عدلیہ آج بھی ایک عام شہری کی آخری امید ہے، آرٹیکل 199 کے ذریعے پر شہری کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے

سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس عدنان اقبال چوہدری نے کہا ہے کہ عدلیہ آج بھی ایک عام شہری کی آخری امید ہے، آرٹیکل 199 کے ذریعے پر شہری کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے 10ویں نیشنل جوڈیشل کانفرنس سے خطابن کرتے ہوئے کیا۔ جسٹس ہیلپ لائن کے تحت کانفرنس کا انعقاد مقامی ہوٹل میں کیا گیا۔ کانفرنس میں وائس چانسلر شہید ذولفقار علی یونیورسٹی آف لاء، اسپیشل جج اینٹی کرپشن امین اللہ صدیقی، صوبائی محتسب اعلی سہیل راجپوت، واصف علی میمن چئرمین سندھ ریونیو سمیت وکلا، سول سوسائیٹی اور کاروباری شخصیات نے شرکت کی۔ کانفرنس کے مہمان خصوصی سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس عدنان اقبال چوہدری نے خطاب میں کہا کہ اعلی اور ضلعی عدالتوں میں کیسز کا دباؤ بہت زیادہ ہے۔ سٹی کورٹ میں حالات کی بہتری کے لیئے حکومت سندھ ایکشن لے۔ پاکستان کی آبادی بڑھی ہے مگر ججز کی تعداد نہیں۔ آرٹیکل 199 کے ذریعے پر شہری کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے۔ کسی شہری کو بھی اگر مسئلہ ہو تو درخواست دائر کردے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ آج بھی ایک عام شہری کی آخری امید ہے۔ ایسے فورم کسی بھی نظام کی اصلاح میں معاون ہوتے ہیں۔ ہمارے سارے سول ججز قابل ہیں۔ عدالیہ کی رینکنگ سے متعلق کئی باتیں ہوتی ہیں کہ صورتحال اچھی نہیں مگر وہ بھی نہیں جو بیان کی جاتی ہے۔ دسویں نیشنل جوڈیشل کانفرنس سے خطان میں وائس چانسلر شہید ذوالفقار علی بھٹو کا یونیورسٹی اور سابق جج سندھ ہائیکورٹ مسز کوثر سلطانہ نے کہا کہ عدالتیں آخری امید ہیں اس کو دونوں ہاتھوں سے سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ صوبائی محتسب اعلی سہیل راجپوت نے کہا کہ حضرت علی کا قول ہے کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم کا نہیں۔ یقینا انصاف کے بغیر کوئی ریاست نہیں چل سکتی۔ پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ پاکستان معاشی طور بھی کئی چلینجز کا سامنا کر رہا ہے۔ آئی ٹی سمیت کئی شعبے ایسے ہیں جہاں کام کر کے معاشی استحکام لایا جا سکتا ہے۔ لوگ شکایتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن شکایات درج کم ہوتی ہیں۔ مسئلہ یا تو لوگوں کو ادارے کا پتا نہیں ہے یا تو ٹرسٹ نہیں ہے۔ ہم نے دونوں مسئلے کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے یوتھ کو بھی اس سلسلے میں انگیج کیا ہے۔ گزشتہ سال 8 ہزار شکایتیں آرہی تھیں۔ رواں سال 24 ہزار شکایتیں درج ہوئیں۔ انشاء اللہ ہم لوگوں کو انصاف بھی فراہم کریں گے۔ دسویں نیشنل جوڈیشل کانفرنس سے خطاب میں سینئر وکیل ڈاکٹر شہاب امام نے کہا کہ وطن عزیز کو بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ جوڈیشری کو آزاد ہونا چاہئے۔ مقامی عدالتوں کی صورتحال ابتر ہے ان کو ریفارمز کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن حسیب جمالی نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ عدالتیں، سائلین کو انصاف دینے کے لئے ہوتی ہیں لیکن وہ سب سے زیادہ نظر انداز ہوتے ہیں۔ فوری انصاف کے لئے ہمیں اپنے طریقہ کار میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ نظام انصاف میں بہتری کے لئے تمام فریقین کو ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ میں آئینی عدالتوں کی مخالفت کرتا ہوں۔ آئینی عدالتوں کا طریقہ کار شفاف نہیں۔ آئینی عدالتوں کے بعد عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوال اٹھ گیا۔ جو جج بنائے گا وہ توقعات بھی رکھے گا کسی فائدے کی۔ سول سوسائٹی کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جج کے دماغ میں یہ ہے کہ میں نے فیصلہ ہی حکومت کے حق میں کرنا ہے تو انصاف کہاں ملے گا۔ جنرل سیکریٹری سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن فریدہ منگریو نے کہا کہ قانون کی حکمرانی نہ ہو تو طاقتور لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔ عدالت مجبور طبقے کی آخری امید ہیں۔ قانون و انصاف کی فراہمی میں وکلا کا اہم کردار ہے۔ انصاف کی بات نہ ہو وہ ہوتا بھی نظر آنا چاہیئے۔ ایسے فورم انصاف کی جلد فراہمی سے متعلق نئی راہیں فراہم کرتے ہیں۔ سستا اور فوری انصاف ہر شہری کا حق ہے۔ قانون بنانا مسئلہ نہیں عمل در آمد کرانا مسئلہ ہے۔ فوری انصاف کے لئے مزید اصلاحات کے ضرورت موجود ہے۔ جسٹس پیلپ لائن کے ندیم شیخ نے کہا کہ کانفرنس کے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ کانفرنس کے اختتام پر مہمانوں میں یادگاری شیلڈ دی گئیں۔