علم الاعداد کے ماہر نظام کے الٹ پلٹ کی کہانیاں بیان کر رہے ہیں، سو میں اس سازشی موسم میں گھر بیٹھا رہتا ہوں۔

بودی شاہ سے ایک اور ملاقات
مظہر برلاس


28 نومبر ، 2025
نومبر کا آخری عشرہ چل رہا ہے، حکومتی دعوے ایک طرف، سیاسی پنڈت کچھ اور کہہ رہے ہیں جبکہ فلکیات کے علوم پر مہارت رکھنے والے نئی صبح کی نوید سنا رہے ہیں، علم الاعداد کے ماہر نظام کے الٹ پلٹ کی کہانیاں بیان کر رہے ہیں، سو میں اس سازشی موسم میں گھر بیٹھا رہتا ہوں۔ سرد موسم میں دوستوں کے ہمراہ دھوپ میں بیٹھتا ہوں، گپ شپ کرتا ہوں۔ آج گپ شپ کے دوران بودی شاہ بھی تشریف لے آئے، آج تو شاہ جی خیر سے گھوڑے پر سوار ہو کر آئے، میں نے ان سے کہا خیریت ہے؟ تو بولے “میں اپنے باپ دادا کو نہیں بھولتا، تمہاری یاد ستا رہی تھی تو ملنے آ گیا ہوں”۔ شاہ جی کو درمیان میں بٹھا دیا گیا، ارد گرد بندوں کا ہجوم جمع ہو گیا، بندے جمع ہو جائیں تو پھر تو شاہ جی کا جلال ہی دیکھنے والا ہوتا ہے، بندے حسب سابق حالات حاضرہ پر بات کر رہے تھے کہ شاہ جی سب کو چپ کراتے ہوئے بولے ” کیا آپ کو پتہ ہے ؟ لاہور میں جی او آر ون میں ایک پولیس اہلکار گھر میں واردات کے دوران پکڑا گیا ہے، آپ کو پتہ ہے نا جی او آر میں بڑے بڑے افسران رہتے ہیں اور بھی سن لو! ‏پاکستانی مسافروں کو ائرپورٹ پر آف لوڈ کرنے کا قصہ کیا ہے۔ پاکستانی عوام کے ذہن میں اب ایک ہی سوال بھڑکتے شعلے کی طرح دہک رہا ہے، اگر ایک مسافر کے پاس تمام کاغذات مکمل ہیں، ویزہ درست ہے، ہوٹل بُکنگ موجود ہے، ریٹرن ٹکٹ بھی ہے تو پھر آخر اسے ائرپورٹ پر آف لوڈ کرنے کا حق کس قانون نے دیا ہے؟ یہ سوال کوئی ایک مسافر نہیں پوچھ رہا۔ یہ آواز روزانہ ہزاروں پاکستانیوں کے دل سے اٹھ رہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ امیگریشن کا کام مسافر کی جیب، شلوار قمیض، وضع قطع یا لباس کا جائزہ لینا نہیں ہوتا۔ قانون یہی کہتا ہے کہ اگر کاغذات مکمل ہیں تو ایگزٹ اسٹیمپ لگا کر مسافر کو روانہ کر دیا جائے لیکن افسوس ہمارے ملک میں یہ سادگی کہیں کھو چکی ہے۔
ایئرپورٹ پر کیا ہو رہا ہے؟ ویزٹ ویزہ ہونے کے باوجود مسافروں کو روک لیا جاتا ہے، بغیر الزام گھنٹوں لائنوں میں بٹھایا جاتا ہے، کسی واضح وجہ کے بغیر گھروں کو واپس بھیج دیا جاتا ہے اور جب پوچھا جائے تو جواب یہ ہوتا ہے کہ آپ کی نیت درست نہیں لگ رہی تھی، یہ کس قانون کی تشریح ہے؟ یہ کون سا آئین ہے جو “نیت” کو پاسپورٹ سے زیادہ طاقتور سمجھتا ہے؟ یہ سختی نہیں بلکہ یہ تو اختیار کا بے رحمانہ استعمال ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ادارے ہی اس ظلم کو فائلوں میں “نارمل کارروائی” بنا کر محفوظ کررہے ہیں۔ ایک عام پاکستانی کی کہانی کاغذوں میں نہیں، آنکھوں میں لکھی ہوتی ہے۔ ایک مزدور اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے دو دو سال محنت کر کے ٹکٹ خریدتا ہے۔ زیور بیچ کر ویزہ لیتا ہے پھر ائرپورٹ پہنچ کر محض “شک” کی بنیاد پر روک لیا جائے، یہ صرف ناانصافی نہیں یہ اس کے خوابوں کو مسل دینا ہے، یہ ظلم ہے۔ گلف میں آج ملازمتیں بھارتی، بنگلہ دیشی، نیپالی، فلپائنی لے رہے ہیں، پاکستانی اس لئے پیچھے رہ گئے ہیں کہ نہ ملک میں روزگار ہے نہ باہر جانے دیا جاتا ہے۔ سفارتخانے بے بس، امیگریشن سخت گیر اور عام شہری دو دہائیوں سے ایک ہی چکر میں پسا ہوا ہے۔ اصل سوال، جس کا جواب آج تک کوئی نہیں دے سکا”۔ ایک آدمی بولا ” شاہ جی! بات تو قانون کی عمل داری کی ہے”۔ بودی شاہ کو غصہ آیا تو وہ گرجدار آواز میں بولے ” او قانون کے ٹھیکیدارو! میں تمہیں کچے کا قصہ سناتا ہوں، جہاں ڈاکوؤں نے کھوجی کتوں سمیت 4 افراد اغواکر لئے ہیں، چند دن پہلے کچے کے ڈاکوؤں نے ہنی ٹریپ سے چار افراد کو اغوا کیا، ٹریکٹر کی چوری تلاش کرنے کے لئے چار افراد کو بلایا اور کھوجی کتوں سمیت چار افراد کو اغوا کر لیا، چاروں افراد زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور ان کی رہائی کے لیے چار کروڑ روپے تاوان طلب کیا ہے۔ اب آپ کو مہذب دنیا کی سیر کروا دوں!! ایک ریٹائرڈافسر کیخلاف نیب نے انکوائری بند کر دی ہے، سابق چیئرمین واپڈا پر تربیلا فور پروجیکٹ میں 75 کروڑ 30 لاکھ ڈالر (212 ارب روپے) کی کرپشن کا الزام تھا۔ واضح رہے کہ نیب نے جون 2022 میں انکوائری کا آغاز کیا تھا۔ وہ آئی ایم ایف کی رپورٹ تو آپ سب نے پڑھ لی ہو گی!! ملک اس طرح ترقی نہیں کرتے، لیڈر شپ راستہ دکھاتی ہے۔ کیا آپ کو پتہ ہے اس وقت ایران میں ایک لاکھ کمپنیاں ایسی ہیں جن کے مالک اسٹوڈنٹس ہیں، ایرانی حکومت ٹیکنالوجی سے متعلقہ منصوبوں کو نہ صرف فوقیت دیتی ہے بلکہ کاروبار کیلئے بینکوں سے قرضوں کا بندوست بھی حکومت کر کے دیتی ہے”۔ آج تو بودی شاہ دنیا کی باتیں کر رہا تھا مگر ساتھ ساتھ اپنے ملک کو یاد کرتا اور ہر بار یہ شعر پڑھ دیتا کہ
تو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لُٹا
مجھے رہزنوں سے گِلہ نہیں، تیری رہبری کا سوال ہے