خبرنامہ نمبر8287/2025
کوئٹہ31 اکتوبر۔ گورنربلوچستان جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ ہر یونیورسٹی کے سینیٹ اجلاس کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ زیر بحث ایجنڈوں میں متعلقہ یونیورسٹی کے معاملات اور مسائل کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ سینیٹ کے معزز اراکین کی جانب سے دانشورانہ تجاویز اور تعمیری تنقیدی جائزے بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ منفرد نقطہ نظر شفافیت، جوابدہی اور اجتماعی دانش کے رحجان کو فروغ دیتا ہے. اسطرح سینیٹ کے اراکین کی متنوع مہارت اور تجربات کی بنیاد پر کئی اہم فیصلہ صادر کرنے میں مدد ملتی ہے. ان خیالات کا اظہار انہوں نے یونیورسٹی آف تربت کے 9ویں اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا. اس موقع پر صوبائی سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن صالح بلوچ، پرنسپل سیکرٹری ٹو گورنربلوچستان کلیم اللہ بابر، وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر گل حسن، پرووائس چانسلر ڈاکٹر منصور احمد، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا نمایندہ ڈاکٹر ظہور بازئی، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ناصر شاہ، فنانس ڈیپارٹمنٹ ایڈیشنل سیکرٹری عارف اچکزئی اور رجسٹرار آف یونیورسٹی آف تربت گنگوزار بلوچ سمیت سینیٹ کے ممبران موجود تھے. یونیورسٹی آف تربت کے سینیٹ ممبران سے گفتگو کرتے ہوئے کیا کہ تربت یونیورسٹی میں زیر تعمیر اکیڈمک بلاکس، میل اینڈ فیمیل ہاسٹلز اور اسپورٹس وغیرہ کی تعمیرات پر کام کی رفتار تیز کیا جائے تاکہ زیر تعلیم طلباءو طالبات ان سے بھرپور طریقے سے مستفید ہو سکیں. گورنر مندوخیل نے یونیورسٹی آف تربت کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر گل حسن اور ان کی ٹیم کا کاوشیں لائقِ تحسین ہیں تاہم فرد یا ادارے کی سطح پر بہتری کی گنجائش ہر وقت موجود رہتی ہے اور ہم اپنی تمام سرکاری یونیورسٹیوں کو اسلام آباد اور پنجاب کی یونیورسٹیوں کے برابر لانے کیلئے مزید کوششیں کرینگے.گورنر مندوخیل نے کہا کہ ہمیں اپنی مالی مجبوری کو مدنظر رکھتے ہوئے تنخواہوں کے پیکج کو پرکشش بنانے کی ضرورت ہے. تربت یونیورسٹی کے 9ویں اجلاس کے شرکاء کی نئی سفارشات اور تجاویز کی روشنی میں کئی نئے اہم فیصلے کیے گئے. آخر میں گورنر بلوچستان جعفرخان مندوخیل نے شرکاءکے درمیان یادگاری شیلڈز تقسیم کیے۔
﴾﴿﴾﴿﴾﴿
خبرنامہ نمبر8288/2025
کوئٹہ 31اکتوبر۔ صوبائی وزیر برائے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ سردار عبدالرحمن کھیتران سے مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی محترمہ آختَر بی بی نے ملاقات کی۔ ملاقات میں صوبے کی مجموعی سیاسی صورتحال، عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں اور ترقیاتی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔اس موقع پر سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہاکہ بلوچستان کی ترقی اور عوامی خوشحالی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو باہمی تعاون اور ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی، خصوصاً پینے کے صاف پانی اور صحتِ عامہ کے نظام کی بہتری کے لیے بھرپور اقدامات کر رہی ہے۔رکن قومی اسمبلی آختَر بی بی نے صوبائی وزیر کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) عوامی خدمت کے ہر مثبت اقدام میں حکومت بلوچستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گی.۔
﴾﴿﴾﴿﴾﴿
خبرنامہ نمبر8289/2025
خضدار 31 اکتوبر ۔جے یو آئی تحصیل زہری کے وفد کی وڈیرہ عبدالوہاب موسیانی کی قیادت میں کمشنر قلات ڈویژن ڈاکٹر طفیل بلوچ سے ملاقات، علاقائی مسائل کے حل میں مذید بہتری آنے کی امید۔جمعیت علماءاسلام تحصیل زہری کے وفد نے جمعہ کو کمشنر قلات ڈویژن ڈاکٹر طفیل بلوچ سے ملاقات کی اور علاقے کے عوام کو درپیش مختلف مسائل کے حل کے لیئے ضروری درخواستوں کو ان کی سامنے پیش کیا۔ وفد کی قیادت جےیوآئی کے سینیئر رہنماءوڈیرہ عبدالوہاب موسیانی کر رہے تھے، جبکہ وفد میں جے یو آئی تحصیل زہری کے امیر مولانا عبداللہ، حاجی محمد امین موسیانی، وڈیرہ نور احمد زہری، حاجی واحد بخش، عبد الحمید رئیس، حافظ محمد قاسم اور دیگر اراکین شامل تھے۔اس ملاقات میں اے ڈی سی رحمت اللہ بلوچ پی ٹی سی ایل آفیسر اعجاز احمد بھی موجود تھے۔وفد نے اپنی درخواستوں میں تحصیل زہری میں عوام کی انٹری میں نرمی ، یوریا کھاد لانے اور کپاس کی زرعی پیداوار کو تحصیل زہری سے باہر مارکیٹ تک لے جانے میں آسانی ، یوفون ٹاور کو رات کے اوقات میں فعال بنانے، پی ٹی سی ایل فائبر آپٹک کی بحالی سمیت دیگر مسائل کے بارے میں اظہار خیال کیا۔کمشنر قلات ڈویژن ڈاکٹر طفیل بلوچ نے وفد کو یقین دلایا کہ ان مسائل کے حل کے لیئے بتدریج اقدامات کیئے جا رہے ہیں اور اس سے قبل علاقے کے متعدد مسائل کا بھی حل نکالا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ عوام کی سہولیات کو ترجیح دے رہی ہے۔ جے یو آئی کے رہنماوں نے کمشنر قلات ڈویڑن کی توجہ اور یقین دہانی پر شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ ان کی درخواستوں پر عملدرآمد سے عوام کے حوصلوں کو تقویت ملے گی۔
﴾﴿﴾﴿﴾﴿
خبرنامہ نمبر8290/2025
گوادر31اکتوبر ۔ ڈپٹی کمشنر گوادر حمود الرحمٰن کی زیرِ صدارت کنٹانی ہور کے کاروباری مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں اسسٹنٹ کمشنر گوادر سعد کلیم ظفر، کنٹانی کمیٹی کے عہدیداران و اراکین، پک اَپ یونین کے نمائندگان، ڈپو مالکان، سیاسی و سماجی شخصیات اور میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔اجلاس کے دوران کنٹانی ہور کے مسائل اور ان کے حل سے متعلق تفصیلی گفتگو ہوئی۔ ڈپٹی کمشنر نے تمام شرکاء کے تحفظات، تجاویز اور آراء بغور سنی اور متعلقہ امور پر ہدایات جاری کیں۔شہریوں نے اس موقع پر اعتراف کیا کہ سنڈی پوائنٹ میں غیر قانونی کاروباری سرگرمیاں جاری ہیں جہاں نہ تو رجسٹریشن کا کوئی نظام موجود ہے اور نہ ہی چیک اینڈ بیلنس کا کوئی انتظام۔ شرکاء نے بتایا کہ سنڈی پوائنٹ میں بعض جرائم پیشہ عناصر کی مداخلت پائی جاتی ہے اور اطلاعات ہیں کہ ایران سے آنے والے مشتبہ افراد بھی وہاں سرگرم رہتے ہیں۔کناٹانی کمیٹی، پک اَپ یونین، ڈپو مالکان، سیاسی و سماجی رہنماوں اور میڈیا نمائندگان نے ڈپٹی کمشنر سے مطالبہ کیا کہ سنڈی پوائنٹ کو فوری طور پر بند کیا جائے اور کنٹانی ہور کو بحال کیا جائے، کیونکہ کنٹانی ایک منظم، رجسٹرڈ اور نظم و ضبط کے تحت چلنے والا کاروباری مرکز ہے جہاں غیر مقامی افراد کی مداخلت ممکن نہیں۔شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ سنڈی اور کاپران میں موجود بیشتر کاروباری افراد غیر مقامی ہیں اور ان کے پاس کسی قسم کی سرکاری رجسٹریشن نہیں ہے۔اجلاس میں شریک متعدد شہریوں اور کاروباری نمائندوں نے متفقہ طور پر کہا کہ سنڈی پوائنٹ کی بندش مقامی لوگوں کے مفاد میں ہے کیونکہ اس کے کھلے رہنے سے امن و امان کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔کنا نی کمیٹی، پک اَپ یونین اور ڈپو مالکان نے اعلان کیا کہ وہ سنڈی پوائنٹ کے خلاف ایک پریس کانفرنس منعقد کریں گے تاکہ ان کی آواز احکامِ بالا تک پہنچ سکے۔یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ سنڈی پوائنٹ کے حوالے سے شہری، بالخصوص سب تحصیل جیوانی کے رہائشی، متعدد مرتبہ اپنے تحفظات ڈپٹی کمشنر تک پہنچا چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غیر مقامی عناصر کی موجودگی سے علاقے میں بدامنی کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔اجلاس میں شریک کاروباری حضرات نے تجویز دی کہ ضلعی انتظامیہ پہلے چار دن کے لیے کنٹانی کو کھولے اور اس کے بعد سنڈی پوائنٹ کو بند کرے تاکہ عوام کو اعتماد حاصل ہو جائے کہ کنٹانی کی سرگرمیاں بحال ہو چکی ہیں۔مزید برآں شرکاء نے سفارش کی کہ سنڈی پوائنٹ پر مستقل چیک پوسٹ قائم کی جائے، جہاں سے غیر متعلقہ افراد کا داخلہ مکمل طور پر روکا جائے، اور غیر قانونی طور پر فیول یا دیگر اشیائکی نقل و حمل کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاون کیا جائے۔آخر میں شہریوں اور کاروباری نمائندوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ سنڈی پوائنٹ کی بندش کے فیصلے پر کسی قسم کا احتجاج نہیں کریں گے بلکہ ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔
﴾﴿﴾﴿﴾﴿
پریس ریلیز
کوئٹہ 31اکتوبر۔ بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین اصغر علی ترین کی زیرِ صدارت اسمبلی کے کمیٹی روم میں منعقد ہوا۔اجلاس میں اراکین اسمبلی حاجی ولی محمد نورزئی، فضل قادر مندوخیل، صفیہ بی بی، ڈائریکٹر جنرل آڈٹ بلوچستان شجاع علی، ایڈیشنل سیکرٹری پی اے سی سراج لہڑی، ایڈیشنل سیکرٹری لاء سعید اقبال، ایڈیشنل سیکرٹری محکمہ ہیلتھ محمد ثاقب خان , ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر غلام فاروق ، ایم ایس سنڈیمن سول کوئٹہ ڈاکٹر ہادی کاکڑ اور چیف اکاونٹس آفیسر پی اے سی سید محمد ادریس سمیت دیگر افسران نے شرکت کی۔اجلاس میں اسپیشل آڈٹ رپورٹ سنڈیمن پرووینشل ہسپتال کوئٹہ ، محکمہ صحت کے آڈٹ پیراز زیر غور آئے، جن میں ادویات کی غیرقانونی خریداری، اسٹور سے دواوں کی گمشدگی، آکسیجن سلنڈرز کی زائد نرخوں پر خریداری اور دیگر بے قاعدگیوں کے معاملات پر تفصیلی بحث ہوئی۔غیر قانونی خریداری ادویات — 30.016 ملین روپےآڈٹ رپورٹ کے مطابق اسپتالوں کی انتظامیہ نے مالی سال 2017 تا 2022 کے دوران 30.016 ملین روپے مالیت کی ادویات خریدیں، تاہم سپلائی آرڈرز اور بلز میں تضاد پایا گیا۔ ایک کمپنی کو آرڈر جاری کیا گیا جبکہ ادائیگی کسی دوسری کمپنی کو کی گئی۔ ریکارڈ میں اسٹاک رجسٹر اور معائنے کی رپورٹس بھی موجود نہیں تھیں۔محکمہ صحت نے وضاحت دی کہ ایم/ایس ہیلتھ ٹیک کوئٹہ، ایم/ایس فرنٹیئر ڈیکسٹروز لمیٹڈ پشاور کا مجاز ڈسٹری بیوٹر ہے، جس نے سپلائی اور ادائیگی کا عمل مکمل کیا۔ تاہم کمیٹی نے وضاحت کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔ چیئرمین اصغر علی ترین نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پبلک اکاونٹس کمیٹی احکامات کو آٹھ ماہ گزرنے کے باوجود نتیجہ صفر ہے، ذمہ داروں کا تعین کیا جائے اگر فیصلہ نہیں مانتے تو ایف آئی آر درج کر کے رپورٹ کمیٹی کو ارسال کی جائے۔کمیٹی نےفیصلہ کیا کہ جو افسر ریکارڈ فراہم نہیں کرے گا، اسے عہدے سے فارغ کر دیا جائے گا۔ پبلک اکاونٹس کمیٹی کے فورم کو مطمئن کرنا لازم ہے، صفیہ بی بی ممبر پی اے سی پی اے سی کے احکامت پر اگر محکمہ عمل درآمد نہیں کریگا تو سخت کارروائی کی سفارش کی جائے گی۔ ولی محمد نورزئیاراکینِ کمیٹی حاجی ولی محمد نورزئی نے کہا کہ بلوچستان پبلک پروکیورمنٹ رولز کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور آٹھ ماہ بعد بھی کوئی پیش رفت نہ ہونا افسوسناک ہے۔کمیٹی نے حکم دیا کہ متعلقہ کمپنی اور فرنچائز کے ریٹس کا تقابلی جائزہ لیا جائے، نرخوں میں فرق ہوا تو سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔مرکزی اسٹور سے ادویات کی گمشدگی — 22.825 ملین روپےآڈٹ رپورٹ کے مطابق سول ہسپتال کوئٹہ کے اسٹور سے مالی سال 2019-20 کے دوران 22.825 ملین روپے مالیت کی ادویات غائب پائی گئیں۔تحقیقات میں معلوم ہوا کہ سابقہ فارماسسٹ نے بیماری کے باعث بروقت انٹریاں درج نہیں کیں، جس سے ریکارڈ میں خلل پیدا ہوا۔ تاہم متعلقہ فارماسسٹ کی جانب سے آج تک مکمل ریکارڈ جمع نہیں کرایا گیا جوکہ باعث تشویش ہے۔ کمیٹی نے سیکرٹری صحت کو ہدایت دی کہ معاملے کی باقاعدہ انکوائری کر کے رپورٹ ایک ہفتے کے اندر پیش کی جائے اور غفلت کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔آکسیجن سلنڈرز کی زائد نرخوں پر خریداری — نقصان 1.342 ملین روپےآڈٹ رپورٹ کے مطابق معاہدے کے تحت سلنڈرز کی قیمت 537 روپے مقرر تھی، تاہم وبائی دور میں مارکیٹ سے 40 ہزار روپے فی سلنڈر کے حساب سے خریداری کی گئی، جس سے حکومت کو 1.342 ملین روپے کا نقصان پہنچا۔مزید یہ کہ تمام کوٹیشنز ایک ہی تحریر میں تیار کی گئی تھیں، جس سے شفافیت پر سوال اٹھتا ہے۔کمیٹی نے پیرا کو موخر کرتے ہوئے محکمہ صحت کو ہدایت دی کہ تمام ریکارڈ ، معاہدے اور متعلقہ ریکارڈ کی اصل نقول کمیٹی کے سامنے پیش کی جائیں۔چیئرمین اصغر علی ترین نے واضح کیا کہ مالی نظم و ضبط اور شفافیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، ہر ادارہ آئندہ اجلاس سے قبل اپنی مکمل رپورٹ جمع کرائے محکمہ صحت کی طرف سے عدم تیاری پر کمیٹی نے تشویش کا اظہار کیا کہ اسپیشل آڈٹ رپورٹ کے مطابق 10443.433 ملین بجٹ کی آڈٹ کی گئی ہے اور پی اے سی کی سابقہ اجلاس منعقدہ مورخہ 14 فروری 2025 کو سیکرٹری صحت کی درخواست پر محکمہ کو موقع فراہم کیاگیا۔ اب آٹھ ماہ گزر نے کے باوجود بھی محکمہ صحت کی طرف سے کوئی بھی انکوائری نہیں کی گئی اور محکمہ کی طرف سے پی اے سی کی کسی بھی فیصلہ پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔جس پر کمیٹی نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے میٹنگ کو برخاست کیا اور محکمہ کو ایک ہفتہ کا ٹائم دیا کہ پی اے سی کے فیصلہ کے مطابق ڈی جی آڈٹ کو ریکارڈ فراہم کر ے اور فیصلوں پر عمل درآمد کرے، بصورت دیگر معاملات کو نیب یا دیگر انویسٹیگیشن ادروں کے حوالہ کیا جائیگا۔
﴾﴿﴾﴿﴾﴿
Load/Hide Comments























