
26نومبر 2025ء
بینک دولت پاکستان (ایس بی پی) کے گورنر جناب جمیل احمد نے زور دیا ہے کہ پاکستان کو قلیل مدتی معاشی استحکام کی کوششوں کے بجائے ہنگامی بنیادو ں پر ایک مضبوط، پائیدار اور بیرونی دنیا سے مربوط معاشی نمو کے ماڈل پر منتقل ہونا چاہیے۔ پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) کے ’معیشت پر مذاکرات‘ کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر جناب جمیل احمد نے اس بات کو اجاگر کیا کہ پاکستان بار بار معاشی نمو اور اس کے بعد استحکام کے تکلیف دہ اقدامات کے ادوار سے گذر چکا ہے، اور موجودہ حالات طویل مدتی تبدیلی لانے کا حقیقی موقع فراہم کرتے ہیں ، بشرطیکہ پالیسیوں میں تسلسل برقرار رہے اور نجی شعبہ حالات سے مطابقت کے لحاظ سے ہراول دستے کا کردار ادا کرے۔
جمیل احمد صاحب نے وضاحت کی کہ موجودہ استحکام کا مرحلہ گذشتہ ادوار سے کیوں مختلف ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب کلی معاشی نظم و ضبط ہم آہنگ اور مستقبل بین زری اور مالیاتی پالیسیوں کے ذریعے مستحکم ہوا ہے، اور اسی کی مدد سے اس قبل از وقت نرمی سے بچا جاسکا ہے جو ماضی میں استحکام کو متاثر کرتی رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرکزی بینک کی پیش گوئی کی بہتر صلاحیت سے پالیسی سازوں کو قلیل مدتی اظہاریوں کے بجائے آٹھ سہ ماہیوں کے تخمینوں کی بنیاد پر فیصلے کرنے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے توثیق کی کہ ’مہنگائی نہ صرف ہماری پیش گوئی کے مطابق کم ہوئی ہے بلکہ توقع ہے کہ وسط مدت میں یہ 5 تا7 فیصد کے ہدف میں برقرار رہے گی۔ ‘
جناب جمیل احمد نے زور دیا کہ بہتر استحکام کا ایک اہم ستون بیرونی بفرز کا معیاری طور پر مضبوط ہونا ہے۔ ماضی کے مقابلے میں قرض پر مبنی آمدنی پر انحصار کے بجائے زرمبادلہ ذخائر میں حالیہ اضافہ اسٹریٹجک زرِ مبادلہ خریداریوں اور کم ہوتے ہوئے مستقبل کے واجبات (forward liabilities) کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ 2022ء سے اب تک سرکاری شعبے کے بیرونی قرضے تقریباً مستحکم رہے ہیں، جبکہ بیرونی قرضوں اور جی ڈی پی کا تناسب 31 فیصد سے کم ہو کر 26 فیصد رہ گیا ہے۔ اسی مدت کے دوران اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 2.9 ارب ڈالر کی بہت نچلی سے بڑھ کر تقریباً 14.5 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، جو اس میں تقریباً پانچ گنا اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حقیقت کا اب پہلے سے زیادہ اعتراف کیا جا رہا ہے کہ پائیدار معاشی نمو کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں ہے، جب تک ماضی میں صرف (consumption) پر مبنی قلیل مدتی نمو کے ادوار کے بجائے پالیسی سازی کی سمت کا دوبارہ تعین کر کے اس کا رخ عوام کے لیے سماجی و معاشی خوشحالی کے طویل مدتی وژن کی طرف موڑ نہیں دیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ اس تبدیلی کی عکاسی حکومت اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے شروع کی گئی طویل مدتی اصلاحات سے ہوتی ہے جس کی بنیاد ملکی ساختہ پالیسی فریم ورک پررکھی گئی ہے۔ مالیاتی پہلو سے، گورنر نے بتایا کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران حکومت مسلسل پرائمری سرپلس (Primary Surplus) حاصل کرنے میں کامیاب رہی ، جس نے ملکی قرض کے اظہاریوں کو ایک پائیدار راستے پر ڈالنے میں مدد دی— یہ وہ نتیجہ ہے جو ماضی میں بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت طویل مدتی ساختی اصلاحات بھی نافذ کر رہی ہے، جن میں دستاویزیت اور ٹیکسوں کی بنیاد میں توسیع کے ذریعے ٹیکس اور جی ڈی پی کے تناسب میں اضافہ کرنا اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات شامل ہیں، تا کہ توانائی کی لاگت میں کمی لائی جا سکے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ان اصلاحات کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے مالی وساطت کے مسائل حل کرنے اور ملک بھر میں مالی شمولیت کو بڑھانے کی کوششوں سے تقویت ملی ہے۔
مستقبل کے حوالے سے، جناب جمیل احمد نے اس بات کو اجاگر کیاکہ پاکستان کے معاشی ماڈل کو تیزی اور مندی کے ایک اور چکر کو روکنے کے قابل ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا ماضی میں حاصل ہونے والی نمو کی اوسطیں—جو تقریباً 3 سے 4 فیصد کے آس پاس رہی ہیں—اب 250 ملین سے زائد آبادی والے ملک کو سہارا نہیں دے سکتیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ‘پاکستان ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے،’ ، انہوں نے نجی شعبے پر زور دیا کہ وہ زرِ اعانت(subsidy) یا ملکی منڈی کے تحفظ پر انحصار کرنے کے بجائے عالمی مسابقت کی راہ کو اختیار کرے۔
گورنراسٹیٹ بینک نے کاروباری اداروں پر زور دیا کہ وہ عالمی قدری زنجیروں (value chains) سے منسلک ہوں، پیداوار کو جدید بنائیں، امریکہ، چین اور مشرق وسطیٰ کی معیشتوں جیسے شراکت داروں سے ملنے والے مواقع سے فائدہ اٹھائیں، اور جدّت طرازی میں سرمایہ کاری کریں۔ انہوں نے کہا کہ، ‘ اگر ہماری فرمیں خود کو تبدیلی سے ہم آہنگ کرنا چاہیں تو تیز رفتار ڈجیٹلائزیشن، ماحول دوست تبدیلی، اور عالمی قدری زنجیر کی نئی ترتیب ہمارے لیے نئے مواقع کے دروازے کھول سکتی ہے۔‘ انہوں نے کاروباری اداروں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ منڈیوں سے استفادہ کر کے مالی ذرائع میں تنوّع پیدا کریں اور مالی آپریشنز میں جدید ڈجیٹل آلات اپنائیں۔ انہوں نے خاص طور پر قدری زنجیروں کی دستاویز یت پر زور دیا— جو پیداواریت میں بہتری، مالیات تک رسائی، اور قدری زنجیروں کی مضبوطی کے لیے ایک لازمی اقدام ہے۔
اپنے اختتامی کلمات میں گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ نے کہا: ‘ہمیں ایک ہی کام بار بار کرکے مختلف نتائج کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ جو استحکام ہم نے حاصل کیا ہے، اُسے اب طویل مدتی ترقی کی بنیاد بننا چاہیے۔ حکومت، اسٹیٹ بینک اور نجی شعبہ ایک ساتھ مل کر ہی پائیدار اور شمولیتی ترقی پر مبنی مستقبل یقینی بناسکتے ہیں۔’
***























