خارج کرتے ہیں یہ گردے ہی ہیں جو ہمارے خون کے دباؤ کا نظام بھی کنٹرول کرتے ہیں اور ہماری ہڈیوں کی مضبوطی کے لئے کیلشیم اور وٹامن ڈی بھی تیار کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے خون کے نۓ ذرات بھی بناتے ہیں۔ انسانی جسم میں پائ جانے والی شکر کا توازن بھی یہیں تیار ہوتا ہے۔
ذرا سوچیں!
انسانی مٹھی کے برابر کمر کے نچلے حصے میں پاۓ جانے والے یہ دو عضلات کتنے کام کے ہیں۔ لیکن ہم بحیثیت انسان ان کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کرتے۔ گردوں کے ساتھ ہمارے غیر انسانی سلوک کایہ حال ہے کہ ہم ان مٹھی بھر عضلات کی استعداد سے کئ گنا زیادہ وزن ڈال دیتے ہیں۔
گردوں کی خرابی کا سبب بننے والے امراض میں سے ایک سبب “ موٹاپا یا فر بہی “ بھی ہے۔ کڈنی انٹر نیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق “ پوری دنیا میں اس وقت چھ سو (600) ملین بڑی عمر کے افراد موٹاپے کا شکار ہیں۔ ان اعداد میں موٹے بچے اور نوجوان شامل نہیں ہیں لیکن بہتجلدہو جائیں گے۔
موٹاپے یا فر بہی کو صحت مندی کی نشانی سمجھنے والوں کے لئے اطلاع ہے کہ جب انسانی جسم کا وزن ایک حد سے گزر جاتا ہے تو وہ فرد ذیا بیطیس اور بلند فشار خون یعنی ہائ بلڈ پریشر کے امراض کے بہت قریب چلا جاتا ہے۔
یہ دونوں مرض اسے دل کی بیماری ، گردوں کی خرابی اور گردوں میں پتھریاں بننے کے مرض کے علاوہ کینسر میں بھی مبتلا کر سکتے ہیں۔
یاد رکھیں !
پاکستان میں خرابی گردہ کے ستر ( 70) فی صد مریضوں کا بنیادی مرض ذیا بیطیس اور ہائ بلڈ پریشر ہوتا ہے۔ ان دو امراض کے نتیجے میں خراب ہونے والے گردوں کا کوئ علاج نہیں ہے سواۓ اس کے کہ زندہ رہنے کے لئے ڈائلیسس کی بیساکھیاں پکڑی جائیں۔ پاکستان جیسے ملک میں بھی ایک مریض کا سالانہ خرچہ تین سے چار لاکھ روپے ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستانی آبادی کا کتنے فی صد اس طریقہ علاج کو سہہ سکتا ہے۔
پاکستان تو کیا امریکہ جیسے ملک نے بھی گھٹنے ٹیکتے ہوۓاپنی معیشت پر بڑھتے دباؤ کو کم کرنے کے لئے ہر اس چیز کا سائیز کم کرنے، پابندی لگانے اور متنبہ کرنے پر مجبور کردیا ہے جو ان امراض اور خرابی گردہ کا سبب بن سکتی ہیں۔ سارے امریک میں ریستوران کے کھانوں کا سائیز کم أور مفت میں ملنے والے رنگین میٹھے پانی پر پابندی عائید کردی گئ ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہر سطح پر گھروں میں پکے کھانے کی افادیت کو اجاگر کیا جارہا ہے۔
کھانے اور صحت کا یہ فارمولا صرف امریکہ یا دوسرے ترقی یافتہ ملکوں ہی کے لئے نہیں ہے یہ ہمارے جیسے ترقی پزیر اور غربت کی لکیر کے اوپر نیچے رہنے والوں پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ گزشتہ بیس سالوں کے دوران جس تیزی سے فاسٹ فوڈ ، بازاری کھانے اور طرح طرح کے میٹھے پانی ہماری زندگیوں میں داخل ہوۓ ہیں اس نے زندگی کے اطوار ہی بدل ڈالے ہیں۔
ایک فاسٹ فوڈ ہی نہیں ہمارے کھانے پینے کی عادات یوں بھی کچھ صحت مندانہ نہیں۔ نہاری، قورمہ،بریانی، کڑاہی، کھٹاکھٹ، تکے، پاۓ، پوریاں، پراٹھے، میٹھی اشیا اور چینی کا بے دریغ استمعال، کھانا اور کھاۓ چلے جانا ،رات کے آخری پہر کھانا اور دن چڑھے تک سونا،یہ سوچے بنا کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔
گھروں کے سادے کھانے چھوڑ کر ہم نے مرغن غذاؤں کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔ سادہ پانی پینا ہم ہتک سمجھتے ہیں اور مختلف اقسام کے رنگین پانیوں کو آب حیات گردانتے ہوۓ گلاس پر گلاس چڑھاتے رہتے ہیں۔
ہم وہ بد نصیب قوم ہیں جو خوشی خوشی بیماریوں کو خرید کر اپنے جسم میں داخل کر رہے ہیں۔ پیدل چلنا اور کسی بھی قسم کی ورزش کرنا ہماری شان کے خلاف ہے۔ ہماری خواتین گھروں میں روز مرہ کے کام کرنا اپنی توہین سمجھتی ہیں۔
ہمارے بچے نہ صرف یہ کہ پیدل نہیں چلتے وہ فاسٹ فوڈ کھاتے ہیں اور ٹی وی یا کمپیوٹر کے آگے لیٹ جاتے ہیں۔ کتنے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ گھر کی سواریوں میں اسکول جانے والے بچے اپنے بستے تک خود نہیں اٹھاتے۔ ہماری بچیاں اپنا بستر خود بنانا توہین سمجھتی ہیں۔
یہ ہی وہ انداز زندگی ہے جو آگے چل کر نہ صرف مختلف امراض کی آبادی میں اضافے کاسبب بن رہا ہے خرابی گردہ کی آبادی میں بھی اضافے کا باعث ہے۔
یاد رکھئیے !
انسانی گردے خود بخود خراب نہیں ہوتے۔ ہم بحیثیت انسان مختلف امراض میں مبتلا ہوکے انھیں یہ موقع فراہم کرتے ہیں اور موٹاپا یا فر بہی ان امراض کا نکتہ آغاز ہے اور کتنی خوشی کی یہ بات ہے کہ موٹاپے اور فر بہی کو کم کرنے کا علاج بنا پیسے کے ہم سب کی مٹھی میں، ہماری جیب میں ہے۔ بس ہم سب کو یہ سمھجنے اور یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ کھانا زندہ رہنے کے لئے کھائیں—- اپنے جسم کو کھانوں کا ڈسٹ بن نہ بنائیں۔
ایک بات اور
آپ متحرک ہیں تو زندگی متحرک ہے۔
——————————

Shahnaz Ahad. Journalist and women right activist.