یہ ریڈیو پاکستان کراچی ہے۔ اجڑی ہوئی بستی کی داستان


تحریر: حسن جلیل
————
محترم دوست ،کینیڈا میں مقیم شاعر ادیب، دانشور اور میڈیا پرسن تسلیم الٰہی زلفی نے ریڈیو پاکستان کراچی کے پرانے براڈکاسٹنگ ہاؤس کی کچھ تصویریں شیئر کیں تو نہ صرف انہوں نے ماضی کے دریچے کھول دئیے بلکہ یادوں کی اس بستی میں لے گئے جو اب خواب و خیال بن کر رہ گئی ہے۔بندر روڈ پر واقع یہ خوبصورت اور پر شکُوہ عمارت اپنے دامن میں آواز کی حسین دنیا کی بیشمار داستانیں سمیٹے ہوئے ہے۔اس نے ریڈیو کا وہ عروج بھی دیکھا جب ریڈیو کے صداکار، ریڈیو کے پروگرام لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں بستے تھے، جب یہ حسین عمارت فن اور فنکار کا مسکن ہوا کرتی تھی جس کی راہداریوں، کمروں اور سٹوڈیوز میں وہ اپنے فن کو نکھرتا ہوامحسوس کرتا تھا- کیسے کیسے صداکار اس سٹیشن کی زینت تھے۔ زیڈ اے بخاری جیسی قدآور شخصیت کے جلو میں پروان چڑھنے والےبیشتر آرٹسٹ بعد میں ریڈیوکےسپرسٹار بنے۔ پروگراموں کے اعلی معیار، بہترین صداکاری اور عمدہ پیش کش نے ریڈیو کو وہ مقبولیت عطا کی جسکی مثال نہیں ملتی۔ اس زمانے میں سٹوڈیونمبر۹کے ڈراموں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا شام ہوتے ہی خواتین جلدی جلدی کام نپٹاتیں ، کھانا جلدی کھا لیا جاتا اور نو بجے سے پہلے ہی گھر والے ریڈیو کے ارد گرد بیٹھ جاتے۔ ڈرامے کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ دل کی دھڑکنیں بھی کم اور زیادہ ہوتی جاتیں۔ عبدالماجد ،ایس ایم سلیم جو اپنی رومانٹک آواز اور ادائیگی کی وجہ سے ریڈیو کے دلیپ کمار کا درجہ رکھتے تھے،منفرد اور دلوں میں اتر جانے والی آواز کے مالک طلعت حسین، ظفر صدیقی، امیر احمد خان ، محمود علی، قاضی واجد،قربان جیلانی، جمشید انصاری، محمود صدیقی، حسن شہید مرزا، نیلوفر علیم، ساجدہ سید، نرگس خان، سحاب قزلباش ،فاطمہ خانم، عرش منیر، صفیہ معینی ،زینت یاسمین ، غزالہ رفیق ،سنتوش رسل ،عشرت ہاشمی اوربہت سے فنکار ریڈیو کی پہچان اور شان تھے، خبریں بھی اس زمانے میں کراچی سے ہی ہوتی تھیں ۔ اردو خبروں میں شکیل احمد اور انور بہزادنمایاں تھے جبکہ انگریزی خبروں میں انیتا غلام علی ایڈورڈ کیراپئیٹ اور جہاں آرا سعیدکا طوطی بولتا تھا۔ بنگالی خبریں بھی باقاعدگی سے ہوتی تھیں۔ ہر طبقہ خیال و فکر اور ہر عمر کے افراد کے لئے پروگرام ترتیب دئیے جاتے تھے، ریگولر پروگراموں میں مزاحیہ خاکوں کا پروگرام تراشے، یونیورسٹی میگزین، بزم طلبہ، سیلانی کا مقبول پروگرام دیکھتا چلا گیا قابل ذکر ہیں۔ اتوارکےپروگراموں کو خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ ساجد حسین اپنی خوبصورت آواز میں پیامی کے طور پر خطوں کے جواب دیتے۔ بچوں کے پروگرام میں ظفر صدیقی بطور بھائی جان اور منی باجی ایسا رنگ جماتے کہ بچے تو بچے بڑے بھی یہ پروگرام توجہ سے سنتے تھے۔ حامد میاں کے ہاں طویل عرصے چلنے والا مقبول ترین پروگرام تھا جو ہر گھر میں سنا جاتا تھا ۔ اس زمانے کے بیشتر نامور ادیب اور شاعر ریڈیو کے لئے تخلیق کرتے۔نصراللہ خان، سلیم احمد ، انتظار حسین، سید احمد رفعت، مشفق خواجہ ،ان میں نمایاں تھے۔اناؤنسمنٹ کے شعبے میں بھی بڑے بڑے نام تھے جن میں شائستہ بیگم (طلعت حسین کی والدہ) ، عبدالحکیم ، آغا جان، صادق الاسلام، صفیہ کاظم ،عبیدہ انصاری ،آغا جہانگیراور دوسرے۔ کمرشل سروس کی مقبولیت بھی اپنے عروج پر تھی وہاں آواز کا جادو جگانے کے لیے محمد یوسف ، قربان جیلانی ، اسلم بٹ۔
کہکشاں، صبحدم دروازہ خاور کھلا، یونیورسٹی میگزین، جشن تمثیل وہ پروگرام تھے جنکا انتظار ہوا کرتا تھا۔ مشہور براڈکاسٹر اور پروڈیوسر عظیم سرور کے عالمی سپورٹس راؤنڈ اپ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ ان شاہکار پروگراموں کے خالق پروڈیوسرز بجا طور پر دادو تحسین کےمستحق ہیں جن کا تفصیلی فکر میں ایک علیحدہ آرٹیکل میں کروں گا۔
کراچی ریڈیو کو اس مقام تک پہنچانے میں اس کےمتعدد سربراہان، پروڈیوسرز اور دیگر سٹاف کا بہت بڑا ہاتھ رہا جنہوں نے جناب زیڈ اے بخاری کی قیادت میں ایک مضبوط عمارت کی بنیاد رکھی اور پھر انتہائی محنت،خلوص اور لگن سے اس عمارت کو حسن بخشا، اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ریڈیو بھی کبھی زوال کا شکار ہوگا اور اس کی یہ رونقیں، مقبولیت اور پروگرام داستان پارینہ بن کر رہ جائینگے۔ چند سال پہلے سٹیشن کو نئی عمارت میں منتقل کردیا گیا جو ایک حیران کن فیصلہ تھا۔ نئی عمارت نہ تو خوبصورتی اور نہ تکنیکی اعتبار سے براڈکاسٹنگ کے لیے موزوں ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ نئی عمارت کو کرائے پر اٹھادیا جاتا اور موجودہ عمارت پر کچھ پیسے خرچ کرکے اسکی تزئین و آرائش اور توسیع کردی جاتی کہ یہ عمارت تو ہے ایک قیمتی ورثے کے طور پر سنبھال کر رکھنے کے لئے۔ اب اس عمارت میں رینجرز کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ ویسے تو حکومت کی نظر میں نہ ریڈیو کی کوئی اہمیت ہے نہ اسکی بہتری کے لئے کوئی منصوبہ، کوئی ایسا درد مند بھی نظر نہیں آتا جو اس عظیم الشان ادارے کو حیاتِ نو عطا کرنے کے کے لیے کام کر سکے۔ سرکاری ادارے دنیا بھر میں کمرشل بنیادوں پر نہیں چلائے جاتے وہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔
ریڈیو پاکستان خصوصی توجہ کا مستحق ہے کا ش ریڈیو پاکستان کراچی کی کی یہ پر شکُوہ عمارت اپنی اصل حیثیت میں بحال ہو جائے۔ اسکی راہداریوں میں فنکاروں کا ہجوم ہو، سٹوڈیو نمبر نو کی رونقیں لوٹ آئیں، اور وہ عمارت جو اب شام ڈھلے تاریکی اور اداسی میں ڈوب جاتی ہے ،آوازوں کے رنگوں سے دوبارہ جگمگا اٹھے۔ میں منتظر ہوں ہواؤں کےدوش پر دور تک پھیلتی اس آواز کا “ یہ ریڈیو پاکستان کراچی ہے۔ ہم ایک مرتبہ پھر اپنی نشریات کراچی کی مشہور اور مصروف ترین شاہراہ محمد علی جناح روڈپر واقع براڈکاسٹنگ ہاؤس سے پیش کر رہے ہیں۔