بدین اور ساحلی پٹی پر دودھ کی قلت بحران کی شکل اختیار کر گئی ۔وجہ کراچی اور حیدرآباد کی دودھ فیکٹریاں ہیں

ضلع بدین سمیت سندھ کی ساحلی پٹی پر دودھ کی قلت اب ایک بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے جس کی بڑی وجہ کراچی اور حیدر آباد میں قائم دودھ فیکٹریوں کو قرار دیا جا رہا ہے جنہوں نے ضلع بھر میں اپنے بیٹوں کو بھاری رقم دے کر بڑی مقدار میں دودھ خرید کر فیکٹریوں اور کارخانوں کو سپلائی کرنا شروع کر رکھا ہے دودھ کی قلت کا فائدہ لے کر کی ملک شاپ مضر صحت دودھ بڑے پیمانے پر فروخت کرنے لگے ہیں جس کی وجہ سے لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں بدین سے شفیع میمن نے روزنامہ امت کے لئے رپورٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بدین سمیت گلارچی ٹنڈو باگو تلہار ماتلی اور ساحلی علاقوں کے کئی فوٹو میں بڑے پیمانے پر دودھ کی پیداوار ہوتی ہے تین سال پہلے تک بدین میں وافر مقدار میں دودھ پایا جاتا تھا ہر ملک شاپ پر 10 سے 15 من دودھ فروخت کیا جاتا تھا لیکن کراچی اور حیدر آباد میں قائم ہونے والی دودھ اور جوسز بنانے والے کارخانوں اور فیکٹریوں کے مالکان نے بڑے پیمانے پر دودھ خریدنے کے لئے اپنے ایجنٹوں اور مقامی لوگوں کو بھاری رقم دے کر بدین ضلع سے دودھ کی بڑی مقدار میں خریداری شروع کردی جنہوں نے بڑے مویشی مالکان اور چھوٹے بالوں کے مالکان کو لاکھوں روپے ایڈوانس لے کر بڑے پیمانے پر روزانہ صبح سویرے ٹیکوں کے ذریعے فیکٹریوں اور کارخانوں میں دودھ روانہ کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ضلع بھر میں تازہ دودھ کی قلت اب بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے دودھ کی قلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کی دودھ فروخت کرنے والے دکانداروں نے پاؤڈر اور مضر صحت دودھ مہنگا فروخت کرنا شروع کر دیا ہے جس کے نتیجے میں پیٹ سمیت دیگر بیماریاں جنم لے رہی ہیں اس سلسلے میں کوالٹی چیک کرنے والے ادارے اور محکمہ صحت کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کر رہے مقامی باشندوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ دودھ ملا سے باہر جانے پر پابندی لگائے اور ضلع بھر میں فروخت ہونے والے دودھ کی کوالٹی کو چیک کیا جائے مضرصحت دودھ فروخت کرنے والے تاجروں کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے اور کوالٹی چیک کرنے والے ادارے کو فعال بنایا جائے

https://ummat.net/2020/12/07/news.php?p=news-74.gif