گوگل کا نیا منصوبہ: مصنوعی ذہانت کے لیے خلا میں ڈیٹا مراکز

گوگل نے اپنے ٹینسر پروسیسنگ یونٹس (TPUs) اے آئی چپس کو 2027 تک خلا میں بھیجنے کا منصوبے کا اعلان کیا ہے تاکہ مصنوعی ذہانت کی تربیت اور کمپیوٹنگ کی رفتار میں اضافہ ہو۔

کمپنی کے مطابق یہ اقدام مستقبل میں مداری حسابی ڈھانچہ کی جانب ایک اہم قدم ہوگا، جو روایتی کلاؤڈ ڈیٹا مراکز سے آگے جا کر اے آئی کی کمپیوٹیشن کے نئے امکانات پیدا کرے گا۔

گوگل کے چیف ایگزیکٹو افسر سندر پیچائی نے کہا ہے کہ جیسے جیسے اے آئی ماڈلز کی پیچیدگی بڑھ رہی ہے، زمین پر قائم ڈیٹا مراکز توانائی، ٹھنڈک اور دیگر وسائل کی محدودیت کا سامنا کر رہے ہیں، خلا میں نصب سیٹلائٹس نہ صرف مسلسل سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کریں گی بلکہ ماحولیاتی اثرات اور توانائی کی بچت کے لیے بھی مؤثر ثابت ہوں گی۔

گوگل کے مطابق ابتدائی طور پر دو ماڈل سیٹلائٹس خلا میں بھیجے جائیں گے، جو شمسی پینلز کے ذریعے طاقت حاصل کریں گے اور نوری رابطے کے ذریعے آپس میں ڈیٹا کا تبادلہ کریں گے۔

کمپنی نے کہا ہے کہ یہ سیٹلائٹس ایک جالی کی شکل میں کام کریں گے تاکہ بڑے ڈیٹا سیٹس پر اے آئی ماڈلز کی تربیت میں تیزرفتاری ممکن ہو سکے۔

کمپنی کے مطابق یہ منصوبہ تکنیکی اعتبار سے پیچیدہ ہے، کائناتی شعاعیں، خلا میں درجہ حرارت کے اتار چڑھاؤ اور مواصلاتی نظام کی پائیداری اہم چیلنجز ہیں جنہیں حل کرنا ضروری ہوگا، تاہم ابتدائی تجربات کے نتائج حوصلہ افزا ہیں اور گوگل کے ٹرائیلیم جنریشن یونٹس خلا میں کام کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔

گوگل کے مطابق یہ منصوبہ ابتدائی طور پر تحقیقی نوعیت کا ہے، لیکن اگر کامیاب ہوا تو 2030 کی دہائی میں خلا میں قائم اے آئی مراکز زمین پر موجود مراکز کا متبادل بن سکتے ہیں، اس سے نہ صرف اے آئی کی وسعت بڑھے گی بلکہ توانائی اور ماحول کے حوالے سے بھی جدید حل سامنے آئیں گے۔