روایت ہے کہ دلی سات بار اجڑ کر بسی تھی

۔
اب لگتا ہے کہ بھارتی حکومت کے ہاتھوں آٹھویں بار بھی اجڑنے کو تیار ہے۔
کسانوں کا اتنا بڑا اجتماع انسانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا ہے۔ پورے ملک سے تقریباً ایک لاکھ ٹریکٹرز اور سوا کروڑ کے لگ بھگ لوگ دلی کے قریب پہنچ گئے ہیں اور ان کی پولیس کے ساتھ شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ مظاہرین میں سے اکثریت پنجاب کے کسانوں کی ہے جو کچھ دن پہلے ہونے والی نئی قانون سازی پر مشتعل ہیں اور اسے کسانوں کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔ ادھر سماج میں ٹوٹ پھوٹ اپنی انتہا کو ہے۔ سیاست دان ہوں یا کھلاڑی اور کنگنا رینوٹ جیسی اداکارائیں، اکثر ان کسانوں کو دہشت گرد اور پاکستانی ایجنٹ قرار دے رہے ہیں اور اصل مسائل پر بات نہیں کررہے۔ مرکزی حکومت نے دلی کی حکومت سے کہا ہے کہ وہ نو اسٹیڈیم پولیس اور فوج کے حوالے کردے جنہیں عارضی جیل بنایا جاسکے۔ اس طرح دلی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنانے کی تیاری جاری ہے۔ ادھر کسانوں نے کہا ہے کہ ہم پچیس مقامات پر دلی کا محاصرہ کریں گے اور پانچ بڑی سڑکیں بند کریں گے۔ کسان رہنمائوں نے بتایا ہے کہ ہمارے پاس چار مہینے تک دھرنے میں رہنے کی تیاری ہے اور ہمارے ٹریکٹرز کے ساتھ بندھی ٹرالیوں میں بستر اور اناج لدا ہوا ہے جو ہمارے لیے کافی ہے۔ دلی میں گھمسان کا رن پڑنے کو ہے۔ میرا خیال ہے کہ کہ اس لڑائی میں دیگر ناراض فریق بھی کودنے کو تیار ہیں۔ ناراض طلبہ کی اسٹوڈنٹ یونینز بھی کسانوں کے ساتھ ہیں۔ کمیونسٹس اور سوشلسٹ بھی مل گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا الزام ہے کہ مسلمان بھی پنجابی کسانوں کو درپردہ حمایت دے رہے ہیں اور انٹرنیٹ پر ایسی کئی تصاویر وائرل ہوچکی ہیں جن میں مساجد میں کسانوں کے لیے کھانے پکتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایک طبقہ کچھ دیواروں اور پوسٹرز کو وائرل کرنے میں مصروف ہے جس میں خالصتان کے نعرے درج ہیں اور ان کا الزام ہے کہ اس احتجاج کے مقاصد معاشی نہیں بلکہ سیاسی ہیں اور علیحدگی پسندی پر مبنی ہیں۔ ادھر میڈیا کی خاموشی اور اس لہر کی طرف سے توجہ ہٹانے کی کوشش نے ایک بہت بڑی سوشل میڈیا مزاحمتی لہر کو اٹھایا ہے جس کے ذریعے دھرنے کی منظم کوریج چوبیس گھنٹے لائیو ہورہی ہے اور اس کو نوجوان آئی ٹی ایکسپرٹس منظم کررہے ہیں۔ ایک نئے انداز کی صف آرائی ہورہی ہے جس میں بہت سے امید افزا اشارے بھی ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوگئے تو تاریخ رقم کریں گے۔