34 سالوں سے اپنے پیاروں کی منتظر مائی بھاگی

تحریر: ماریہ اسماعیل

معاشرے میں تبدیلی کس طرح لائی جاسکتی ہے، ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کے لیئے اپنے ملک کے سیاسی اور قانونی نظام کو بہتر کرنے سے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
معاشرے میں لاقانونیت، خراب تعلیمی معیار، صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی، وسائل کی کمی، غربت، پولیس کے ناروا رویے اور کرپشن، غربت کے باعث بچوں اور خواتین کی مزدوری یہ سب معاملات غلط پالیسیوں کے باعث پیدا ہو رہے ہیں۔
ملک کی 60 فیصد آبادی خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسرکر رہی ہے ۔

صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں بے شمار ایسی خواتین موجود ہیں جو بڑی مشکل صورتحال میں اپنے گھرکو چلاتی اور بچوں کی کفالت کررہی ہیں اُن میں سے ایک مائی بھاگی بھی ہیں جس کا تعلق شہر کراچی کے ساحلی بستی ابراہیم حیدری کے علاقے ریڑھی گوٹھ سے ہے اور جہاں اکثریت ماہی گیر خاندانوں سے ہیں۔
مائی بھاگی وہ بدنصیب خاتون ہیں جو گذشتہ 34 برسوں سے اپنے پیاروں کو دیکھنے کی آس لگائے روز ترستی تڑپتی نگاہیں پھلائے ان کی آمد کی منتظر ہیں

مائی بھاگی 75 سالہ بیواہ خاتون ہیں جس نے اپنے پیاروں سے ملنے کی آس لیے اپنی پوری زندگی گذاردی ہے مگر وہ اب بھی الله تعالی رحمت سے مایوس نہیں بلکہ پُر امید ہے

مائی بھاگی کا کہنا ہے کہ وہ اچھی بھلی خوشحال زندگی بسر کررہی تھی مگر 19 مئی 1990کے طوفان نے ان کا سب کچھ تباہ برباد کردیا۔

اسی دن صبح کے وقت بیٹا، بھائی اور داماد سمیت گھر کے چار باسیوں نے انہیں گھر کا راشن خرید کردیا اور خود روزگار کرنے سمندر میں مچھلیوں کا شکار کرنے چلے گئے۔
مائی بھاگی بتاتی ہین کہ انہین کیا پتا کہ انکی اپنے پیاروں سے یہ آخری ملاقات ہوگی۔
اس دن آنے والے بھیانک طوفان نے ہماری زندگی مین طوفان برپا کردیا اور سب کچھ ختم ہوک رہ گیا۔
میرے گھرکے چاروں افراد اس سمندر کی گھرائی میں گم ہوگئے ہماری تو دنیا ہی اجڑ گئی، میں نے اپنوں کو کہاں کہاں تلاش نہ کیا، کئی جگہوں پر درخواستیں دیں۔
میں روز صبح جلدی اٹھ کر اپنے رب کے آگے سجدہ ریز ہوتی ہوں کہ آج میرے پیاروں کی خبر آجائے۔
مائی بھاگی بتاتی ہیں انکے پاس پانچ سال بعد ایک خط آیا جو کہ گجراتی زبان میں تحریر تھا، جسے پڑھایا، اس خط میں لکھا گیا تھا کہ انکے چاروں پیارے زندہ ہیں اور وہ طوفان کے باعث بھارتی شہر گجرات کی طرف چلے گئے جہاں وہ جیل میں قید و بند میں ہیں انہوں نے خط میں جتنا جلد ممکن ہونے کی درخواست مین کہا کہ انہیں بھارتی قید سے رہا کرایاجائے۔
مائی بھاگی کا کہنا تھاکہ وہ ایک غریب اور بیواھ خاتون ہے گھر میں جو افراد موجود ہیں ان کی ذمہ داری بھی میری تھی

میں کبھی ہوٹل والوں سے ادھار لیتی، کبھی پڑوسیوں سے کھانا ملتا، ایک شحض نے ہمیں رہنے کی جگہ دی جہاں وہ رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں دن رات گائے کے گوبر اٹھا کر دیوار پر سکھاکے فروخت کرتی ہوں جس سے گھر کا چولہا جلتا ہے۔
مائی بھاگی کہتی ہیں کچھ بھی ہو میں نے اپنے پیاروں کی واپسی کی جدوجہد کو بند نہیں کیا۔
مجھے جہاں بھی معلوم پڑتا ہے کہ میرے پیاروں کے لیئے اس حوالے سے احتجاج ہو رہا ہے میں اس میں پہنچ کر شرکت کرتی ہوں۔
مائی بھاگی نے بتایا کہ چند سال بعد پھر سے انہیں گجراتی میں ایک اور خط موصول ہوا جس میں میرے داماد کی فوت ہونے کی خبر آئی کہ وہ بھارتی جیل کی سختیاں برداشت نہ کرسکتے ہوئے فوت ہوگیا۔ انہوں روتے ہوئے کہا کہ اب میری بیٹی بھی بیواہ ہوگئی اس کے بچے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ کوئی حکومت انکی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے مگر میں اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہیں مجھے میرے گھر کے تین افراد ضرور واپس ملیں گے۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ زندگی بہت مشکل ہے مگر مجھے یقین ہے کہ میری یہ مشکلات بھی گذرجائیں گی۔
بھارتی جیلوں میں ریڑھی کے دس ماہیگیر 25 سال قید ہیں اب تو ان کے خط آنا بھی بند ہوگئے ہیں دبلہ محلے کی گل بی بی کا بھائی، امان عابدہ کا جواں سال بیٹے امیر حمزہ، ، کلثوم اپنے والد ھارون حسین موسانی، سدھیر ملکائی، ھارون عبدالرحمان ملکائی،صدیق ملکائی ، صدیق بکھر عذیر ملکائی کے علاوہ مائی بھاگی کے چار ماہیگیر 1999 کے سمندری طوفان میں اپنے بچوں کے روزگار کے لیئے سنمدر میں گئے پھر واپس نہیں آئے، جب بھی عید آتی ھے ان کی مائیں بیٹیان بہنیں رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیتیں ہیں ۔ انہوں نے ریاست سے مطالبہ کیا کہ ان کے پیاروں کو بھارت کی جیلوں سے رہائی دلوائی جائے تا کہ وہ ان کے ساتھ عید مناسکیں